آزادکشمیر میں تیرہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے قائم کی گئی کمیٹی پرآزادکشمیر حکومت کو شدید تحفظات ہیں ،چوہدری طارق فاروق

آزادکشمیر اور پاکستان کے مابین تعلقات سیاسی جماعتوں کی سطح پر نہیں بلکہ نظریاتی اور عوامی سطح پر ہیں ، انتظامی کے بجائے سیاسی انداز میں آزادکشمیر کے معاملات کو دیکھا جائے،سینئر وزیر آزاد کشمیر حکومت

بدھ 19 ستمبر 2018 16:34

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2018ء) سینئر وزیر آزادکشمیر حکومت چوہدری طارق فاروق نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آزادکشمیر میں تیرہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے قائم کی گئی کمیٹی پرآزادکشمیر حکومت کو شدید تحفظات ہیں ، بہتر ہوتا کہ کمیٹی کے قیام سے پہلے ہمیں اعتماد میں لیا جاتا ، آزادکشمیر اور پاکستان کے مابین تعلقات سیاسی جماعتوں کی سطح پر نہیں بلکہ نظریاتی اور عوامی سطح پر ہیں ، انتظامی کے بجائے سیاسی انداز میں آزادکشمیر کے معاملات کو دیکھا جائے ، وزیر اعظم عمران خان قابل احترام ہیں ، توقع ہے کہ وہ آزادکشمیر کے حوالے سے اہم فیصلوں میں قومی اور سیاسی مفاد کو مدنظر رکھیں گے ۔

تیرہویں آئینی ترمیم منظوری سے قبل تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے گئے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والی خط وکتابت کا جملہ ریکارڈ موجود ہے ، پاکستان کے دفاع ، سلامتی اور خوشحالی کیلئے کشمیریوں کا سب کچھ قربانی کیلئے حاضر ہے۔

(جاری ہے)

وزیر قانون چوہدری جاوید اختر کے ہمراہ نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے سینئر وزیر آزاد کشمیر حکومت نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تیرہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی کی ہیت ترکیبی پر آزاد کشمیر حکومت کو شدید تحفظات ہیں ، اس کمیٹی میں آزادکشمیر کے چیف سیکرٹر ی اور سیکرٹری قانون کو ممبر بنایا گیا ہے جبکہ کمیٹی کے قیام کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کو اعتماد میں ہی نہیں لیاگیا ۔

آزاد کشمیر وفاق پاکستان کا حصہ نہیں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادکشمیر کی خصوصی حیثیت ہے ، یہ حساس معاملہ ہے جسے انتظامی سطح پر دیکھنے کے بجائے سیاسی انداز میں دیکھے جانے کی امید ہے ۔ پاکستان میں صاحب دانش سیاسی زعماء موجود ہیں جو معاملے کی نزاکت اور حساسیت کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تیرہویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل آزادکشمیر حکومت نے تمام ضروری آئینی اور قانونی تقاضے پوری کیے ، حکومت پاکستان کی تحریری اجازت و منظوری کے بعد ہی یہ ترمیم ممکن ہوئی، اس حوالے سے بعض عناصر کی جانب سے ابہام پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں جن میں کشمیر کونسل کے ملازمین کا بھی زیادہ حصہ ہے ، کونسل سیکرٹریٹ کی بیوروکریسی وزارت امور کشمیر پر حاوی ہوگئی ہے اور نگران سیٹ اپ کے دوران کشمیر کونسل کے ملازمین کے ذریعے حکومت پاکستان کو غلط معلومات دیکر ابہام پیدا کیا گیا تاہم نگران حکومت نے معاملہ آنے والی حکومت پر چھوڑا اور پاکستان کی نئی منتخب حکومت نے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں اس معاملے جا ئزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کی۔

ہمیں اس کمیٹی کی ہیت ترکیبی سمیت طریقہ کار پر تحفظات ہیں ، یہ معاملہ وزیر اعظم پاکستان کی سطح پر یا سیاسی انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر اس معاملے پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کیلئے تیار ہیں ، تیرہویں آئینی ترمیم کو ئی حتمی معاملہ نہیں اس کے بعد چودہویں اور پندرہویں ترامیم بھی آسکتی ہیں ، وفاقی کابینہ کے کسی فیصلے کو واپس لینے کا اختیار وفاقی کابینہ کو ہی حاصل ہے جیسا کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے اپنی حکومت کی ترجیحات کے مطابق منی بجٹ پیش کرنے کی منظوری دی ۔

آزاد کشمیر حکومت نے بھی تیرہویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کیلئے میری سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے اس کمیٹی میں وزراء حکومت چوہدری محمد عزیز ، بیرسٹر افتخار گیلانی ، راجہ نثار احمدخان، حاجی جاوید اختر،ایڈیشنل چیف سیکرٹر ی جنرل فرحت علی میر اور سیکرٹری قانون ارشاد قریشی شامل ہیں ۔ یہ کمیٹی آزاد کشمیر کی جملہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کر کے تیرہویں آئینی ترمیم میں مزید بہتر ی کیلئے تجاویز لے گی ، وہ جماعتیں جو پارلیمان کا حصہ نہیں ان کے ساتھ بھی مشاورت کی جائیگی اور تحریری تجاویز لی جائیں گی ۔

تیرہویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت مشترکہ اجلاس میں جب اپوزیشن نے تحفظات کا اظہار کیا تھا تو میں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کیے تھے اور انہیں تجویز دی تھی کہ وہ اسمبلی کے فلور پر تیرہویں آئینی ترمیم کے وہ نکات جن پر انہیں اتفاق اور جن پر اتفاق نہیں بات کریں تاکہ ریکارڈ پر آسکیں مگر با وجوہ ایسا نہیں ہو سکاتاہم اب حکومت نے وسیع تر قومی اور سیاسی مفاد میں کمیٹی قائم کر کے آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کافیصلہ کیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ آزادکشمیر میں موجودہ پارلیمانی نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے ،1985سے باقاعدگی سے ساتھ انتخابات ہورہے ہیں ، اس جمہوری تسلسل میں آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کی دانش کا اہم کردار ہے ۔اس خطہ کے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی اور ووٹ کے حق کیلئے ہماری سیاسی قیادت نے طویل جدوجہد کی ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان ، جناب کے ایچ خورشید ، مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم اورچوہدری نور حسین کی جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے ۔

چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ آزادکشمیر میں ایکٹ70کے تحت دفاع، کرنسی اور امور خارجہ کے علاوہ دیگر تمام اختیارات آزادکشمیر کو حاصل تھے ، ایکٹ70کو آزادکشمیر اسمبلی نے منظور کر کے نافذ کیا تھا ، پہلے یہ ایک انتظامی آرڈر کے تحت آیا تھا ، بھٹو دور میں ایکٹ70کو ایکٹ74میں تبدیل کر کے پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا اور آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کی بھی یہی خواہش تھی ، یہ عبوری آئین تھا جس میں بعدازاں پیپلز پارٹی کے دور میں ہی ترامیم کر کے بہت سارے اختیارات کشمیر کونسل کو دے دیے گئے ، کشمیر کونسل کے قیام کا مقصد تھا حکومت پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کار کا قیام تھا مگر بعدازاں اس ادارے نے انتظامی، قانون ساز ی اور مالیاتی اختیارات حاصل کر کے آزادکشمیر حکومت کے متوازی اتھارٹی کی حیثیت اختیار کی چنانچہ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت نے وقتاً فوقتاً کشمیر کونسل کے کردار کو محدود کرنے کے حوالے سے تحریک شروع کی جو بتدریج تیرہویں ترمیم پر منتج ہوئی ۔

پیپلز پارٹی کے دور میں محمد مطلوب انقلابی کی زیر قیادت پارلیمانی کمیٹی نے اس حوالے سے متفقہ سفارشات تیار کی تھیں جو مجاز فورم پر تو پیش نہ کی جا سکیں تاہم آزادکشمیراسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ اب بھی تیرہویں ترمیم کے حوالے سے محمد مطلوب انقلابی نے جو سیاسی حمایت کی ہے اس پر ان کے شکرگزار ہیں ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات سیاسی جماعتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ نظریاتی ہیں ، کشمیری عوام نے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے اور 1947سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کیلئے تاریخ رقم کررہے ہیں ۔

ایک سوال پر چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ حکومت پاکستان کو آزادکشمیر کے ساتھ معاملات انتظامی کے بجائے سیاسی سطح پر دیکھنے چاہیں یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے ،تیرہویں آئینی ترمیم آزادکشمیر کے عوام کے حقوق کا معاملہ ہے اور آزادکشمیر حکومت اپنے عوام کے حقوق کیلئے سرگرم ہے ۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے معاملات کو وسیع تر قومی اور سیاسی مفادمیں دیکھا جانا چاہیے ۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی وجہ سے پیدا شدہ ماحولیاتی سنگین صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ آزادکشمیر کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ اٹھایا جائیگا، تشویشناک صورتحال اپنی جگہ البتہ پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابھی نیلم جہلم پراجیکٹ پر معاہدہ نہیں ہوا اس حوالے سے آزادکشمیر حکومت کی پوزیشن مضبوط ہے ، نیلم جہلم پراجیکٹ کے ماحولیاتی اثرات انسانی حقوق کا معاملہ ہیں اس حوالے سے حکومت کوتاہی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔

مضمرات سے نمٹنے کیلئے میری سربراہی میں کمیٹی قائم ہے جو بہت جلد اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ میں پیش کر دے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں سینئر وزیر نے صحافیوں کو بتایا کہ آزادکشمیر حکومت نے تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد تاحال کوئی ٹیکس نہیں لگایا ، موبائل کمپنیوں کی جانب سے پیکجز میں ردبدل اور انٹر سروسز پر چارجز میں اضافہ ان کا اپنا معاملہ ہے ، صارفین اس سلسلے میں کمپنیوں سے استفسار کریں ۔

پاکستان میں موبائل فون کے چارجز پر کٹوتی نہ کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا حکم ہے اور آزادکشمیر سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں نہیں ، حکومت نے موبائل کمپنیوں کے حوالے سے شکایات موصول ہورہی ہیں اس سلسلہ میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کریگی ۔ سیکرٹری کشمیر کونسل کی جانب سے میرپور میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت جاری منصوبوں کے معائنہ اور وہاں کی گئی گفتگو کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر چوہدری طارق فاروق نے کہاکہ آزادکشمیر میں فیڈرل پی ایس ڈی پی کے تحت پی ایم یو میرپور ، میڈیکل کالجز اور رٹھوعہ ہریام پل پر کام جاری ہے ، سیکرٹری کشمیر کونسل انہی منصوبوں کو دیکھنے کیلئے گئے تھے ، پی ایم یو میرپور میں ہونے والی بد انتظامیوں کے حوالے سے آزادکشمیر حکومت نے کیسز احتساب بیورو میں بھیجے جن پر کارروائی اور بہت سارے لوگ گرفتار ہوئے اور کچھ ملازمتوں سے برطرف ہوئے اور کچھ کے خلاف ابھی تک کیس چل رہے ہیں ۔

آزادکشمیر پاکستان کے اداروں کے دائرہ اختیار میںنہیں ہے ۔ ایک اور سوال پر سینئر وزیر آزادکشمیر حکومت نے کہاکہ انتظامی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جارہا ہے جس میں اداروں میں بہتری کیلئے تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔

مظفر آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں