دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں کو 70سال پہلے کی پوزیشن پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے،سردار مسعود خان

کشمیری عوام کو اصل نقصان دفعہ 35 ۔ اے کے خاتمہ سے ہوا جس کے ذریعے کشمیریوں کے بعض بنیادی اور کلیدی اہمیت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ،بھرپور مزاحمت کریں گے اور بھارت کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کریں گے،صدر آزاد کشمیر

جمعہ 23 اگست 2019 17:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اگست2019ء) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد نہ صرف بھارت اور شیخ عبد اللہ خاندان کے درمیان شیطانی معائدہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے درمیان الحاق ہندوستان کا نام نہاد معائدہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد بھارت نواز کشمیری سیاست دانوں کو 70سال پہلے کی پوزیشن پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے ۔

بھارت کے ساتھ دوستی کے راگ الاپنے والوںکی بھی آنکھیں کھل گئی اور وہ برملا کہتے ہیں کہ نئی دہلی نے ان کے ساتھ کھلا دھوکہ کیا ہے۔ سندھی زبان کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ شیخ محمد عبد اللہ اور بھارتی حکومت کے درمیان معائدے کو کشمیری اس لئے شیطانی معائدہ کہتے ہیں کہ اس معائدے کی آڑ میں جموں وکشمیر کے عوام کا پاکستان کے ساتھ تعلق کاٹا گیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ ایک دھوکہ تھا جس کا پردہ سات دہائیوں کے بعد 5اگست2019کو چاک ہو گیا اور اب شیخ عبد اللہ خاندان کی تیسری نسل یہ کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ فریب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کو دفعہ 370کے ختم ہونے کا کوئی غم نہیں بلکہ اصل نقصان دفعہ 35 ۔ اے کے خاتمہ سے ہوا جس کے ذریعے کشمیریوں کے بعض بنیادی اور کلیدی اہمیت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جس کے خلاف وہ بھرپور مزاحمت کریں گے اور بھارت کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کریں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لائے جانے کے حوالہ سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر آزادکشمیر نے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس سے مسئلہ کشمیر نہ صرف عالمی سطح پر اجاگر ہوا بلکہ پہلی بار روس سمیت سلامتی کونسل کے کسی ممبر نے مسئلہ کشمیر کو اس عالمی فورم پر اٹھانے کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات نہ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بھارت مذاکرات کے عمل کو کشمیر پر اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے لہذا بھارت سے مذاکرات کے بجائے بین الاقوامی برادری کے ذریعے دبائو بڑہا کر یہ مسئلہ حل کیا جائے۔

حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی عدالت انصاف میں تنازعہ کشمیر کو لے جانے کی حمایت کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں پاکستان صرف دو معاملات اٹھائے اور وہ دو معاملات مقبوضہ کشمیر میں قتل عام اور نسل کشی رکوانے اور پانچ اگست 2019کے بھارتی اقدامات کی واپسی تک محدود ہونے چاہیے۔ انہوں نے کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں نہیں اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کی شکل میں طے کر رکھا ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے طریق کار بھی تجویز کر رکھا ہے۔

امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالہ سے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ہم نے اس کا خیرمقدم کیا تھا جبکہ بھارت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ثالثی ہو یا اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اور کوئی فارمولہ اس میں کشمیریوں کی منشاء اور مرضی کو شامل کرنا ناگزیر ہے۔ مسئلہ کشمیر پر عالم اسلام کی خاموشی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم نے ہمیشہ کشمیر کاز کی بھرپور حمایت کی جس کا یہ تنظیم بار بار اعادہ کرتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کی دو اہم ممالک ترکی اور ایران نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی البتہ کچھ دوست ممالک نے اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہماری ایسی سفارت کاری ہونی چاہیے تاکہ ہم خاموش ممالک کو بھی بولنے پر مجبور کریں ، جو مخالف ہیں ان کو موافق بنائیں اور جو حمایتی ہیں ان کو حمایت پر قائم رکھیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے بااثر ممالک بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی ختم کرنے، کشمیر میں کرفیو اور شہری آزادیوں پر عائد پابندیاں ختم کرانے اور ریاست میں 5اگست 2019سے پہلے والی پوزیشن کوبحال کرنے کے لئے بھارت پر دبائو بڑہانا چاہیے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں