Episode 23 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 23 - صلہ - ایمن علی

پروجیکٹ کی کامیابی کی خوشی میں دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پورا ہال فلیش لائٹس اور سجاوٹ کی چیروں سے جگرجگر کر رہا تھا۔ تمام ٹیم نے مل کر ہال کو غباروں وغیروہ سے سجایا تھا۔ ہال کے ایک جانب زرینہ کے دوست احباب اور دیگر سینئر آرٹسٹ صوفوں پر براجمان جوسز اور ادبی گفتگو سے شغل فرما رہے تھے۔ تو دوسری جانب قدرے ہلکی لائٹس میں نوجوان پارٹی نے کلب کا سا سماں کر رکھا تھا۔
قریب ہی طارق اپنا لیپ ٹاپ شیریو سے اٹیچ کیے مختلف نمبرز پلے کر رہا تھا۔ زیادہ تر انگلش نمبز پر چند منچلے نوجوان عجیب و غریب سا رقص کرنے لگتے اور باقی سب نوجوان صوفوں پر بیٹھے تالیاں پیٹتے ہنستے لطف اندوز ہوتے۔ 
قریب ہی کونے میں بڑی سی میز پر اشیائے خوردو نوش اور جوسز کے ڈھیر لگے تھے تاکہ سب اپنی مرضی کا کھانا لے کر دوسری جانب لگی کرسیوں پر بیٹھ کر کھا سکیں۔

(جاری ہے)

وہیں پاس پڑی کرسی گھسیٹ کر صلہ بیٹھ گئی۔ اور اپنے لیے اورنج جوس انڈیلنے لگی۔ سب پرتکلف سا ڈنر کر کے آرام سے بیٹھے تھے۔ وہ اردگرد سے بے نیاز جوس کی سطح پر بنتے بلبلبے بلا ارادہ دیکھے جا رہی تھی۔ بے ہنگم سے موسیقی کے بعد یکدم خاموشی ہوئی۔ صلہ نے گہری سانس لیتے اردگرد نظر دوڑائی۔ اگلا نغمہ شروع ہوتے ہی اس کے لبوں پر بے اختیار تبسم بکھر گیا۔
تمام سینئرز بھی طارق کی جانب گلاس اونچا کیے اس کے ذوق کی داد دے رہے تھے۔ وہ ہلکا سا سر تسلیم خم کر کے داد وصول کر رہا تھا۔ ”ہماری سانسوں میں آج تک وہ۔حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔“ نور جہاں کی پرترنم آواز سے ہال گونج اٹھا تھا۔ وہ زیرلب مسکرائی۔ یہ نغمہ اسے بے حد پسند تھا۔ اس کی میلوڈی سنتے بے اختیار دل جھوم اٹھتا تھا۔ جیسے ساری کائنات محو رقصاں ہو۔
نوجوان پارٹی کی جانب سے اچانو شورو غوغا بلند ہوا تھا۔ زارا نے ایک الگ تھلک کونے میں بیٹھے بالاج کو کھینچ کر اٹھایا تھا۔ تھوڑی پس و پیش کے بعد سبکے شور مچانے پر وہ ناچار کھڑا ہو گیا۔ وہ دونوں صوفوں کے درمیان کسی منجھے ہوئے رقاصوں کی طرح خوبصورت کپل ڈانس کر رہے تھے۔ وہ میلوڈی کی تھاپ پر کبھی تیز اور کبھی مدھم ٹیپ کرتے ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے۔
ان کا پور پور دھن سنگ ہم آہنگ محسوس ہو رہا تھا۔ زارا کا تمتمتا چہرہ اس کے اور مغینہ کے جذبات کا عکاس تھا۔ جبکہ بالاج قدرے سپاٹ چہرہ لیے ساتھ نبھا رہا تھا۔ اس کے باوجود رقص پر اس کی چابکدستی حیرت انگیز تھی۔
ہما ندیا کے ساتھ بیٹھی تالیاں بجاتی خوب لطف اندوز ہوتی معلوم ہو رہی تھی۔ صلہ بے اختیار رخ موڑ گئی۔ مگر اگلے لمحے جیسے سب منجمند ہو گیا۔
بالاج دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتا معذرت کرتا بیٹھ گیا۔ ہال زور دار تالیوں سے گونج اٹھا۔ مگر صلہ کی محویت ہنوز قائم تھی۔ وہ ساکت سامنے سینئرز سے ملتے جمال یوسف کو یک ٹک دیکھ رہی تھی۔ بلیک ڈنر سوٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہے تھے۔ بالاج کی نظر بے ساختہ بت بنی صلہ پر پڑی تھی۔ وہ بے اختیار ٹھٹکا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سا تاثر تھا۔
”تڑپ میرے بے قرار دل کی کبھی تو ان پر اثر کرے گی۔
کبھی تو وہ بھی جلیں گے اس میں جو آگ دل میں دہک رہی ہے۔“ نورجہاں لہک لہک کر آخری شعر دہرا رہی تھیں۔
دل میں ہک سی اٹھی تھی۔ آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے تھے۔ اپنے دوستوں سے خوش گپیوں میں مصروف اس شخص سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی۔ اور وہ محبت کو ٹی فلسفیانہ محبت نہیں تھی۔ جمال یوسف کے تجاہل عارفانہ سے کام لینا اسے بے حد کھلتا تھا۔
زرینہ قریب ہی ان کے ساتھ کھڑی کسی بات پر مسکرا رہی تھیں۔ متلاشی نظروں سے اردگرد دیکھتی وہ ٹھٹکیں پر مسکراتی جمال کو ساتھ لیے اس کی جانب بڑھیں۔ اپنی طرف آتا دیکھ صلہ بے اختیار کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کب سدھرو گی تم لڑکی…“ انہیں پاس آتے ہی اسے شفقت سے ڈپٹا۔“کبھی کبھی تو مجھے شک ہوتا ہے کہ تم واقعی 23 سال کی ہو۔“ ان کے تبصرے پر صلہ ہلکے سے مسکرا دی۔
”یہ میڈم سمجھتی ہیں کہ بڑے آرٹسٹ لوگ محفل میں اکیلے بیٹھتے ہیں۔ بس انہی کی تقلید میں لگی ہے۔“ جمال شگفتگی سے مخل ہوئے۔
”ہاں تو ہے بڑی آرٹسٹ… اس میں کیا شک ہے۔“ زرینہ نے ہولے سے اس کی تھوڑی کو چھوا۔ وہ گہری نظروں سے اس پکچر پرفیکٹ کو دیکھ کر رہی تھی۔ سیاہ وپیچ کلر کے امتزاج کے لباس میں زرینہ کا سرخ و سفید چہرہ تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے کس قدر مکمل لگتے تھے۔ وہ سینے پر بازو لپیٹے گہرا سانس لیتی سر جھکا گئی۔ وہ دونوں کسی بحث میں مصروف تھے۔ زرینہ سے لاکھ دوستی سہةی مگر رقابت آج بھی ویسے ہی قائم تھے۔ زرینہ ایکسکیوز کرتی وہاں سے چل دی۔ انہیں کسی کو ریسیو کرنا تھا۔ جمال یوسف کی خاموش نگاہوں نے ان کے اوجھل ہو جانے تک تعاقب کیا تھا۔ پھر وہ گھوم کر صلہ کی جانب متوجہ ہوئے۔
ہتک کے گہرے احساس سے اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
”بھئی آج تو صلہ رحمان خاصی معقول لگ رہی ہیں۔“ انہوں نے اسکے سجے سنورے وجود پر تبصرہ کیا۔
”یہ تو ہما اور زرینہ کی محنت ہے۔ میرا اس سے میں کوئی کمال نہیں۔“ وہ دل گرفتگی سے بولی تو جمال اس دلکش سراپے کی مالک سمارٹ سی لڑکی کو دیکھ کر رہ گئے۔ اس کی رف اور ٹف روٹین کے باعث وہ اپنا باکل خیال نہیں رکھتی تھی۔
ورنہ کم تو وہ کسی سے بھی نہیں تھی۔
”اچھا یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ انہوں نے ریپ کی ہوئی ایک چھوٹی سی کتاب کوٹ کے اندرونی جیب سے نکال کر اسے تھمائی۔
”یہ کس خوشی میں؟“ اس نے متحیر سے انداز میں پوچھا۔
”بھئی تمہاری فلم سائن کرنے کی خوشی میں۔“ وہ کھل کر مسکرائے۔ ”تصوراتی کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی جانب پہلا قدم تمہیں بہت مبارک ہو۔“ وہ دلی خلوص سے بولے تھے۔
”تھینک یود“ وہ سارے میں پہلی دفعہ کھل کر مسکرائی تھی۔
ان سے قدرے فاصلے پر گہری نگاہوں سے انہیں دیکھتا بالاج علی شاہ یکدم صوفے سے اٹھا تھا۔ اور لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali