Episode 11 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 11 - صلہ - ایمن علی

وہ سو کر اٹھا تو سر بے حد بھاری ہو رہا تھا۔ آنکھیں اس قدر بوجھل تھیں جیسے بھاری پتھر پڑے ہوں۔ رات کی بے تحاشہ مے نوشی کے اثرات تھے۔ اس کا ملازم سائیڈ ٹیبل پر سوڈا واٹر رکھ گیا تھا۔ وہ چکراتے سر کو سنبھالتا واش روم میں گھس گیا۔ شاور لے کر وہ قدرے بہتر محسوس کر رہا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر سے گلاس اٹھاتے سیل فون کو دیکھتا رُکا۔ 10 مسڈ کالز جن میں سے آٹھ زارا کی تھیں اور دو اس کی سابقہ بیوی کی۔
اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔ اس کی سابقہ بیوی ہادیہ احمر کی دھمکیاں روز بروز بڑھتی جا رہی تھیں۔ وہ مزید سکینڈل افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ سو زارا کے میسجز اور کالز کا کوئی جواب دیے بغیر فون پلنگ پر اچھال دیا۔ وہ اب اکثر ہوٹلز کے کمروں میں ملاقات کیا کرتے تھے۔ بالاج علی شاہ کے لیے ایسی ملاقاتیں اور بلاوے گناہ تھے مگر شاہو کے لیے یہ معمول کی سی بات تھی۔

(جاری ہے)

وقت انسان کو حیرت انگیز طور پر بدل دیتا ہے اور انسان کو خبر تک نہیں ہوتی اور نہ ہی احساس ہوتا ہے۔ وہ باہر کمرے سے ملحق بالکونی میں چلا آیا۔ سوڈا کا گلاس لبوں سے لگاتے وہ دور خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ تمام یونٹ میں صرف اس کا ذاتی ملازم تھا۔ ورنہ ساحل سمندر سے کچھ فاصلے پر بنا یہ خوبصورت ریسٹ ہاؤس خش قسمتی سے انہیں خالی مل گیا تھا اور آج کل اس پروجیکٹ سے متعلق لوگوں کی آماجگاہ تھا۔
سب کے لیے کامن ملازم اور باورچی تھا۔ اور سب کا کچن بھی ایک ہی تھا۔ ہلکی سی آہٹ پر اس نے خفیف سی گردن موڑی۔ صلہ بالکونی میں جانے کب سے کھڑی تھی۔ وہ بالکونی ہما کے کمرے سے بھی ملحق تھی۔
”ایکسکیوز می…“ صلہ یکدم اس کی جانب بڑھی۔ وہ چونکا۔ ان دونوں کی براہ راست کبھی بھی بے تکلف گفتگو نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی دونوں ایک دوسرے کو بلانا پسند کرتے تھے۔
صلہ بے عزتی کے خوف کے مارے اور شاہو تو ویسے بھی لاتعلق ہی رہتا تھا۔
”وہ زرینہ خان ہیں نا؟“ اس نے دور ساحل پر اکیلی کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کر کے اس سے تصدیق چاہی۔ بالاج نے سپاٹ سی نظر اس جانب ڈالی کندھوں سے بالشت بھر نیچے آتے گھنے بھورے بال، وہ خاتون ان کی جانب پشت کیے کھڑی تھیں۔ وہ خاتون کہیں سے بھی زرینہ خان نہیں لگتی تھیں۔
”کسی اچھے سے ڈاکٹر سے اپنی نظروں کا علاج کروائیں۔ یقینا افاقہ ہو گا۔“ وہ طنزیہ بولا۔
”آپ کی آنکھوں میں تو جیسے دوربین فٹ ہے نا۔“ وہ تنک کر بولی ۔ اس نے برہمی سے اسے دیکھا۔ وہ ابھی بھی بے نیاز آنکھیں سکیڑے وہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے کچھ سناتا اس سے پہلے وہ جیسے اس پر لعنت بھیجتی جلدی سے مڑی اور تقریباً بھاگتے ہوئے ریسٹ ہاؤس سے نکلی۔
کچھ ہی دیر میں وہ اس کے سامنے نیچے کھڑی تھی۔ اس خاتون سے قدرے فاصلے پر کھڑی جانے کیا سوچ رہی تھی۔ وہ یہاں سے بھی اس کی کنفیوژ حالت بھانپ سکتا تھا۔
”زرد رنگ کی لانگ اے لائن قمیص، ہم رنگ ٹراؤذر میں ملبوس دوپٹہ شانوں پر پھیلائے دانتوں سے ناخن کترتی وہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اول جلول سی لڑکی اسے خواہ مخواہ ہی بری لگتی تھی۔ نسیم بادنی کے ہر پروجیکٹ میں ہوتی تھی۔
مگر ہمیشہ بلاواسطہ ہدایات اس تک پہنچاتی تھی۔ اس نے غور کیا تو ٹھٹک گیا۔ وہ واقعی زرینہ خان تھیں۔ اسے تعجب ہوا تھا وہ کبھی اکیلی نہیں نکلتی تھیں۔ دفعةً اس کا سیل فون بجا وہ ایک اچٹتی نظر ان پر ڈالتا اندر چل دیا۔
…#…
صلہ جی کڑا کر کے ان کی جانب بڑھی۔ ابھی مخاطب کرنے کا سوچ ہی رہی کہ ان کے اچانک مڑنے پر وہ ہلکے سے چلا اٹھی۔
”امی…“ زرینہ متعجب ہوئیں۔ ”کیا ہوا۔“ وہ دو قدم پیچھے ہٹتی بے ساختہ دل تھام کر رہ گئی۔ اب وہ کیا بتاتی کہ ان کی گود میں موجود ان کی اس محبوب ترین مخلوق سے وہ کس قدر ڈرتی تھی۔
”ارے یہ کاٹتا نہیں ہے۔“ اسکا ڈر بھانپتے وہ شگفتگی سے بولیں۔ اور اس جیک نما کتے کا سر سہلانے لگیں۔
”کاٹے نہ کاٹے۔ کتا تو آئی مین ڈوگی تو ڈوگی ہوتا ہے۔
“ وہ خوفناک تاثرات لیے اسے گھورتے جیک کو دیکھتے بولی۔ زرینہ مسکرائیں صلہ ٹرانس کی سی کیفیت میں انہیں دیکھنے لگی۔ دنیا ان کی مسکراہٹ کی دیوانی کیوں تھی یہ اسے آج پتہ چلا تھا۔ انہوں نے جیک سے کچھ کہتے گود سے اتارا تو وہ ایک سمت میں دوڑتا چلا گیا۔
”اگر یہ بھاگ گیا تو؟“ صلہ نے یونہی پوچھ لیا۔ اپنے بڑے سوچے سمجھے سوالات تو اسے یکسر بھول گئے تھے۔
زرینہ کو جانوروں سے بے حد محبت تھی خصوصا کتے اور بلیوں سے۔
”نہیں بھاگے گا۔ ذرا سی محبت انہیں زندگی بھر کے لیے خرید لیتی ہے۔“ وہ پرمحبت لہجے میں بولیں۔
”محبت کی وجہ سے یا فکسڈ رزق کی وجہ سے؟“ صلہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟“
”آپ دو دن انہیں کھانا نہ دیں پھر دیکھئے گا۔
“ صلہ نے اپنی طرف سے بڑی عقل کی بات کی تھی۔
”تمہیں شاید جانورں کی سائیکی کا نہیں پتا اس لیے ایسا کہہ رہی ہو۔“ وہ نفی میں سر ہلاتی چہل قدم کے سے انداز میں آگے بڑھ گئیں۔
”جو بھی ہو۔ لیکن جانور انسان کی جگہ تو نہیں لے سکتے نا۔ وہ آپ کو انسانوں سے بڑھ کر محبت دے سکتے ہیں مگر آپ بیمار ہو جائیں تو کیا اولاد کی طرح آپ کی خدمت کر سکتے ہیں؟“ وہ خواہ مخواہ بات بڑھا رہی تھی۔
”آج کل کی اولاد کے پاس اتنا وقت کہاں؟“ ان کے لہجے میں عجب کرب تھا۔ وہ رکیں۔ ”کوئی کام تھا؟“
”کام…؟“ صلہ یاد کرنے کو رُکی۔ ”نہیں کام تو کوئی نہیں تھا۔“ وہ سمندر کی جانب رُخ موڑ کر کھڑی تھیں۔ وہ اسے کافی دنوں سے سیٹ پر دیکھ رہی تھیں۔ مگر کبھی اس سے بات نہیں ہوئی تھی وہ جانتی تھیں کہ وہ یونٹ کا حصہ نہیں ہے پھر بھی ہر روز سیٹ پر کہیں نہ کہیں موجود ہوتی تھی۔
”ایک بات پوچھوں آپ سے؟“ وہ ہچکچائی۔ زرینہ نے ہنوز سامنے دیکھتے سر کو ہلکی سی جنبش دی۔
”کہتے ہیں کہ جانوروں سے محبت کرنے والے عموماً انسانوں سے خفا ہوتے ہیں۔“ صلہ پراعتماد تھی، گویا اس فلسفے پر اٹل یقین رکھتی ہو۔ زرینہ کی صبیح پیشانی پر بل پڑ گئے۔ دنیا جنکی ملنساری اور خوش مزاجی کی مثال دیتی تھی، ساتھ کھڑی لڑکی انہیں آدم بیزار کہہ رہی تھی۔
”کہنے والے ہر بار ٹھیک کہیں ضروری تو نہیں۔“ وہ سپاٹ سے لہجے میں بولی تھیں۔
”آپ بہت اچھی اداکارہ ہیں۔ آپ کو ایکٹنگ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔“ وہ پرسوچ نگاہوں سے انہیں تک رہی تھی۔ زرینہ ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ اس لڑکی کی بات کا مقصد نہیں سمجھ پائی تھیں انہیں زیادہ تر دو طرح کے لوگ یوں Publically approach کرتے تھے۔
ایک ان کے پرستار اور دوسرے جرنلسٹ اور انہیں انٹرویوز وغیرہ سے سخت کوفت ہوتی تھی۔ ”اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کی ڈائریکشن کی فین نہیں ہوں۔“ اس نے جلدی سے تصیح کی۔ ”ایکچوئیلی وہ فنانٹیسزم (fanaticsm) والی Fan نہیں ہوں ناں اسی لیے چاہتی ہوں کہ آپ اسکرین پر بھی نظر آئیں۔“زرینہ بے اختیار اس کی جانب مڑی۔ ”اچھا تو پھر کس قسم کی فین ہیں آپ؟“ وہ محظوظ ہوئیں۔
”اصل میں فناٹسزم والے فین تو بڑے کٹر قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر آپ موٹی ہو جائیں، آپ کے بال گر جائیں، یا آپ کا رنگ فیئر نہ رہے میں تب بھی آپ کی فین رہوں گی۔“ وہ فخکر سے بولی ۔ وہ بے اختیار ہنس دیں۔ ”اچھا تو پھر یہ ناٹ فناٹسزم والی فین کیا چاہتی ہے؟“ وہ اپنے ازلی شفقت بھرے انداز میں بولیں۔ کسی اشتہار کے لیے انہوں نے بھورے رنگ کا ڈائی کروایا تھا۔
پچاس سال کی عمر میں بھی ان کے چہرے پر اس رنگ کی مناسبت سے کرختگی کے بجائے بہت نرمی تھی۔
”چاہتی تو خیر میں بہت کچھ ہوں۔ اگر بتانے بیٹھی تو رات ہو جائے گی۔“ وہ شوخ ہوئی تو وہ مسکراتے آگے بڑھ گئیں۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی یوں ان کے ساتھ ساحل سمندر پر چہل قدمی کر سکے گی۔
”آپ جیسی ڈراموں میں روایت شکن کردار ادا کرتی تھیں ویسے ہی حقیقت میں بھی ہیں۔
ڈٹ جانے والی بہت ضدی اور باغی۔ آپ کی شادی جن حالات میں ہوئی اور جس طریقے سے وقوع پذیر ہوئی وہ الگ کارنامہ تھا۔“ وہ مسکراہٹ دباتے بولی تھی جبکہ زرینہ کا قہقہہ فضا میں گونج اٹھا تھا۔ آج کیا یاد کروایا تھا اس نے۔ ان کے گھر والے اس شادی کے لیے قطعی راضی نہیں تھے۔ کیونکہ جمیل اختر پہلے کرسچن تھے بعد میں انہوں نے زرینہ سے شادی کی غرض سے اسلام قبول کیا تھا۔
80 کی دہائی میں جب جہیز اور بری کے بغیر شادی کا تصور محال تھا۔ اس وقت میں انہوں نے یہ روایت توڑ ڈالی تھی۔ نہ وہ کچھ لے کر گئیں اور نہ ہی کچھ لیا۔ حالانکہ دونوں خاندان کو ان دونوں نے منا لیا تھا۔ وہ تو پیسٹری کی طرح سج سنور کر بیٹھنے کی بجائے کامدار نفیس سے فراک اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے سب مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھیں۔ جمیل اختر نے سادہ شلوار قمیص پر سیاہ واسکٹ پہنے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
”ہاں اس وقت تو جنون سوار تھا کچھ کر دکھانے کا۔“ وہ یاد کر کے مسکرائیں۔ انہیں اس کا یہ حوالہ دینا اچھا لگا تھا ورنہ زیادہ تر پرستار ان کی مسکراہٹ یا ان کے دو شہرہ آفاق سیریلز کا حوالہ دیتے تھے۔
”خیر جنونی تو آپ اب بھی ہیں۔“ وہ انہیں دیکھ کر مسکرائی۔ ”اس زمانے رائٹرز بھی شاید آپ کی حقیقی زندگی سے خاصے متاثر تھے۔ آپ کو یاد ہے آپ کا ایک ڈرامہ تھا پڑوسی کے نام سے۔
“ اس نے ان سے تصدیق چاہی۔ وہ شاید یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”ایسا لگتا تھا رائٹر نے آپ کی اصل زندگی کی کہانی سکرین پر دکھا دی۔ شادی والا سیم سین تھا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ یتیم خانے والے منظر جہاں آپ چھ ماہ کی بچی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ آپ کی نظروں میں وہ جو تڑپ تھی وہ ایکٹنگ تو ہو ہی نہیں سکتی۔ یوں لگتا تھا کہ…“ دفعتاً اس کی نظر ان کے چہرے پر پڑی وہ انتہائی سنجیدہ تھیں۔
یکلخت اسے اپنی شدید غلطی کا احساس ہوا تھا۔
”آئم سو سوری۔ آپ کو شاید برا لگا۔“ وہ حقیقتاً شرمندہ تھی۔
”اٹس اوکے…“ وہ نارمل سے انداز میں بولی تھیں پھر ایکسکیوز کرتی وہاں سے چل دیں۔ صلہ لب کچلتی دُکھ سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔ وہ ڈرامہ ان کی شادی کے پانچ سال بعد آن ائیر ہوا تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali