دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد نہ صرف بھارت اور شیخ عبداللہ خاندان کے درمیان شیطانی معاہدہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے درمیان الحاق ہندوستان کا نام نہاد معاہدہ بھی ختم ہو گیا ہے،

دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں کو 70 سال پہلے کی پوزیشن پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے، بھارت کے ساتھ دوستی کے راگ الاپنے والوںکی بھی آنکھیں کھل گئی اور وہ برملا کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے ان کے ساتھ کھلا دھوکہ کیا ہے صدرآزاد کشمیر سردار مسعود خان کا سندھی زبان کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو

جمعہ 23 اگست 2019 17:37

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اگست2019ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد نہ صرف بھارت اور شیخ عبداللہ خاندان کے درمیان شیطانی معاہدہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے درمیان الحاق ہندوستان کا نام نہاد معاہدہ بھی ختم ہو گیا ہے، دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں کو 70 سال پہلے کی پوزیشن پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے، بھارت کے ساتھ دوستی کے راگ الاپنے والوںکی بھی آنکھیں کھل گئی اور وہ برملا کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے ان کے ساتھ کھلا دھوکہ کیا ہے۔

سندھی زبان کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ اور بھارتی حکومت کے درمیان معاہدے کو کشمیری اس لئے شیطانی معاہدہ کہتے ہیں کہ اس معاہدے کی آڑ میں جموں و کشمیر کے عوام کا پاکستان کے ساتھ تعلق کاٹا گیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ ایک دھوکہ تھا جس کا پردہ سات دہائیوں کے بعد 5 اگست2019ء کو چاک ہو گیا اور اب شیخ عبداللہ خاندان کی تیسری نسل یہ کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ فریب ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کو دفعہ 370 کے ختم ہونے کا کوئی غم نہیں بلکہ اصل نقصان دفعہ 35 اے کے خاتمہ سے ہوا جس کے ذریعے کشمیریوں کے بعض بنیادی اور کلیدی اہمیت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جس کے خلاف وہ بھرپور مزاحمت کریں گے اور بھارت کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کریں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لائے جانے کے حوالہ سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر آزادکشمیر نے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس سے مسئلہ کشمیر نہ صرف عالمی سطح پر اجاگر ہوا بلکہ پہلی بار روس سمیت سلامتی کونسل کے کسی ممبر نے مسئلہ کشمیر کو اس عالمی فورم پر اٹھانے کی کوئی مخالفت نہیں کی۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات نہ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بھارت مذاکرات کے عمل کو کشمیر پر اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے لہذا بھارت سے مذاکرات کے بجائے بین الاقوامی برادری کے ذریعے دبائو بڑھا کر یہ مسئلہ حل کیا جائے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں تنازعہ کشمیر کو لے جانے کی حمایت کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان صرف دو معاملات اٹھائے اور وہ دو معاملات مقبوضہ کشمیر میں قتل عام اور نسل کشی رکوانے اور 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کی واپسی تک محدود ہونے چاہئے۔ انہوں نے کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں نہیں اٹھایا جانا چاہئے کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کی شکل میں طے کر رکھا ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے طریق کار بھی تجویز کر رکھا ہے۔

امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالہ سے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ہم نے اس کا خیرمقدم کیا تھا جبکہ بھارت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ثالثی ہو یا اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اور کوئی فارمولہ اس میں کشمیریوں کی منشاء اور مرضی کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم نے ہمیشہ کشمیر کاز کی بھرپور حمایت کی جس کا یہ تنظیم بار بار اعادہ کرتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کی دو اہم ممالک ترکی اور ایران نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی البتہ کچھ دوست ممالک نے اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہماری ایسی سفارت کاری ہونی چاہئے تاکہ ہم خاموش ممالک کو بھی بولنے پر مجبور کریں ، جو مخالف ہیں ان کو موافق بنائیں اور جو حمایتی ہیں ان کو حمایت پر قائم رکھیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے بااثر ممالک بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی ختم کرنے، کشمیر میں کرفیو اور شہری آزادیوں پر عائد پابندیاں ختم کرانے اور ریاست میں 5 اگست 2019ء سے پہلے والی پوزیشن کو بحال کرنے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھانا چاہئے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں