Episode 34 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 34 - صلہ - ایمن علی

”جاڑا آیا، جاڑا آیا…“ باہر لاؤنج میں کشف اور رابیل اونچی آواز میں ٹی وی پر لگے کمرشل سنگ موسیقی کے جوہر آزما رہی تھیں۔ سخت سردی کے دن تھے۔ شام ہو رہی تھی اور خشک سردی کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ اندر کمرے میں دادو لیٹی تھیں اور ان کے ساتھ مونگ پھلی کھاتی ہما ان کے کمبل میں گھسی بیٹھی تھی۔ کارپٹ پر ہیٹر کے قریب بیٹھی صلہ کے گال سرخ پڑ گئے تھے کہ کمرے کی اکلوتی کرسی پر امی براجمان تھیں اور کسی سوٹ کی مرمت میں مصروف عمل تھیں۔
صلہ دادو کے بیڈ سے لگی بیٹھی تھی اور ہیٹر کا رخ دادو کے پاؤں کی جانب تھا۔
”اف… یہ ہیٹر کا منہ دوسری طرف کر دوں؟“ اس نے بالآخر چڑ کر کہا تھا۔ ہما جو دو عدد اونی سویٹر پر کمبل اوڑھے بیٹھی تھی یکدم چلائی۔“ بالکل نہیں تم کمرے سے باہر چلی جاؤ۔

(جاری ہے)

”میں کیوں باہر جاؤں… اس موئے ہیٹر کی تپش سے میرے منہ سے سینک نکلنے لگتی ہے۔
“ وہ ٹھنڈے ہاتھوں سے گال رگڑتی بولی۔ ڈسٹ الرجی کے باعث اس کی سکن بہت حساس تھی۔ تیز دھوپ یا سردی میں ہیٹر کی تپس سے گال دہک اٹھتے تھے۔ جیسے آگ نکل رہی ہو اور ہاتھ یخ ہوجاتے تھے ایسا اوررو ایکسائٹمنٹ میں بھی ہو جاتا تھا۔
”تم تو ہو ہی نمونہ… بلکہ لاعلاج نمونہ۔“ ہما کے کہنے پر وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔
”صلہ بیٹا جاؤ ذرا چائے لا دو مجھے۔
“ امی نے کہا تو صلہ حیران ہوئی۔
”ابھی تو پی ہے آپ نے چائے۔“ اس نے پاس پڑے چائے کے کپ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ مزید برہم ہوئیں۔
”بحث نہیں کرو باہر جاؤ۔“ صلہ مشکوک ہوئی۔
”یہ بہانے سے مجھے باہر کیوں بھیجا جا رہا ہے۔ کونسی خفیہ بات کرنی ہے۔“ وہ کھڑی ہوتے شرارت سے گویا ہوئی۔ امی نے جواباً غصیلی نظر ڈالی تو وہ منہ بناتی چلی گئی۔
اس کے باہر جاتے ہی وہ دادو کی طرف مڑیں۔ جو بیٹھی اونگھ رہی تھیں۔
”آج بھابھی کا فون آیا تھا۔ جواب مانگ رہی ہیں۔ خواہ مخواہ شیری نے وقت لیا سوچنے کا۔ میں تو بس اس کے ابا کو آج حتمی کہہ دوں گی کہ ہاں کر دیں۔“
دادو نے قدرے تاسف سے انہیں دیکھا۔ جو ان کی پوتی کے بیاہ کے معاملے میں حتمی فیصلہ ان سے پوچھ نہیں بلکہ بتا رہی تھیں۔
”کیا بات ہوئی بھلا۔ چلو مجھ سے پوچھنا تو تمہیں گوارا نہ ہوا کم از کم اس غریب سے تو پوچھ لو جسے شادی کے نام پر قربان کرنے جا رہی ہو۔“ وہ سخت برامان گئیں۔ عالیہ بیگم ساس کا مزاج دیکھتی یکدم سیدھی ہوئیں۔
”ایسی بات نہیں ہے اماں۔ آپ سے رحمان نے پوچھا تو تھا جب بات شروع ہوئی تھی اور پھر صلہ سے پہلے میں پوچھ کر پچھتائی۔ اس دفعہ پھر انکار کر دے گی وہ۔
مگر میں اس بار نہیں پوچھنے والی۔ آپ کے لاڈ کی وجہ سے وہ پہلے ہی بہت بگڑی ہوئی ہے۔“ وہ دو ٹوک انداز بولیں۔ ہما چپکے سے کمبل سے نکلی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ ”کمال کرتی ہو بہو تم بھی… اس سے تو اچھا ہے لڑکی کی آنکھیں پھوڑ دو۔ اور چپکے سے رخصت کر دو۔“
”ایسے تو نہ کہیں اماں۔ عذیر میں کیا خرابی ہے۔ ماشاء اللہ پڑھا لکھا ہے، خوش شکل ہے، باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا ہے اور کیا چاہیے۔
“ انہوں نے تایا ابا کے بیٹے کی تعریف کی۔ دادو ناک بھوں چڑھا کر رہ گئیں۔
”خرابی یہ ہے بہو کہ وہ صلہ کو نہیں پسند۔ اور یہ وجہ بہت کافی ہے انکار کرنے کو۔“ وہ بے لچک لہجے میں بولیں۔ عالیہ بیگم سخت نالاں ہوئیں۔
”اماں آپ تو ہمیشہ…“ ہما ان کو بحث کرتا چھوڑ کر کچن میں چلی آئی۔ جہاں صلہ چائے بنا رہی تھی۔
”کیا کر رہی ہو۔
“ وہ پرجوش سی بولی۔ لڈیاں ڈال رہی ہوں۔“ صلہ تنک کر بولی تو وہ ہنس دی۔” پیو گی چائے۔“ اس نے چائے مگ میں ڈالتے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔” میں تو کھانا کھا کر پیوں گی۔ مجازی خدا تشریف لائیں تو کھانا نصیب ہو۔ “وہ دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتی پھونک مار کر انہیں گرم کر رہی تھی۔ صلہ شیری کی پرانی جیکٹ گھر میں پہنتی تھی۔ پیرا شوٹ ہونے کے باعث وہ خاصی گرم تھی۔
جبکہ ہما دو عدد موٹے اونی سویٹر پہنے تھی اور کانوں کے گرد شال لپیٹ رکھی تھی۔ وہ بے اختیار مسکرا دی۔ ”باکل برفانی بھالو لگ رہی ہو۔“ وہ اسے چھیڑتی کپ لیے ہما کے کمرے کی جانب چل دی۔
”آنٹی نے تم سے پانی منگوایا تھا اور تم خود چائے بنا کر بیٹھ گئی ہو۔“ ہما نے کمرے میں آتے اسے لتاڑا ”بھئی ان کا آج پھر سے میری شکایتیں لگانے کا موڈ تھا سو وہاں سے بھگانے کا بہانہ تھا۔
“ وہ مزے سے ٹانگیں پسار کر بیڈ پر نیم دراز ہو گئی۔
”تو تمہیں مسئلہ کیا ہے عذیر کے ساتھ۔ راحیلہ بتا رہی تھی کہ جب سے دادو کی بیماری کے وقت وہ لاہور سے ہو کر گیا ہے تب سے تمہارے سنجیدہ اور انسانوں والی حرکات دیکھ کر لٹو ہو گیا ہے تب سے شادی کی ضد لیے بیٹھا ہے۔“ ہما آج اسکی کلاس لینے کے موڈ میں تھی۔ صلہ اس کی تیاری دیکھ کر مسکرا دی۔
”بھئی عذیر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ میرا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کوئی لڑائی کوئی پھڈا نہیں ہے۔ کتنی بورنگ لائف ہو گی اس کے ساتھ۔“ وہ مسکراہٹ دبائے بولی۔
”تو پھر اس بالاج سے شادی کر لو۔ پھڈے تو اسی کے ساتھ تھے تمہارے۔“ وہ تنک کر بولی۔
”آئیڈیا برا نہیں ہے ویسے۔ وہ مصنوعی سنجیدگی طاری کرتی بولی پھر ہما کے گھورنے پر وہ چپ کر کے چائے کی چسکیاں لینے لگی۔
”کہیں تم جمال یوسف کی وجہ سے تو انکار نہیں کر رہیں۔“ وہ محتاط سے انداز میں پوچھ رہی تھیں۔ صلہ نے ایک سپاٹ سی نظر اس پر ڈالی۔ پھر آہستگی سے گویا ہوئی۔
”آئیڈیل، حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ہما اگر وجود رکھتے بھی ہوں تو لاحاصل ہوتے ہیں اور یہ بات میں پہلے بھی نہیں بھولی تھی۔“ وہ چائے سے نکلتی بھاپ کو دیکھ رہی تھی۔ ہما دل مسوس کر رہ گئی۔
”تمہارا زرینہ سے کوئی رابطہ ہوا؟ آئی مین سال ہونے والا ہے اب تو۔“ وہ اس کا موڈ جانچتے بولی۔ ”میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور نہ انہوں نے کیا۔ ویسے بھی وہ دوسری بار اعتبار کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔“ اس کا لہجہ باہر کی سردی سے جیسا ٹھنڈا تھا۔ ہما متحیر سی رہ گئی۔ وہ پہلے تو اتنی بے حس کبھی نہیں تھی۔
”تم کہو تو میں بات کروں ان سے۔
میں انہیں سب کچھ…“
”نہیں۔“ صلہ کے انداز میں اتنی سختی تھی کہ باوجود چاہنے کے وہ بات پوری نہ کر پائی۔
”پرسوں ندیا ملی تھی مجھے۔“ وہ رکی۔ صلہ لاتعلق سے چائے پی رہی تھی۔” بتا رہی تھی کہ کشمیر میں کسی سیاسی مسئلے کے باعث ان کی فلم رک گئی ہے۔ سندھ کے گوٹھ صادق آباد کی سائیڈ کا کام وہ مکمل کر چکی ہیں۔ پہلے بھی کشمیر میں کوئی پرابلم ہوئی تھی۔
مگر پچھلے دو مہینے سے پھر کام رکا ہوا ہے۔“ اپنی طرف سے اس نے بڑی خبر دیت تھی۔ صلہ مگ رکھتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔” تیاری پوری ہو گئی تم لوگوں کی، کچھ رہ تو نہیں گیا۔“ وہ الماری کھولے جائزہ لے رہی تھی۔ ہما بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔ شیری کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا تھا۔ اور دو دن میں انہیں ہیڈ آفس رپورٹ کرنا تھا۔
وہ سر جھٹکتی الماری کی جانب بڑھ گئی کہ ابھی بہت کام باقی تھا۔
اگلی صبح شیری اور ابا کو ناشتہ دیتی ہما جھٹکی۔
”آنٹی۔ صلہ کدھر گئی۔“ توے پر توس سینکتے عالیہ بیگم مڑیں۔“ ابھی تو اٹھی تھی۔ دیکھو پھر جا کر لیٹ نہ گئی ہو۔“ وہ مصروف سے انداز میں کہتیں انڈا پھینٹنے لگیں۔
وہ سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلی آئی۔ دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔
کمرے میں ملجگی روشنی تھی۔ اس نے لائٹ جلائی تو آنکھوں پر بازو لپیٹے صلہ کی آنکھیں چندیا سی گئیں۔ وہ ہنوز لیٹی رہی ہما نے آگے بڑھ کر کمبل کھینچ لیا۔ ”یہ کونسا وقت ہے سونے کا۔“ وہ بازو ہٹا کر خاموش سی نظر اس پر ڈالتی آہستگی سے اٹھ بیٹھی۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
”کیا ہو گیا ہے تمہیں صلہ اتنی عجیب ہوتی جا رہی ہو تم۔“ وہ کمبل تہ کرتے بول رہی تھی۔
بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بناتی صلہ کی متورم آنکھیں دیکھ کر وہ چونکی۔
”کیا ہوا۔ تم روئی ہو؟“ وہ متحیر سی اس کے پاس چلی آئی۔ جواباً ایک خاموش سی نظر اس پر ڈالتی صلہ نے صبح کا گول مول کیا اخبار اس کی جانب بڑھا دیا۔ وہ کچھ الجھتی اخبار الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ وہی روز کی گھسٹی پٹی سیا سی خبریں۔ دوسرے صفحے پر دیکھتے وہ یکڈم ٹھٹکی۔ چھوٹی سی شہ سرخی پر نظر پڑتے وہ دنگ سی رہ گئی۔
”80 کی دہائی کے معروف اداکار جمال یوسف نے ابرسدھوا نامی امریکی نژاد پارسی لڑکی سے شادی کر لی۔ لڑکی کی عمر 20 سال ہے نکاح کی تقریب انتہائی شان و شوکت کے ساتھ پیرس میں وقوع پذیر ہوئی۔“
آگے مزید تفصیلات پڑھنے کی اس کی ہمت نہیں ہوئی۔ اشتعال کی بھرپور لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی۔ اس نے غصے میں اخبار دور پھینکا۔ صلہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔
وہ چند لمحے کچھ بول ہی نہ پائی۔ تسلی کا ہر لفظ چھوٹا لگ رہا تھا۔
”مجھے علم ہے کہ یہ تمہارے لیے بہت بڑی بات ہے۔ مگر جانتی ہو۔ مجھے اس وقت کیا لگ رہا ہے۔“ وہ رُکی صلہ ہنوز اسی پوزیشن میں ساکت و ساکن بیٹھی تھی۔
”مجھے لگتا ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ اب تم سب پچھلی باتیں بھلا کر نئے سرے سے زندگی شروع کرو۔“ وہ کہہ کر دروازے کی جانب چل دی۔ پھر یکدم رُکی۔” اور ہاں کل تم ہمارے ساتھ کراچی جا رہی ہو۔ اس حال میں تمہیں میں یہاں قطعی نہیں چھوڑنے والی۔“ پھر وہ باہر چلی گئی۔ اس وقت اسے اکیلے چھوڑ دینا بہتر تھا۔ باہر جاتے اسے پوری امید تھی کہ اب صلہ کوئی حتمی فیصلہ کر کے ہی اٹھے گی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali