Episode 8 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 8 - صلہ - ایمن علی

اس کا دھیان بٹانے میں کامیاب ہوتے ہی وہ پھر باہر کے نظاروں میں مشغول ہو گئی۔ موسم خاصا خوشگوار تھا۔ سڑک کے گرد قطار میں لگے درخت ہوا سے اِدھر اُدھر لہرا رہے تھے۔
”ویسے تم نے اس دفعہ بالکل نئے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ کوئی گھنٹی ونٹی بجی؟“ وہ شوخ ہوئی۔ ”کتھے یار۔“ اس نے مصنوعی آہ خارج کی۔ ”بڑی کوشش کی مگر کسی کو دیکھ کر حواس باختہ نہیں ہوئے۔
”پتہ نہیں کدوں آوے گا میرے ہوش اڑانے والا۔“ ”تم اپنی کہانیوں اور ڈراموں کی دنیا سے باہر آؤ تو تمہیں کوئی اچھا لگے نا۔ اپنے گرد یہ جو حصار باندھ رکھا ہے کسی کو اندر گھسنے کی اجازت نہیں دیتی ہو تو یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے جو تمہاری خلوص سے بڑھتے ہیں۔“ وہ ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانے بیٹھ گئی۔
”مزے کی بات بتاؤں یہ جو تم نے فلسفہ جھاڑا ہے نا۔

(جاری ہے)

سیم ٹو سیم ایک ڈرامے میں ڈائیلاگ تھا۔ ”وہ اس کی باتوں کو یونہی فلسفہ کہہ کر ٹال دیا کرتی تھی۔ مگر وہ آج ٹلنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”بکومت۔ تمہیں وہ آصف یاد ہے؟ بے چارہ کتنی خوشدلی سے تمہاری طرف بڑھا تھا۔ مگرتم صدا کی ناقدری۔“ اسے انکا یونیورسٹی فیلو یاد آگیاتھا۔ ”وہ تمہیں کہاں سے یاد آ گیا اور یہ تم مجھے ایک ہی طرح کے لیکچرز دے دے کر بور نہیں ہوتی۔
“ وہ ہنوز بینیاز باہر دیکھنے میں مصروف تھی کہ آصف کے نام پر چونک پڑی۔
” اس لیے لیکچرز دیتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو اکیلی رہو گی ہمیشہ۔ یہ جو تم سبکو سرسری سا دیکھتی ہو اور ان کے بارے میں اچھی بری رائے قائم نہیں کرتی ہو یہی وجہ ہے کہ تمہیں اگلے بندے کی خوبیاں بھی نظر نہیں آتی۔ اور یہ بھی نظر نہیں آتا کہ وہ تمہاری طرف خلوص سے بڑھا ہے۔
”مجھے کسی سے کیا لینا دینا۔“ وہ چڑ سی گئی۔“ چھوٹے موٹے کرش تو روز ہی ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اس پر محبت کا خول چڑھا کر خود فریبی کا شکار ہو جائیں۔ روشنی تیز ہو تو نظریں خودبخود جھک جاتی ہیں۔ جھکانے کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔“
”آج کے دور میں ایسی محبتیں ڈھونڈو گی تو خالی رہ جاؤ گی۔ بعض دفعہ دوسروں کی محبت کا بھی خیال کر لیتے ہیں۔
“ ہما نے سمجھایا۔
”تمہیں کیا مل گیا محبت کر کے آج کے دور کی۔ جو مجھے مشورے دیتی ہو۔“ وہ یکدم سنجیدگی سے بولی تو ہما چپ ہو گئی۔
”بڑے بڑے عہدہ پیمان کی بیڑیاں لڑکیوں کے پاؤں میں ڈال کر خود سارے جہان میں دندناتے پھرتے ہیں اور لڑکیوں سے امید کرتے ہیں کہ چاہے قیامت آ جائے ایک عدد بے وقوف کہیں نہ کہیں بیٹھی ان کا انتظار کررہی ہو گی۔
“ روانی میں کہتے بھی اسے ہما کے دھواں دھواں چہرے کا احساس تھا۔ وہ سوائے دکھ کے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اس بے نام مسافت پر وہ اسے چلتے رہنے نہیں دینا چاہتی تھی۔ چند لمحے خاموشی سے ریت کی مانند پھسل گئے۔
”ان کا کوئی فون آیا؟“ صلہ نے سامنے سڑک پر نظر جمائے سپاٹ لہجے میں پوچھا تھا۔
”نہیں۔“ ڈرائیونگ کرتے وہ بہت آہستگی سے بولی تھی جو بمشکل وہ سن پائی صلہ ایک متاسف نظر اس پر ڈال کر ونڈ سکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
”میری بھی کافی دنوں سے بات نہیں ہوئی۔ امی کو بھی کوئی فون نہیں کیا اتنے دنوں سے۔“‘ وہ جیسے خود کلامی کر رہی تھی۔ ہما کے دل میں ہوک سی اٹھی تھی۔ جانے کے بعد اس نے ایک بار کال کی تھی جس میں صلہ کے بقول لمبے عہدو پیمان باندھے گئے تھے کہ جیسے ہی سیٹلڈ ہو جائیں گے تو اسے وہاں بلا لیں گے۔ اس کے بعد اس کا کوئی فون نہیں آیا تھا۔ 
دو تین بار اس کے والدین نے رابطہ کیا تھا۔
جس میں ہر بار اس نے یہی بات کی تھی۔ سات سال ہو گئے تھے انتظار کرتے کرتے۔ یہ واحد ٹاپک تھا جس پر دونوں خاموش ہو جایا کرتی تھیں۔ ایک مجرم سی خاموشی اب بھی ان کے درمیان دُر آئی تھی۔ گاڑی اب قدرے تنگ سڑک پر چل رہی تھی۔ بائیں جانب وسیع اور کشادہ پارک تھا۔ صلہ اس پار ک میں لگے خوشنما پھولوں کو دیکھتی گئی۔ ہما کی طرح اس کا دھیان بھی ماضی کی گرہوں میں الجھا تھا۔
دفعتاً ہما کا ڈیش بورڈ پر پڑا فون بجا۔ اس سے پہلے کہ وہ فون اُٹھاتی۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رُکی۔ ٹائر یکدم رکنے کے باعث روز سے چرچرائے تھے۔ صلہ ہماکی چیخ پر گڑبڑائی ،جو بریک لگاتے وقت اس نے ماری تھی۔ ”کیا ہوا؟“
ہما فق چہرہ لیے آنکھیں پھاڑے سڑک پر دیکھ رہی تھی۔ ”کسی کو نیچے دے دیا کیا؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔ ہما نے ہنوز آنکھیں پھاڑتے سر اثبات میں ہلایا ۔
صلہ کی تو جیسے روح فنا ہو گئی۔ ”کہا بھی تھا سپیڈ کم کرو۔ مگر تم صدا کی شوخی… کدھر ہے وہ‘’‘ اس نے زخمی کی تلاش میں نظر دوڑائی مگر دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ ”کیسے دیا ہے تم نے نیچے۔“
”کتے کو۔“ اسکے حلق سے بمشکل آواز نکلی۔“ پتا نہیں کہاں سے سڑک کے بیچ میں آن کھڑا ہوا تھا۔“ صلہ نے سکھ کا سانس لیا۔ منہ کو آیا کلیجہ واپس اپنے مقام کو پہنچ گیا۔
”شکر ہے یہ امریکہ نہیں ورنہ جیل میں جانا پڑتا۔ تم کیا بت بنی بیٹھی ہو گاڑی سائیڈ سے نکالو اس کی نماز جنازہ پڑھ کر جانا ہے۔“ اس نے اسے جھنجوڑا۔
”صلہ ذرا جا کر دیکھو شاید زندہ ہو۔ غور سے سنو اس کی ہلکی ہلکی غرغراہٹ سنائی دے رہی ہے۔“ وہ ابھی بھی حواس باختہ لگ رہی تھی۔ ”تم پاگل تو نہیں ہو گئی۔ میں کیوں دیکھوں۔ زندہ ہو یا زخمی، کتا کتا ہوتا ہے۔
اس نے مجھے کاٹ لیا تو۔“ وہ دونوں ابھی بحث میں مصروف تھیں کہ اچانک ایک معمر ادھیڑ عمر مرد بمع ہم عمر خاتون سڑک کے کنارے سے نمودار ہوئے۔ آدمی نے ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ اور خاتون ریڈ پائپنگ سے مزین سکائی بلیوشلوار قمیض پر ریڈ پرنٹڈ دوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے ہوئے تھی۔ میک اپ سے بے نیاز چہرے پر تفکر کی لکیریں واضح تھیں۔
وہ انہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان دونوں کو قریب آتے دیکھ کر صلہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ البتہ ہما انہیں کتے پر جھکتا دیکھ فوراً گاڑی سے اتری تھی۔ وہ سفید نرمز والا بہت خوبصورت کتا تھا جو ہولے ہولے سانس لے رہا تھا۔ شاید ٹکر لکنے کے ڈر سے بے ہوش ہو گیا تھا۔
”مائی گڈنیس۔ جیک یو آل رائٹ؟“ وہ گود میں بھر کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھے۔
وہ ان کا پالتو کتاتھا جو غلطی سے سڑک پر آ نکلا تھا۔ بغیر ڈائی کیے سیاہ و سفید بالوں کا امتزاج انکے سرخ و سفید رنگت پر بہت جچ رہا تھا۔ دونوں کو دیکھ کر ایک ہی لفظ دماغ میں آتا تھا ”گریس فل۔“ صلہ بھی باہر نکل آئی تھی۔ ہما ان سے ایکسکیوز کر رہی تھی جبکہ وہ معمر آدمی مسکرا کر کوئی بات نہیں ”کہہ رہے تھے۔ البتہ وہ خاتون مسلسل پریشان سی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوش میں لانے کی سعی کر رہی تھیں۔
”آپ آ جائیں ہم آپ کو ہسپتا ل چھوڑ دیتے ہیں۔“ صلہ نے آفر کی۔
”نہیں بیٹا اس کی ضرورت نہیں یہ قریبی پارک میں ہم آئے ہوتے تھے۔ وی ول مینج۔ آپ لوگ جاؤ۔“ ہم نے واپسی کے قدم بڑھا دیے تھے شاید انہیں احساس ہو گیا تھا کہ کوئی چوٹ نہیں لگی۔ اس نے بروقت بریکس لگا لیے تھے۔
ان کے جاتے ہی ہما نے باآواز بلند شکر ادا کیا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
صلہ یک ٹک ان دونوں کو جاتا دیکھ رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
”تم بھی عجیب ہو صلو۔ تمہاری فیورٹ سٹار تمہارے سامنے اور تم نے آٹو گراف تک نہیں لیا۔“ اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے کرتے خاموش بیٹھی صلہ پر نظر ڈالی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”ویسے وہ دونوں کتنے کیوٹ لگ رہے تھے۔ رئیل لائف میں وہ آج بھی بہت خوبصورت ہیں۔ ہیں ناں۔“ اس نے اس سے تائید چاہی تو فقط مسکرا کر رہ گئی۔“ وہ واقعی زرینہ خان تھیں؟“ زندگی میں اسے اتفاقات بھی ہوتے ہیں۔ وہ متحیر سی سوچے گئی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali