انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،چیف جسٹس نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا‘ اعظم نذیر تارڑ

ہفتہ 27 اپریل 2024 23:31

انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،چیف جسٹس نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا‘ اعظم نذیر تارڑ
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 اپریل2024ء) وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،ہمیں گزشتہ چالیس سال سے دہشتگردی کا سامنا ہے، اظہار رائے کا حامی ہوں اور یہ میرے دل کے بہت قریب ہے، ڈیجیٹل رائٹس اور قابل اعتراض مواد کے معاملے پر بہتری جلد آئے گی، چیف جسٹس پاکستان نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ کانفرنس میںسپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ ،پیپلزپارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ ،سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون ، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی ،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت، یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ ،مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خرم دستگیر اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

وزیر قانون اعظم نذیر تار ڑ نے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،عاصمہ جہانگیر کہتی تھیں آپ بے آزادوں کی آواز بنیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کرے گی ،آئینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو کئی سالوں سے دہشتگردی کا سامنا تھا ،مجھے انسانی حقوق کی وزارت کا ایڈیشنل چارج لینے کا کہا گیا،آازادی اظہار رائے میرے دل کے قریب اور حکومت کی ترجیح ہے، سوشل میڈیا کے نامناسب استعمال بارے ہم کام کر رہے ہیں اور پالیسی بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ دبا نہیں رہنا چاہیے، لاپتہ افراد کے معاملے پر وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی کا رکن ہوں،سیاسی قوتوں سے بھی اس مسئلے پر بات کی ہے، تمام مسائل کو مذاکرات کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،عدلیہ مکمل آزاد ہونی چاہیے، ترقی کے لئے فرد سے نکل کر سسٹم میں آنا ہوگا، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے،ہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ،پاکستان میں 2.4ملین کیسز زیر التواء ہیں، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،زیر التوا کیسسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہو گا ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے بڑی خدمات ہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں آج مستقبل کی بات کروں گا۔جب تک ہم ایک سسٹم کے تابع نہیں ہونگے تب تک ہم بہترین جوڈیشل سسٹم قائم نہیں کر سکتے ،آئین ہمیں یہ کہتا ہے کہ ایک آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے، ہماری جوڈیشری میں کالے دھبے بھی ضرور ہیں ، ہماری جوڈیشری میں ہزاروں فیصلے ہرسال ہوتے ہیں اس میں سے کچھ فیصلے تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیںلیکن میں جوڈیشری کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں یہ بہت سارے فیصلے کرکے کام بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں 2.4ملین کیسسز زیرء التوا ہیں، ، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39 ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے، میں دنیا میں ہماری جوڈیشری کے اس نمبر کو بہتر نہیں کہونگا۔انہوں نے کہا کہ میں عدلیہ کی تاریخ سے بہت خوش نہیں ہوں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس پر عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے، اپنیسسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کسی سیشن جج سے پوچھوں تو وہ کیس کے بارے میں نہیں بتا سکتے، ہمیں اسمارٹ ٹیکنالوجی ڈسڑکٹ لیول تک لے کر جانی ہے، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے۔جسٹس منصور نے کہا کہہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ۔ جو جج صحیح کام نہیں کررہا تو نکال باہر کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم فیصلہ لینے کے لئے اپنی مرضی کا جج لگائیں ۔

میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے لیے بہترین اقدامات کیے، ایسا سسٹم لانا چاہتے ہیں جس میں کیس اور بینچ کی تشکیل آٹومیٹک ہو، بینچز کی تشکیل کے آرٹفیشل انٹلیجنس کو استعمال کرنا ہو گا ، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک بہترین جانب جانے کا ذریعہ بنا ہے، ہمیں دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے، عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم ہونا چاہیے، جس جج کوسلیکٹ کر رہے ہیں سفارش کے بجائے اس کا کام دیکھیں اور میرٹ پر بنائیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4ہزار ججز ہیں اور 3ہزار کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آبادی 231ملین ہے، اس تناسب سے فی ملین 13جج ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21ہزار جج درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے، کرکٹ میچ ہار گئے تو اسٹرائیک ہو جائے گی، لوگ بکریاں بھینس بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ برازیل میں بجٹ میں سب سے اہم جوڈیشری ہے، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے تحت 80فیصد کیس ملتوی کرا دیئے جاتے ہیں، جہاں عدلیہ کی جانب سے کچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کیسوں میں تاخیر کرتے ہیں، ہڑتال میں کسی شخص کو عدالت آنے کے لئے کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کا احساس کریں۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں 203لوگوں کے لئے ایک وکیل ہے، پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے، پاکستان میں وکلاء کی تعداد بڑھنی چاہیے لیکن وکلا صحیح ہوں، دنیا بھر میں کمرشل کورٹس کو اہمیت دی جاتی ہے ہمیں اس پر توجہ دینی ہوگی، پاکستان میں کمرشل کوریڈور بنے گا اس سے معیشت کے معاملات حل کرنے میں آسانی ہوگی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 50فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین جج نہیں لا رہے، 562جج خواتین ہیں اس کے لئے ہمیں اہم اقدامات کرنا ہوں گے، جب تک ٹریننگ نہیں ہوگی سسٹم نہیں چل سکتا، ٹریننگ اور اصلاحات چھوڑ دیں تو سسٹم میں بہتری نہیں آسکے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس سسٹم کمزور ہوگا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کرے گا۔انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی سسٹم کو لائیں، زیر التوا کیسسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہوگی، ہمیں ایسا سسٹم بنانا ہے جس سے معلوم ہوسکیں کہ کیس کیوں التوا کا شکار ہے، ایسا الارم بیل بنانا چاہتے ہیں جو بتا دے کہ فلاں کیس کو 3سال ہوچکے ہیں، سرخ، گرین اور یلیو کی بنیاد کر کام شروع کر دیا ہے، ایک وقت آئے گا تمام کیسسز گرین ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم کام ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار ہے، اس وقت جوڈیشل کمیشن کے پاس رولز کا معاملہ زیر التوا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ جج کو تعینات کیسے کرنا ہے، کیوں کہ ایک جج نے 20سال سسٹم میں رہنا ہوتا ہے، ایک جج سسٹم بیٹھا سکتا ہے اور اٹھا بھی سکتا ہے، ایسا سسٹم لانا ہے کہ جج کا بیٹا جج اور اسکا بیٹا جج ناں بن سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کمرشل کورٹ ہی کوئی نہیں، پاکستان میں پورا کمرشل کوریڈور بننا چاہیے، ریونیو کے کیسز اور اکانومی کے معاملات کمرشل کورٹ میں ہی دیکھے جاتے ہیں، ہمیں اپنا کمرشل کوریڈور شروع کرنا ہے جس پر کام جاری ہے، جب تک مستقبل ٹریننگ نہیں ہوگی،سسٹم نہیں چل سکتا۔پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ یہاں یہ کہا گیا کہ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ،میں کہتی ہوں 2018 میں جتنی دھاندلی ہوئی 2024 میں اتنی نہیں ہوئی ،یہ افسوس کی بات ہے یہاں پر کسی جمہوری وزیراعظم نے پانچ سال مکمل نہیں کیے مگر 18ویں ترمیم کے بعد ملک میں جمہوریت رہی ،چودہ سال ہونے کو ہیں کبھی آمریت نہیں آئی،ہائبرڈ رولز کا آغاز 2014کے دھرنے سے ہوا ۔

یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو بڑی تعداد میں شہریوں نے ووٹ کاسٹ کیا ،پاکستان میں پولنگ ڈے پر انٹرنیٹ سروس کی بندش تھی ،نئی حکومت بن چکی ہے حکومت کو چاہیے کہ شہریوں کے لیے مساوات کے ساتھ پالیساں بنائے ،پاکستان کو موجودہ حالات میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں اس ہفتے فلسطین کے حق میں احتجاج پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا ،عاصمہ جہانگیر آمریت کے خلاف کھڑی ہوتی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ بری طرح داغدار ہے ،سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھنا بہت اچھا ہے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ منتخب ایوان سب سے کمزور ادارہ ہے ،سب سے زیادہ اور پہلے تنقید پارلیمان کے نمائندوں پر ہوتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ آپ ذمہ داری دے رہے ہیں مگر اتھارٹی نہیں دی جارہی ،آٹے کے بحران کی ذمہ داری پارلیمان پر نہیںڈالی جا سکتی ۔

،پارلیمان میں آواز اٹھا سکتا ہوں مسائل کا ذمہ دار میں نہیں حکومت ہے ،منتخب نمائندے سائل بن کر بیٹھے ہیں ،کمشنر کا دفتر ہو یا وفاقی سیکرٹری کا دفتر ہو ، پارلیمانی جمہوریت ایم این اے بنانے کا نام نہیں ۔سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے میں ایسی قانون سازی ہوئی جس کو پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا تھا۔بل آتا تھا بس سٹیپ ہوتا تھا اور بل منظور ہو جاتا تھا، ایسے قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا مگر میں نے دیکھا پولنگ اسٹیشنز پر لوگوں نے ووٹ ڈالنے والوں کو ہمارے امیدواروں کے نشانوں کے بارے آگاہی دی، کبھی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ عدلیہ حکومتی پالیسیوں میں مداخلت کرتی ہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں