Episode 1 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 1 - صلہ - ایمن علی

”اٹھ بھی جاؤ سست لڑکی۔ تین بار آنٹی اٹھا کر جا چکی ہیں۔“ ہما نے اس کے منہ پر سے چادر ہٹائی۔
”کیا مصیبت ہے دفع ہو جاؤ ایک دن ملتا ہے چھٹی کا۔ اس میں بھی تم صبح کے اخبار کی طرح نازل ہو جاتی ہے۔“ وہ جھنجلا کر اٹھ بیٹھی اور لمبی جمائی لی۔
”محترمہ دن کے بارہ بج رہے ہیں اور کتنا سونا ہے تم نے۔ یقینا رات بھر کوئی ڈرامہ دیکھتی رہی ہو گی۔
نماز پڑھی تھی فجر کی یا نہیں؟“ اس نے اس کے بیڈ پر بکھری ڈی ویڈیز اٹھا کر دیکھیں۔ ”ہائے قسم سے پورا ارادہ تھا پڑھنے کا۔ مگر عین اذان سے 10 منٹ پہلے ایسی گہری نیند آئی کہ بس منہ لپیٹ کر سو گئی۔ لیپ ٹاپ بھی بند نہیں کیا۔ ”اس نے سر کھجاتے پھر جمائی کو روکنے کو منہ پر ہاتھ رکھا۔ ”اُف جوئیں ہی نکال لیا کرو کبھی“۔ اس نے سٹینڈ میں ڈی ویڈیز سمیٹ کر کے رکھ دیں۔

(جاری ہے)

”کس نے کہا میرے سر میں جوئیں ہیں۔ یہ خبر ضرور دادو نے پھیلائی ہو گی ان کے سامنے تو اگر بال سیٹ کرنے کوہی ہاتھ ڈالو تو فٹ سے فرما دیں گی کہ ”نی کڑیے تیرا بیڑہ تر جائے چھیتی نال باریک کنگھی لیا۔ بہت جُوواں ہو گیاں جے۔“ اس نے دادو کی نقل اتارتے منہ ٹیڑھا کیا اور بال باندھتی واش روم میں گھس گئی۔ ”یار ڈرامے تو کافی اچھے لگ رہے ہیں ناموں سے ایک تو تمہیں روز نئے بخار چڑھتے ہیں۔
پہلے ساحرہ کاظمی کے ڈرامے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتی رہیں اب زرینہ خان کے سارے اٹھا لائی ہو۔“ ہمارے ڈی ویڈیز سیٹ کرتے نام پڑھے اس کی بات سنتے وہ تولیے سے منہ رگڑتی باہر آئی۔
”یار ابا نے کہا تھا کہ شاہزاد خلیل، ساحرہ کاظمی اور مہرین جبار کے پرانے ڈرامے دیکھو کام میں بہت ہیلپ ملے گی۔ ان تینوں کے ڈراموں میں زرینہ خان کو دیکھا تو سچ میں مزہ آ گیا۔
اپنی نیچرل ایکٹنگ سے انہوں نے کہانی کو چار چاند لگا دیے۔“ وہ لیپ ٹاپ چارجنگ پر لگا رہی تھی۔“ حالانکہ مجھے ایسی جاندار ایکٹنگ کی ان سے امید نہیں تھی۔“ ہما اس کے کمرے کا بکھرا سامان سمیٹ رہی تھی۔ ویک اینڈ پر وہ یونہی لیپ ٹاپ لے کر ساری دنیا سے بے نیاز ڈرامے دیکھتے گزارتی۔ نئے، پرانے، پی ٹی وی کلاسکس، ٹیلی تھیٹر وغیرہ۔ اپنے ابا کے دوست نسیم بادنی کیساتھ وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی تھی۔
”یعنی زرینہ اب تمہیں زیادہ پسند آ گئی ہیں۔ جیسے مجھے اعفان باری پسند ہے۔ ہائے تم کتنی خوش نصیب ہو اس کے ساتھ کام کرتی ہو پھر بھی مجھے نہیں ملاتیں اس سے۔“ وہ نروٹھے پن سے بولی۔
”اول تو میں اس کے ساتھ کام نہیں کرتی۔ دوم آج کل کے ایکٹرز کو تو ڈائریکٹر کی ہدایات کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تو اسسٹنٹ کس کھیت کی مولی ہے۔ ہدایتکار کو تو بس کیمرہ سوئچنگ کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔
وہ دونوں اب سیڑھیاں اترتی لاؤنج میں آ رہی تھی اور میں آج کل کے سپر اسٹار قسم کے ایکٹرز کو اتنی اہمیت نہیں دیتی کہ اپنی بیسٹ فرینڈ کو آٹو گراف دلوانے لے جاؤں۔ ہاؤ ایمبریسنگ“ ”ہائے اتنا تو ہینڈسم ہے وہ۔ اتنی کمال پرسنلیٹی ہے اس کی، بھوری آنکھیں، لمبا قد۔ اوپر سے اتنی اچھی ایکٹنگ کرتا ہے اور…“ ہما کی بات اس نے بیچ میں کاٹ دی۔ ”اب اتنا بھی اچھا نہیں ہے۔
“ اس نے بمشکل جمائی روکی۔ وہ دونوں کچن ٹیبل پر آ بیٹھیں۔
”تم ہو ہی صدا کی ونگی۔ تمہیں کیا پتا Gentleman کیا ہوتا ہے۔ تمہیں تو بس Female Artist ہی پسند آتی ہیں یا پھر 80's کے وہ کھلی سی شرٹ اور تنگ سی جینز پہنے لڑکے جو کہ اب بابے ہو چکے ہیں۔“ اس نے بھی حساب برابر کیا۔ ”خیر اب اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔ وہ جو اب بابے ہو چکے ہیں وہ تو اصل Gentleman تھے۔
What a class of acting, Body language, voice quality اور سب سے بڑھ کر آواز کا اتار چڑھاؤ جو آج کل کے لڑکوں کو بالکل نہیں آتا۔ اور گلیسرین اُف… جبکہ پہلے ہلکی سی نم آنکھیں دکھا دیتے تھے اور پورے پاکستان کو رُلا دیتے تھے۔ ”صلہ نے ناصحانہ انداز میں اپنا تجربہ پیش کیا۔ ”ہما بیٹا کس کے ساتھ سر کھپا رہی ہو۔ یہ اپنے آگے کسی کو بولنے دیتی ہے بھلا۔ یہ چائے پیو ورنہ بحث میں ٹھنڈی ہو جائے گی۔
“ امی نے گویا بات ہی ختم کر دی۔
…#…
صلہ۔ Are they ready or not? ” نسیم بادنی سٹوڈیو میں آتے ہی ایکسٹراز کی تیاری کا پوچھ رہے تھے۔ ”جی سر بس ہو گیا۔“ صلہ نے جلدی سے پیپر سنبھالے گھر کے ملازم، ڈرائیور بٹلر وغیرہ کو وہ بڑی محنت سے ڈائیلاگ تیار کرواتی تھی۔ اب Lead actors تو اس کی پہنچ نہیں تھی اور نہ ان کو ورکشاپ کی ضرورت تھی۔ ان کو تو بس اس دن کا سکرپٹ دے دو۔
چند منٹ میں لائنیں رٹ کر کیمرہ کے آگے بول کر تو یہ جا وہ جا۔ ایک دن میں جانے کتنے سیٹ پر انہیں جانا ہوتا تھا۔ ”اوہو عبدل بھائی۔ کونشئس مت ہوں بس ویسے ہی بولیں جیسے عام روٹین میں بولتے ہیں اور خان صاحب زیادہ اردو جھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے پٹھانی طرز تکلم استعمال کریں۔ آپ چوکیدار ہیں کوئی فلمی ہیرو نہیں ہیں۔“ اس نے ایک ساتھ ملازم اور چوکیدار کے رول کرتے دونوں لوگوں کو جھاڑا۔
”کیا بات کرتا ہے باجی آپ بھی۔“ خان صاحب شرما کر بولے۔
”صلہ…“ ہما جانے کہاں سے نمودار ہوئی تھی۔ صلہ چونک گئی۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ پھر واپس ان کی طرف مڑی۔ ”خان صاحب یہ صفحہ پکڑیں اور پلیز اپنے انداز میں بولیے گا۔ ٹھیک ہے؟ آپ لوگ جائیں اگلا شارٹ آپکا ہے۔“ صلہ نے انہیں وہاں سے رخصت کیا۔
”صلہ یار میرے ساتھ چلو جاب انٹرویو کے لیے۔
اکیلے جاتے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔“ ہما خاصی نروس تھی۔
”اوفو۔ ایک تو تمہارے آئے دن انٹرویوز نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اوپر سے کوئی تمہیں جاب بھی نہیں دیتا کہ کم از کم میری جان ہی چھوٹ جائے۔ کہاں جانا ہے۔“ وہ بیزار سی آ گئی تھی۔
”گلبرگ میں آفس ہے۔ مجھے تو ایڈریس ٹھیک سے نہیں پتا۔ ڈھونڈنا پڑے گا۔“ وہ ڈرتی ڈرتی بولی۔ صلہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔
”گاڑی لائی ہو؟“وہ بنگلے کے لاؤنج کی طرف بڑھ گئیں جہاں شوٹنگ ہو رہی تھی۔ ابھی اعفان باری اپنی لائنز بول رہے تھے۔ ہما کی تو وہی سیٹی گم ہو گئی۔ اس سین میں ان کی بہن گھر سے بھاگ گئی تھی اور وہ غصے سے گھر کے ملازموں سے پوچھ تاچھ کر رہے تھے۔ کیمرہ اب چوکیدار کو فوکس کیے ہوئے تھا۔ اعفان باری ذرا پانی کو ان دونوں کی جانب بڑھا ؤ، دونوں اس کی مختص کی گئی کرسی کے آگے کھڑی تھیں۔
ہما بڑے اشتیاق سے اسے آتا دیکھ رہی تھی اور صلہ منہ کھولے خان صاحب کو۔
”ایکسکیوزمی۔ آٹو گراف پلیز۔“ ہما نے اسے قریب آتا ڈائری بڑھا دی جو وہ احتیاطا ساتھ لے آئی تھی۔ اس نے بڑی بڑی بھوری آنکھوں والی، ذراز قد بہت ایکسائیٹڈ سی ہما کو دیکھا اور اس کی سکریپ بک پکڑ لی۔ ”صاحب مجھے نہیں پتا۔ میں تو جاگ رہا تھا اور۔“ چوکیدار صاحب مودب سے پھراردو میں گویا تھے۔
”کٹ… خان صاحب کیا کر رہے ہیں۔“ نسیم صاحب کی بجائے صلہ کے کٹ بولنے پر اعفان باری چونک کر مڑا۔ نسیم بادنی کے ساتھ یہ اس کا پہلا پروجیکٹ تھا۔ سو وہ باقی ٹیم کے برعکس صلہ کی نسیم صاحب سے رشتے داری کے بارے میں لاعلم تھا۔
نسیم بادنی نے کیمرہ مین کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اسے اپنے ذمے لگائے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کوئی کمی برداشت نہیں تھی۔
وہ یہ بات جانتے تھے۔
”خان صاحب! اپنا طرز تکلم استعمال کریں اور ان کا بہن گھر سے بھاگا ہے ذرا چہرے پر مسکینیت لائیں۔“ اس نے اعفان باری کی طرف اشارہ کر کے خالص پٹھائی ایکسینٹ میں بول کر سمجھایا۔ اعفان باری کو تاؤ آ گیا۔ وہ تسلی سے بیٹھے ڈائریکٹر کے سکون پر حیران تھا۔
”سفارشیں بڑی ہیں لوگوں کی۔“ اس نے تاسف سے سوچا اور میک اپ روم میں چلا گیا۔
ہما سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے جاتے ہی جیسے طلسم ٹوٹا تھا۔ وقت کا احساس ہوتے ہی وہ صلہ پر چڑھ دوڑی جو اب ڈرائیور کے ساتھ سر کھپا رہی تھی۔
”صلہ تیرا بیڑہ غرق جائے ڈیڑھ بج گئے دو بجے انٹرویو تھا۔ کب نکلیں گے اور کب پہنچیں گے۔“ ریکارنگ روم میں بیٹھے نسیم بادنی چونکے۔ ہما عین کیمرہ فریم میں کھڑی تھی اور صلہ کو کھینچتے جانے کیا کیا کہہ رہی تھی۔
ان کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ بغور ہما کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہے تھے۔
”اچھا بابا۔ پوچھ تو لینے دو انکل سے۔“ اس نے نسیم بادنی کو ریکارڈنگ روم کے شیشے کے پار اشارہ کر کے اجازت چاہی۔ انہوں نے ہلکے سے سر اثبات میں ہلا دیا۔ وہ اپنا سامان لینے میک اپ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اعفان باری نے سرسری سا اُسے آتا دیکھا اور واپس اپنے سیل فون پر متوجہ ہو گیا۔ وہ اپنا بیگ پکڑتی تقریباً بھاگتی ہوئی نکلی۔ ابھی دو سین باقی تھے۔” زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے نسیم نے اس لڑکی کو۔“ اس نے خفگی سے سوچا۔ نسیم بادنی صلہ کے ابا سے عمر میں بہت چھوٹے تھے مگر ان میں دوستی بہت تھی۔ اسی لحاظ سے صلہ کے لیے وہ انکل اور وہ سب بہن بھائی ان کے لیے بچے تھے۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali