Episode 20 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 20 - صلہ - ایمن علی

ندیا گنگناتی کامن روم میں داخل ہوئی۔ ہما سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔
”ہیلو میڈم… کیا ہو رہا ہے۔“ وہ خوشگوار سے انداز میں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا؟“ اسے ہنوز بے نیاز فائل کے صفحات سے کھیلتے دیکھ کر وہ چونکی۔ ”ڈانٹ پڑی ہے کیا پھر سے۔ کم آن یہ تو عام سی بات ہے۔ پھر تمہاری پہلی جاب ہے۔ ڈانٹ تو پڑے گی ہی۔ وہ خوشگوار سے انداز میں سے کہتی بولی۔
ہما کی اکثر نسیم بادنی سے ڈانٹ پڑ جاتی تھی۔ اور پھر وہ یونہی منہ پھلا کر بیٹھ جاتی تھی۔
”نہیں یار ڈانٹ تو نہیں پڑی۔ صلہ کہاں ہے؟“ ہما نے سپاٹ سے لہجے میں کہا ندیا قدرے چونک گئی۔“ ضرور کوئی پریشانی کی بات تھی۔
”بھئی صلہ کہاں ہو گی۔ ظاہری سی بات ہے زرینہ کے پاس ہی ہو گی۔ ویسے بھی وہ محترمہ آج کل ہواؤں میں رہتی ہیں اور جب کبھی زمین کا رخ کریں تو سیدھا زرینہ کے Cats & Dogs ہاؤس میں پائی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

ایمان سے اس کی تو آج کل پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ زرینہ سے دوستی بھی ہو گئی اور خوب کام بھی سیکھا جا رہا ہے۔“ وہ کھلکھلائی بولی تو ہما پھپکی سی ہنسی ہنس دی۔
”بھئی اب بتا بھی دو کیا پریشانی ہے۔ ڈونٹ وری کسی کو نہیں بتاؤں گی۔“ ہما نے ایک پریشان سی نظر اس پر ڈالی۔ وہ متذبذب سی تھی اور شیئر کیے بغیر تو ویسے بھی اس کی پریشانی کم نہیں ہوتی تھی۔
”وہ اعفان نے میرے گھر پروپوزل بھیجا ہے۔“ وہ آہستگی سے بولی۔ تو ندیا بھونچکی رہ گئی۔ اس کی رنگت یکدم بدل گئی۔ ”امی کا فون آیا تھا ابھی۔“ ”کیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے تم لوگوں کی تو کبھی ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوئی پھر کیسے۔“ وہ حقیقتاً حیران تھی۔
”شاید صلہ ٹھیک ہی کہتی تھی۔ اس شخص میں حسد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ لوگوں کو میری اور بالاج کی جوڑی بہت پسند آئی ہے اور وہ مرکزی کردار ہوتے ہوئے بھی لائم لائٹ میں نہیں آ پایا۔
سو یہی سوچا ہو گا کہ اسی بہانے ہماری آن سکرین کیمسٹری کا کریسما ختم ہو اور لوگ اصلی جوڑی پر غور کرنا شروع کر دیں گے۔“‘ وہ بڑے متوازن لہجے میں بول رہی تھی۔ جیسے بڑی معمولی بات ہو۔
”صلہ کو تم رہنے دو۔ فضل افلاطونی تبصرے کرتی ہے میں اعفان کو بہت پہلے سے جانتی ہوں وہ ایسا نہیں ہے۔ وہ بالکل ایسا نہیں ہے۔“ ندیا کے عجیب سے انداز میں کہنے پر وہ ٹھٹکی۔
اس کے چہرے پر عجب شکست خوردہ سا تاثر تھا۔
”خیر جو بھی ہے۔ میں نے اسے بڑے واضح انداز میں شیری کے بارے میں بتا کر معذرت کر لی ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اس دفعہ امی جان مجھے بخشنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اس سے تو جان چھوٹ گئی مگر اب اگر کوئی پروپوزل آیا تو امی مجھ سے پوچھنے کا بھی تردد نہیں کریں گی۔ اور شیری سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا۔
یہ اتفاق ہی تھا کہ صلہ اسے شیری کی واپسی کا بتانا بھول گئی تھی۔ ویسے بھی وہ ماں باپ کو منانے کے لیے آ رہا تھا۔ ہما کے بارے میں اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس کی امی نے ہما کے والدین کو بھی نہیں ابھی اس کی واپسی کی اطلاع نہیں دی تھی۔ کہ ابھی ڈیٹ فائنل نہیں تھی اور وہ انہیں جھوٹی تسلی نہی دینا چاہتی تھی۔
”تو ٹھیک ہے نا یار آخر کب تک انتظار کرو گی۔
اسے آنا ہوتا تو کب کا آ چکا ہوتا۔ یا پھر کم از کم رابطہ تو رکھتا۔“ ندیا بھی سنبھل گئی تھی۔“ اور پتہ نہیں اس نے وہاں کتنی شادیاں کر لی ہوں۔ نیشنیلٹی کے لیے تو لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔“
”ایسا نہیں ہو گا۔ مجھے پتا ہے ایسا نہیں ہو گا۔“ وہ پراعتماد تھی۔ ندیا نے تاسف سے سر ہلایا۔
”پتہ نہیں کن فیری ٹیلز میں رہتی ہو تم۔ مجھے تو یہ سب ون سائیڈڈ لگتا ہے۔
اسے تم سے محبت ہوتی تو کوئی تو امید دلاتا وہ ہمیشہ ٹالنے والی بات کرتا ہے۔ اور فرض کرو اگر اس نے واقعی وہاں شادی کی ہوئی تو کیا معاف کر پاؤگی اسے کبھی۔“ وہ جانچنے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر عجب پڑمرزدگی سی چھائی تھی۔ ”بچپن کی محبتیں اتنی کمزور نہیں ہوتیں۔ ندیا۔ آکاس بیل کی طرح ہمارے اندر تک دور دور تک اس کی جڑیں پھیلی ہوتی ہیں۔
“ ہما کے چہرے پر عجب رنگ پھیلے تھے وہ دیکھ کر رہ گئی۔ بھلا آج کے زمانے میں کون کسی کا اتنا انتظار کرتا ہے۔
…#…
سیٹ پر غیر معمولی ہلچل تھی۔ زرینہ نے سب کو آگے لگایا ہوا تھا۔ ڈیڈ لائن قریب تھی اور کام خاصا بکھرا پڑا تھا اور اس کی واحد وجہ بھی زرینہ کی اپنی کاملیت پسند فطرت تھی۔
”یہ سٹول ابھی تک ادھر پڑا ہے۔ کیا کر رہے ہو تم شجاع۔
ہزار دفعہ کہا ہے…“ وہ اسسٹنٹ کو ڈانٹتے یکدم رکیں۔ ”لاحول ولاقوة۔“ ان کے قریب ہی دلخراش قسم کی چھینک نے انہیں دل تھامنے پر مجبور کر دیا۔
انہوں نے مڑ کر کسی بھاری بھرکم مرد کی تلاش میں نظر دوڑائی مگر پیچھے کھڑی سرخ ناک لیے معصومیت سے انہیں دیکھتی صلہ کو دیکھ کر حیران ہوئیں۔ نرم و نازک سے سراپے کی مالک صلہ سے انہیں ایسی انرجی کی امید نہیں تھی۔
”یہ چھینک تم نے ماری ہے۔“ وہ ہاتھ کے اشارے سے اسسٹنٹ کو بھیجتی اس کی طرف بڑھیں۔ اس نے سر اثبات میں ہلایا۔“ وہی ڈسٹ الرجی۔ تائی اماں کی نظروں سے بچ کر نکلی تھی اور سزا بھی مل گئی۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔ ڈونٹ وری میڈیسن لے لی ہے۔ تھوڑی دیر تک ٹھیک ہو جائے گی۔ زرینہ مسکرائی اسے ساتھ لیے آگے بڑھیں۔
”یہ الرجی کی دوائی کب سے ایجاد ہو گئی۔
”الرجی کی دوا نہیں لی۔ فلو کی لی ہے ورنہ یہ چھینکیں ایسے ہی ذلیل کرواتی ہیں۔“ وہ دونوں فریم ایریا کی جانب آ گئے۔ جہاں زارا کے لیے سین تیار تھا۔
”ویسے تمہاری صحت اور ان چھینکوں کے حجم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔“ وہ خوشدلی سے بولیں۔
”میں تو خوف کے مارے ڈسٹی ایریا سے گزرتی بھی نہیں مگر آج کنسٹرکشن سائیڈ سے رکشے والا لے آیا۔
سو بستی تو یقینی تھی۔ “ وہ ناک پونچھتے بولی۔
”بستی…؟“ زرینہ متعجب ہوئیں۔
”جی سویٹ انسلٹ… میری حالت پر لوگ ترس کھاتے ہیں اور پھر پیچھے ہنستے ہیں۔“
اس نے بمشکل چھینک روکی۔ زرینہ کھلکھلا دیں۔
”جاؤ تم آرام کرو۔ شام کو صدیقی صاحب کو نریشن دینا ہے اور یہ کام تمہیں ہی کرنا ہے۔ شجاع تو نکما ہے بالکل۔“ وہ ڈائریکٹر چیئر پر بیٹھ گئیں۔
زارا آ گئی تھی۔ وہ سر ہلاتی کامن روم کی جانب چل دی۔
شام ڈھل رہی تھی مگر کام ویسے سہی ہو رہتا تھا۔ وہ نریشن دے کر فارغ ہوئی تو زرینہ کہیں سیٹ پر نظر نہیں آئی۔ وہ یونہی کیمرہ مین مسعود کے پاس آ گئی اور آج کی ریکارڈنگ دیکھنے لگی۔ آج شارٹس حسب معمول جاندار تھے۔ زرینہ کا کام کرنے کا انداز نسیم بادنی سے قدرے مختلف تھا۔ کسی ایکٹر کم ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرنے کا اس کا پہلا تجربہ تھا۔
زرینہ اکثر اسے اداکاری کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتی تھیں۔ ان کے مطابق ہر انسان میں ایک اچھا اداکار چھپا ہوتا ہے۔ مگر ان کے بقول صلہ سے زیادہ فلاپ اداکارہ انہوں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ خود صلہ بھی بخوبی اپنے کارناموں سے واقف تھی سو ان کی کوششوں کو خوب ناکام کرنے میں لطف اندوز ہوتی تھی۔ تمام یونٹ والے قدرے بیزار آ گئے تھے۔ کیونکہ زرینہ حسب منشا شارٹ نہ ملنے تک سب کی جان سولی پر لٹکائے رکھتی تھیں۔
مگر ابتدائی اقساط کے بہترین ریسپانس کے باعث وہ خوش بھی تھے اور تھکاوٹ کے باوجود لگن سے کام کر رہے تھے۔ اس پروجیکٹ سے تقریباً سبھی کردار الگ حیثیت سے جانے جا رہے تھے۔ مسعود سے کچھ کہتی وہ ٹھٹک کر رکی تھی۔ اس کے عقب میں کوئی کھڑا تھا۔ اس شخص کی آواز سن کر بے ساختہ ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی۔ اس کے قدم بے ساختہ اس طرف بڑھے۔ اسے جاتا دیکھ مسعود بھی اپنے کام میں لگ گیا۔ رف سی کھلی ٹی۔ شرٹ اور سپورٹس ٹراؤزر میں ملبوس اس شخص کی پشت اس کی جانب تھی۔ وہ انہیں لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ ”یوسف ثانی… آپ یہاں؟“ وہ یکدم ان کے عقب میں کھڑی بولی۔ وہ (جمال یوسف) چونک کر مڑے۔ ان کے چہرے پر خوشگوار حیرت کے تاثرات تھے۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali