Episode 33 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 33 - صلہ - ایمن علی

سورج آگ برسا رہا تھا۔ سیٹ پر معمول کی چہل پہل تھی۔ اس نے ایک نظر چاروں طرف دوڑائی۔ وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی مگر سامنے سے آتی زارا کو دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔ وہ نظر بچا کر دوسری طرف نکل کھڑا ہوا مگر و دیکھ چکی تھی سو فوراً اسے جا لیا۔
”یہ کیا طریقہ ہے بالاج… تم مجھے اگنور کیوں کر رہے ہو۔“ وہ اس کے سامنے کھڑی درشت لہجے میں گویا تھی۔
بالاج بشمکل بے زاری چھپا پایا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے میں مصروف ہوں۔“ وہ کامن روم کے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ اس پروجیکٹ میں شریک نہیں تھی۔ محض اس سے ملنے آئی تھی۔
”مصروف ہو… ہا“ اس نے نخوت سے ناک چڑھائی۔“ تم کیا سمجھتے ہو چندلاکھ کی شاپنگ کروا کر تم نے مجھے خرید لیا ہے کہ جب چاہا استعمال کیا جب چاہا پھینک دیا۔

(جاری ہے)

مائنڈ یومسٹر شاہ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جنہیں تم استعمال کر کے پھینک دیتے ہو۔

“ ”ویل… یہ بات خاصی Debatable ہے۔“ اس نے طنزیہ ٹون اپنائی تو زارا کی تیوریوں میں اور اضافہ ہو گیا۔
”جانتی ہوں آج کل کوئی نیا شکار مل گیا ہے۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ تمہاری چوائس اتنی گئی گزری ہے۔ کوئی ماڈل یا ایکٹر نہیں ملی تو اسسٹنٹ سے ہی چکر چلانے کے چکروں میں ہو۔ یہاں موجود ایک ایک آدمی جانتا ہے کہ تم دن بھر کس طرح اسے تاڑتے رہتے ہو۔
“ وہ سخت طیش میں تھی۔ غصے کی غارت سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”مائنڈ یور لینگوئج زارا…“ وہ یکدم کھڑا ہوا تھا۔ ”پہلی بات یہ کہ میرا Taste اتنا برا بھی نہیں ہے کہ اس اسسٹنٹ کو لائن ماروں اور دوسری بات نیا شکار تو مجھے مل ہی گیا ہے۔ وہی تمہاری پرانی Competitor جس نے بیوٹی کانٹسٹ میں تمہیں ہرایا تھا۔ آرزو گیلانی۔“ وہ رُکا۔ زارا کے چہرے پر سخت افسوس کے تاثرات تھے۔
” میں بہت جلد اس سے شادی کرنے والا ہوں۔ سو بہتر ہو گا خاموشی سے اپنا راستہ لو۔ اور جو کچھ تم آجکل اس انڈین پروڈیوسر کو لبھانے کے لیے کر رہی ہو نا اس کا سارا ریکارڈ ہے میرے پاس۔ "So, dont you dare to blackmail me" وہ پھنکارتا وہاں سے چلا گیا۔ زارا کا سارا وجود جیسے زلزلوں کی زد میں تھا۔ یہ بات تو اس کے قریبی دوست بھی نہیں جانتے تھے۔ پھر یہ… اس کی ٹانگوں سے یکدم جان نکل گئی تھی وہ صوفے پر ہی ڈھے سی گئی۔
“ یعنی بالاج اس کی جاسوسی کرواتا رہا ہے اور وہ سمجھی کہ وہ سچ مچ اس میں انٹرسٹڈ ہے۔“ وہ سر تھام کر بیٹھ گئی۔ وہ زارا جو ٹیلی ویژن انڈسٹری کے ٹاپ کے اداکاراؤں میں گنی جاتی تھی جو شوبز کے شکاری مردوں کے لیے ٹف ٹارگٹ رہی تھی اسے کتنی آسانی سے وہ سانولا سولنا سا مرد عام لڑکیوں کی صف میں کھڑا کر گیا تھا۔
”ہاں آرزو بولو۔“ کام سے فارغ ہو کر وہ گھر آیا ہی تھا کہ آرزو کی کال آ گئی۔
”بس تقریباً مکمل ہی سمجھو۔ جب انسان بالکل اکیلا ہو تو اسے گھیرنے میں بہت آسانی ہوتی ہے اور پھر آدرش تو ہے ہی۔“ وہ رکا۔ آرزو نے آگے سے کچھ کہا تو وہ کھلکھلایا۔ ”لوگ خواہ مخواہ روگ پالتے ہیں۔ کوئی چیز یا انسان لاحاصل نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ضروری۔ ضرورت تو وہ خواہش ہوتی ہے جو اس انسان سے جڑی ہوتی ہے۔ وہ ختم تو سب چارم ختم چاہ ختم“ آرزو کے فلسفیانہ انداز میں کہنے پر اس کے چہرے پر محظوظ سی مسکراہٹ در آئی۔
خود آرزو بھی تو اس کے شکاروں میں سے ہی تھی۔“ بس یہ ہلکی سی خلش ختم کر لو پھر تم پورے کے پورے مزے میں ہو گی۔“ بالاج مسکراتے خدا حافظ کہتا فون رکھ دیا۔ بچوں کے کمرے میں جھانکا تو وہ دونوں سو رہے تھے۔ ایک آسودہ سی نظر ان پر ڈالتا وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
”سر یہ فائل آپ کی گاڑی میں سے ملی ہے۔“ وہ یکدم مڑا ملازم مودب سا کھڑا تھا۔
”کہاں تھی یہ فائل۔“ وہ فائل تھامتے اچنبے سے بولا۔
صبح گاڑی صاف کرتے گلو کمپارٹمنٹ سے ملی تھی۔ آپ جلدی میں تھے آپ کو دی نہیں۔“ وہ مودب سا مخاطب تھا۔ ”اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔“ وہ اسے اشارہ کرتا اپنی اسٹڈی میں آ گیا۔ فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھتے اسے اچانک یاد آیا تھا۔ وہ محظوظ سی مسکراہٹ لیے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ یہ صلہ کی فائل تھی۔
جو اس دن آدرش کی تلاش میں وہاں جانے کے بعد بارش میں بھیگتی ملی تھی۔ اس نے یونہی گاڑی میں اسے رکھ لیا تھا۔ ملجگے سے سبز رنگ کی فائل اس نے اکثر صلہ کے ہاتھ میں دیکھی تھی۔ اس نے فائل کھولی۔ ذہن میں مختلف آئیڈیا کلبلا رہے تھے۔ باقی لڑکیوں کی طرح وہ گفٹس اور شاپنگ کے لالچ میں آنے والوں میں سے نہیں تھی۔ وہاں سے اس کی کہانی پر ڈرامہ بنانے پر پیسہ لگا کر ٹریپ کر سکتا تھا۔
فائل خاصی خستہ حال تھی۔ جگہ جگہ مٹی کے دھبے لگے تھے۔ کئی صفحات ابھی بھی نم تھے اور جو خشک تھے وہ اپنے اصلی سائزر سے سکڑ کر تڑمڑ گئے تھے۔
پہلے صفحے پر بال پوائنٹ سے بڑبڑا سا کچھ لکھا تھا۔ اس نے بغور دیکھا تو وہ ”عنایا“ تھا۔ اس نے اگلا صفحہ پلٹا تو کرداروں کے نام کی ایک فہرست تھی۔ مٹی مٹی سی تحریریں۔ ابرار، رمنا، اعجاز، عامر، بتول، عنایا جہانگیر پر آتے وہ رکا۔
اس نام کے آگے بڑا بڑا سا زرینہ اے خان لکھا تھا۔ وہ چونک سا گیا۔ 
اس نے صفحے آگے کیے تو باوجود کوشش کے بھی مسودے کے وہ شروع کا بشتر حصہ بڑھ نہیں پایا۔ روشنائی مکمل طور پر مٹ چکی تھی شاید اس نے انک پین سے لکھا تھا۔ اس لحاظ سے آدھے سے کچھ کم مسودہ ضائع ہو چکا تھا۔ البتہ بقیہ بال پوائنٹ سے لکھے ہونے کے باعث قدرے قابل فہم تھا۔ روشنائی پھیلی ضرور تھی مگر مکمل طور پر مٹی نہیں تھی۔
وہ بے دھیانی میں سرسری سا پڑھتے صفحے پلٹنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں وہ کہانی میں مکمل طور پر ڈوب گیا۔ اسے خبر ہی نہ ہوئی وہ کب محو ہو گیا۔ آغاز نہ پڑھنے کے باوجود مکالمات اتنے چست اور پلاٹ اتنا دلچسپ تھا کہ وہ مکمل پڑھے بغیر اٹھ ہی نہ پایا۔
…#…
”اندر آ سکتی ہوں۔“ ہلکی سی دستک دیتی دروازے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی وہ صلہ ہی تھی۔ الماری بند کرتی ہما لمحہ بھر کو یقین ہی نہ کر پائی کہ وہ اس سے مخاطب تھی۔
وہ طائرانہ نظر کمرے پر ڈالتی اندر آ گئی۔ شیری کا یہ کمرے پہلے امی ابو کا تھا اور گھر کا سب سے بڑا کمرہ تھا۔ ان کی شادی کے بعد امی ابا دوسرے کمرے میں شفٹ ہو گئے تھے۔ اچھے وقتوں میں رحمان صاحب نے یہ آٹھ مرلے کا گھر بڑے شوک سے بنوایا تھا۔ ہما کا اپنا گھر ان سے قدرے بڑا اور کشادہ تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باوجود وہ اپرمڈل کلاس میں شمار ہوئے تھے جبکہ رحمان صاحب نے ساری عمر ایمانداری سے نوکری کرتے گزاری تھی۔
کمرہ نئے طریقے سے سجایا گیا تھا۔ وہ پہلی دفعہ بغور دیکھ رہی تھی۔ دو مہینے سے چھائی وہ دھند چھٹ گئی تھی۔ ریک میں لگے نفس سے ڈیکوریشن پیسز کے درمیان بڑے سے فریم میں لگی تصویر کو دیکھ کر وہ ٹھٹک سی گئی۔ کسی سحرزدہ سے معمول کی طرح اس طرف بڑھی۔
ساحل سمندر پر مٹی کے گھر بناتے مصروف سے شیری، ہما اور صلہ۔ یہ ان کی فیورٹ بچپن کی تصویر تھی جو عرصے دراز سے ان کے فوٹو البم سے غائب تھی۔
”یہ تصویر شیری اپنے ساتھ لے گیا تھا۔“ وہیں الماری کے پاس کھڑی بت بنی ہما میں جیسے جان سی پڑ گئی۔ اس نے زیر لب مسکارتے وہ فریم اٹھایا۔
وہ تینوں میٹرک تک ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے۔ اور ان تینوں کا گروپ سکول میں خاصا مشہور تھا۔ یہاں صلہ کا کسی لڑکے سے پنگا ہوتا وہیں لمبا تڑنگا سا شیری مدد کو آن موجود ہوتا۔ وہاں ہما کو کوئی لڑکی تنگ کرتی اور وہ گلا پھاڑ کر روتی تو وہی صلہ بھائی سے سیکھے نئے باکسنگ کے جوہر آزماتی اور گھر بھر کی ڈانٹ کھاتی۔
اس نے مسکراتے فریم واپس رکھا۔ ایک نظر دوسری اشیاء پر ڈالتی وہ ہما کی جانب مڑی۔
”یاد ہے اس وقت تم سکول سے resticate ہوتے ہوتے بچی تھیں۔“ ہما نے نم آنکھیں لیے بولی۔ اس تصویر کو دیکھ کر تینوں کو ایک ہی واقعہ یاد آتا تھا اور وہ تینوں خوب ہنستے تھے۔
”تم بھی خواہ مخواہ ببوگوشہ بنی مار کھاتی رہتی تھیں اور جب تمہارے بدلے میں لیا کرتی تھی تو پھر گن گن کر لیتی تھی۔
پرنسپل نے تو مائنڈ کرنا ہی تھا۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی تو ہما بھی مسکرا دی۔
”تو پھر یہ بہادر شیلہ اپنے ببو گوشے سی ہما کو معاف نہیں کر سکتی۔“ وہ آس بھری نظروں سے دیکھتی بولی۔ صلہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔
”میں نے کسی کو کیا معاف کرنا ہے یار۔ میں تو خود اپنے تخیل کو بھول بھلیوں میں کھو گئی تھی۔“ وہ اس کے قریب چلی آئی۔ ”معاف کرنا اللہ کی صفات میں سے ہے۔
اپنے تخلیق کردہ کرداروں کو اس کی مخلوق پر ترجیح دے کر تکبر کی سزا پائی ہے میں نے۔ دوبارہ یہ غلطی نہیں کروں گی۔“ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ ہما فرط جذبات میں اس کے گلے لگ گئی۔
”ایم سوری۔ آئی رئیلی ایم… مجھے پتا وہ پروجیکٹ تمہارے لیے کیا اہمیت رکھتا تھا۔ میری بیوقوفی کی وجہ سے یہ سارا میس کریٹ ہوا ہے۔“
”بھول جاؤ سب کچھ۔
ماضی کا کیا رونا۔ جو بیت گیا سو بیت گیا۔“ اس نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا اور اس کے آنسو پونچھے۔
”ارے ارے رُکو… میں بھی تو ہوں۔ اتنے سالوں بعد ہمارے گینگ کا ری یونین ہوا ہے۔ ڈھنگ سے ملنے تو دو۔“ شیری جو کب سے دہلیز پر کھڑا سن رہا تھا یکدم اندر آیا اور ان دونوں کو ایک ساتھ زور سے اپنے ساتھ لگا لیا۔
”شرم کر لو کچھ۔ یہ امریکہ نہیں ہے۔
“ ہما نے جھینپ کر اسے پیچھے دھکیلا تو صلہ بھی ہنس دی۔
”لو بھلا بیوی اور بہن کو گلے لگانا کون سا جرم ہے۔“ وہ ڈھٹائی سے بولا۔
”اچھا کیوں تنگ کر رہے ہو ہماری بھابھی کو۔“ صلہ نے اسے ڈپٹا تو وہ دونوں بھی ہنس دیں۔“ ہماری بھابھی۔ یہاں تو خواتین گروپ بن گیا بھئی۔ میرا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ خیر میرے پاس تم لوگوں کے لیے گڈ نیوز ہے۔
”وہ کیا۔“ دونوں یک بیک بولیں۔
”خبر یہ ہے کہ میں واپس نہیں جا رہا۔ میں نے جو چھٹیاں ایکسٹینڈ کروائی تھیں وہ بھی ختم ہو گئی ہیں مگر میں اب یہیں رہوں گا۔“ وہ دونوں کے تاثرات جاننے کو رکا۔ وہ دونوں بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”میں نے ایک دو بڑی فرم میں اپلائی کیا تھا۔ امید تو نہیں تھی مگر تیری بھابھی بڑی لکی ہیں۔
نکاح کے اگلے دن انٹرویو کال آ گئی۔ مگر ان میڈم کا سڑیل رویہ دیکھ کر واپس جانے کا سوچ رہا تھا۔ دیکھ یہ رہا اپائنمنٹ لیٹر۔ ایک تو تم لڑکیوں کو جب تک ثبوت نہ دکھایا جائے۔ تب تک سٹارپلس کی ہیروئن کی طرح منہ کھولے صدیوں تک کھڑی رہتی ہو۔“ اس کے لیٹر نکالتے ہی صلہ نے جھپٹا مارا اور باہر نکل گئی۔“ ابا کو دکھا کر آتی ہو۔“ وہ انویلپ لیے بھاگی۔
شیری مسکراتی ہما کی طرف مڑا۔
”جی بیگم صاحبہ… آپ خود مبارک باد دینے آ رہی ہیں یا میں آؤں آپ کی جانب۔“ وہ اس کا سجا سنورا سراپہ نظروں میں جذب کرتے پوچھ رہا تھا۔ وہ یکدم بوکھلا گئی۔
”وہ مجھے امی بلا رہی تھیں۔ مجھے بالکل ہی بھول گیا تھا۔“ وہ سائیڈ سے نکلنے لگی تو اس نے رستہ روک لیا۔ ”پہلے مبارکباد۔“ اس کی نظروں میں شرارت ناچ رہی تھی۔
کیا کر رہے ہو کوئی آ جائے گا۔“
”تو آ جائے۔“ وہ اور قریب ہوا۔
”امی آپ…“ ہما یکدم چونک کر سیدھی ہوئی تھی۔ شیری ہڑبڑا کر مڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ چوکھٹ بالکل خالی تھی۔ اب وہاں سے ہما جاتی نظر آ رہی تھی۔ ”ہما کی بچی… بڑی ایکٹر ہو گئی ہو۔ دیکھ لوں گا تمہیں۔“ اس نے منہ پر ہاتھ پھیرتے دھمکی دی۔ ہما اسے منہ چڑاتی وہاں سے بھاگی تھی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali