پیپلزپارٹی کو طاہرا لقادری سے خطرہ نہیں،وہ لانگ مارچ کی بجائے انتخابی اصلاحات کیلئے الیکشن کمیشن کو تجویز دیں ، ایم کیو ایم ہماری اتحادی ضرور ہیں لیکن وہ ہر کام دائرہ اختیار میں رہ کر کررہے ہیں اورطاہر القادری کے مارچ میں شرکت انکا اپنا فیصلہ ہے،کالا باغ ڈیم جبر کے نظام میں نہیں بن سکا تو اب کیسے بنے گا اور کوئی بھی اپنی مقبولیت کم ہونے کے خوف سے متنازعہ مسائل نہیں چھیڑتا، جب تک لوگوں کو حق نہیں ملے گاریاست مستحکم نہیں ہو گی، ایسا کمیشن بنایا جائے جو تعین کرے کہ پاور سیکٹر پر کام کیوں نہیں ہوسکا،سیاست دانوں پر تنقید ہوتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ان کو عرصہ کتنا ملا ہے، توانائی بحران سے ساری ملکی معیشت متاثر ہوئی ، حکومت ملی تو ملک سر کے بل کھڑا تھا اب ہم نے ملک کو اصلاحات کر کے پا ؤں کے بل کھڑا کر دیا،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کا پاکستان انجینئرنگ کانگریس کی صد سالہ تقریبات کے افتتاحی سیشن سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو

پیر 31 دسمبر 2012 22:54

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔31دسمبر۔ 2012ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ طاہر القادری لانگ مارچ کر نے بجائے الیکشن کمیشن کو تجویز دیں وہ کیسی انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں مگر خوشی کی بات ہے کہ عالم دین آئین کی بات کر رہے ہیں،طاہر القادری پر امن رہیں اور آئین کے مطابق کام اور لانگ مارچ کریں تو کسی کو خطرہ نہیں، ایم کیو ایم ہماری اتحادی ضرور ہیں لیکن وہ ہر کام دائرہ اختیار میں رہ کر کررہے ہیں اورطاہر القادری کے مارچ میں شرکت انکا اپنا فیصلہ ہے ،کالا باغ ڈیم جبر کے نظام میں نہیں بن سکا تو اب کیسے بنے گا اور کوئی بھی اپنی مقبولیت کم ہونے کے خوف سے متنازعہ مسائل نہیں چھیڑتا، جب تک لوگوں کو حق نہیں ملے گاریاست مستحکم نہیں ہو گی، ایسا کمیشن بنایا جائے جو تعین کرے کہ پاور سیکٹر پر کام کیوں نہیں ہوسکا،سیاست دانوں پر تنقید ہوتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ان کو عرصہ کتنا ملا ہے، توانائی بحران سے ساری ملکی معیشت متاثر ہوئی ، حکومت ملی تو ملک سر کے بل کھڑا تھا اب ہم نے ملک کو اصلاحات کر کے پا ؤں کے بل کھڑا کر دیا ۔

(جاری ہے)

وہ سوموار کے روز مال روڈ پر مقامی ہوٹل میں پاکستان انجینئرنگ کانگریس کی صد سالہ تقریبات کے افتتاحی سیشن سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا اور ملک میں بجلی کی کمی اور مہنگائی کی وجہ بھی یہی ہے تاہم ہمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ وہ کون سے حکمران تھے جنہوں نے ڈیمز بنانے جیسے کام نہیں کئے۔

گزشتہ دور میں بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوا اور تختیاں لگائی گئیں لیکن پتہ چلا کہ بھاشا ڈیم کیلئے ایک انچ بھی زمین نہیں خریدی گئی۔موجودہ حکومت نے ساڑھے 3 سالوں میں بھاشا ڈیم پر کام کیا اور اب اس منصوبے کا ٹینڈر ہونا باقی ہے۔موجودہ اتحادی حکومت نے سابق دور حکومت کے منصوبوں کو چلانے کی روایت قائم کی اور سیاست سے تلخیاں ختم کر کے مشاورت سے چلنے کا رویہ اپنایا۔

پراجیکٹ بنانے کے لئے اب طریقہ کار طے ہے اور وہ فورم مشترکہ مفادات کونسل ہے اور جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں پراجیکٹ پر اتفاق رائے نہیں ہوتا وہ پراجیکٹ نہیں بن سکتا۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی صدر ہیں حالانکہ وہ ایسے صدر ہیں جنہوں نے اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دیئے۔

موجودہ حکومت نے این ایف سی کا فارمولا دیا جس کے تحت صوبوں کے پاس وسائل وفاق کی نسبت زیادہ ہیں اور اب مرکز صوبوں کی طرف دیکھتا ہے۔جس طرح آئین پاکستان کو مفاہمت اور اتفاق رائے سے اصلی شکل میں بحال کیا گیا ہے اسی طرح مفاہمت سے قومی اہمیت کے حامل منصو بے لگانے ہوں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جب 2008 ء میں پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی تو ان حالات میں حکومت ہمارے حوالے کی گئی اس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔

ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی تھی،پاکستان سکڑ رہا تھا،موجودہ حکومت نے موثر اقدامات کر کے دہشت گردی کے سٹرکچر کو توڑا۔انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد پہلے سال ہم نے 25 لاکھ ٹن گندم درآمد کی لیکن آج ہم گندم برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاشی خودمختاری سب سے بڑی خودمختاری ہے جس کے لئے حکومت ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر پاکستان مستحکم ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو ڈاکٹر طاہرالقادری یا ان کی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں،ایم کیو ایم ہماری اتحادی ضرور ہیں لیکن وہ ہر کام دائرہ اختیار میں رہ کر کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو اصلاحات چاہتے ہیں اپنی تجاویز دیں لیکن آئین سے باہر کوئی کام نہ کریں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صدر پربہت سے لوگوں کو اعترا ض ہے کہ وہ سیاسی صدر ہیں حالانکہ انہوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ اور صوبوں کو تفویض کر دئیے ۔

پہلی دفعہ حکومت نے این ایف سی کا فارمولہ دیا پہلے صوبے مرکز کی طرف دیکھتے تھے لیکن اب مرکز صوبوں کی طرف دیکھتا ہے ۔ ڈکٹیٹروں اور آمروں نے ملک و قوم کے لئے کچھ نہیں کیا یہ صرف اپنے اقتدار ہی بچاتے رہے ہیں ۔ا نہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں سابقہ حکومت کے منصوبوں پر کام روکا نہیں گیا بلکہ انہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچا یا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ریاست کو سر کے بل سے پاؤں پر کھڑا کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم شہیدوں کے خون سے بندھے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ انجینئرزیقیناریاست کی تعمیرو ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔دنیاکے تمام فورمز پر ہمارے ڈاکٹرز،انجینئرز نے ثابت کیا کہ وہ کم صلاحیت کے مالک نہیں جو ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔انہوں نے کہاکہ ترقی یافتہ ممالک میں بجٹ کا بڑا حصہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ ہوتا ہے لیکن پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے یہاں وسائل محدود ہیں۔

بلاشبہ انجینئرز نہ صرف قومی تعمیر بلکہ قومی دفاع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس حوالے سے نجی شعبہ لائق تحسین ہے جس نے ہمیں ایسے ادارے فراہم کئے جو نہ صرف انجینئرز کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ وہ قومی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے قیام سے لے کر ملک میں بہت سے آمر اور سیاستدان آئے جنہوں نے ملک کے بنیادی ایشوز کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی،جب بھی ملک کے بنیادی ایشوز کو حل کرنے کی کوشش کی گئی وہ بھٹو دور حکومت یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں ہوئی،ہم نے ہمیشہ نئی ریاست تشکیل دینے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کو کتنا عرصہ ملک ملا اور کن حالات میں ملا۔آمروں نے پاکستان کو اس کے بنیادی نظام سے ہٹا دیا۔اس موقعہ پر دیگر نے بھی خطاب کیا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں