Episode 14 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 14 - صلہ - ایمن علی

اگلے دن وہ پھر سیٹ (Sets) پر موجود تھی۔ وہ واپس ساحل گئی تھی مگر آدرش سے ملاقات کے بعد جی ایسا اچاٹ ہوا کہ بغیر کچھ لکھے وہاں سے چلی آئی تھی۔ اسے سمندر سے عشق تھا۔ مگر یہ پہلی بار تھی کہ وہ سمندر کے پاس سے بنا سراب ہوئی اٹھ آئی تھی۔ وہ ہما سے مشورہ کرنے کو چلی آئی مگر بے اختیار ایک چہرے کی تلاش میں نظر بھٹک گئی۔ وہ اسے کہیں نظر نہیں آئیں۔ وہ مایوس سی ہو گئی۔
ہما شاید اندر تھی۔ باہر سیٹ پر معمول کی سی گہما گہمی تھی۔ کسی رومانوی ملاقات کے لیے سیٹ تیار کیا جا رہا تھا۔ لال غبارے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ ایک طرف لیپ ٹاپ پر گانے لگا کر چیک کرتے طارق کی زبان مسلسل چل رہی تھی۔ وہ کوئی اچھا سا انگلش نمبر ڈھونڈ رہا تھا اور پاس کھڑے نسیم بادنی کو جانے کون کونسی فلم کے نام اور ہسٹری بتا رہا تھا۔

(جاری ہے)

سب طارق کو فلموں کا انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے۔

اکثر نسیم بادنی اسی سے پس پردہ موسیقی کے لیے assign کرتے تھے۔ سب کرداروں کے اپنے اوریجنل ٹریکس تھے۔ مگر بعض جگہ پرانا موسیقی کا ریکارڈ بھی کام آ جاتا تھا۔ وہ خود تاروں میں الجھے تھے۔ انکا اسسٹنٹ آج بھی غائب تھا۔ صلہ مسکراتی ان کی جانب بڑھی۔
”کیا ہو رہا ہے؟“
”ارے صلہ تم کب آئیں۔“ وہ مصروف سے انداز میں بولے۔ ”دیکھو ذرا ایاز کا بچہ پھر چھٹی کر کے بیٹھ گیا۔
“ رف سا حلیہ، ہلکی بڑھی شیو اور چہرے پر ہمیشہ کی طرح کا پھیلا سکون صلہ کو بے اختیار ان پر پیار آیا۔
”کوئی کام ہے تو مجھے بتائیں۔“ وہ خوشدلی سے بولی۔
”پہلے ذرا یہ سونگ تو سلیٹک کروائیں اعفان زارا کے لیے انہی کی ڈیٹ شریف پر گانا چلانا ہے۔“ ان سے پہلے طارق بول اٹھا۔
”زرینہ کی چوائس بہت اچھی ہے ان سے پوچھ لیں۔“ وہ بے ساختہ بولی تھی۔
”فائنل تو وہ ہی کریں گی۔ ابھی تو وہ ان دونوں کے ساتھ سر کھپا رہی ہیں۔ بالاج ہما جیسی کیمسٹری جو نہیں بن پا رہی ان دونوں کی۔“ وہ بولا۔ اور گانے تبدیل کر کر کے اس سے پوچھنے لگا۔ ایک نمبر پر اس نے اسے روکا۔ اس کی ٹیون آشنا سی لگ رہی تھی۔“ طارق یہ ہما، بالاج کے لیے کیسا رہے گا۔“ ”مگر ان کا تو کوئی ڈیٹ والا سین نہیں ہے۔ ویسے بھی ان کا اوریجنل ٹریک ہے۔
”وہ تو سبھی کا ہے۔ ویسے ہی کبھی استعمال ہو جائے گا۔ ان پر فٹ بیٹھتا ہے۔ اور اس سے جو پہلے ٹریک آیا تھا وہ زارا، اعفان کے رکھ دینا۔“
وہ رونن کیٹنگ کا "When you say nothing at all" تھا جو ہما بالاج کے لیے اس نے سجیسٹ کیا تھا۔ نسیم بادنی دوسری جگہ مصروف تھے سو طارق کوا پنی ذہانت جھاڑنے کو صلہ مل گئی۔ وہ بے توجہی سے اس کی رونن کیٹنگ کی سہڑی، بائیو گرافی سن رہی تھی کہ رخ، موڑتے کسی سے ٹکرا گئی۔
گانا ہنوز فضہ میں گونج رہا تھا۔ بالاج جو ہما کو فلسفہ کہنے کا طریقہ سمجھا رہا تھا چونک کر مڑا تھا۔ وہ دونوں ابھی باہر نکلے تھے۔ صلہ ٹکرانے کے بعد جیسے کرنٹ کھا کر بے ساختہ پیچھے ہٹی تھی۔ بالاج اس کی حرکت کو محسوس کر کے رہ گیا۔ اس سے دور ہونے کے چکر میں طارق کی خاصی قریب ہو گئی تھی۔ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
"The smile on your face lets me know you need me."
The truth in you eys lets me know, you never leave me.
The touch of your hand says you catch me, wherever i fall,
You say is best when you say nothing at all.
رونن کیٹنگ کی آواز گونج رہی تھی دونوں نے یک بیک نظریں چرائی تھیں ایک لمحہ لگا تھا انہیں ٹھٹک کر رکنے جانے میں اور پھر ذہن سے جھٹکنے میں بھی۔
وہ واپس ہما کی جانب متوجہ ہوا تھا اور وہ نسیم صاحب کی جانب بڑھ گئی۔ انہوں نے اسے ایکسٹراز کی تیاری کے لیے دوسرے کمرے میں بھیج دیا۔
”ہاں طارق چوز کیا؟“ زرینہ مصروف سے انداز میں پوچھ رہی تھیں۔
”جی میم ہو گیا۔ آپ ذرا یہ دیکھیں یہ شاہو اور ہما پر کتنا سیٹ ہو رہا ہے نا۔“ اس نے گانے کو ریوائنڈ کیا۔
”افوہ۔ میں نے زارا اعفان کے لیے کہا تھا۔
“ وہ جھنجھلائیں۔
”جی وہ بھی کیا ہے۔ صلہ دونوں کے بتا گئی ہے۔“ رونن کیٹنگ کی آواز پھر سے گونج اٹھی تھی۔ ان کے تنے اعصاب قدرے ڈھیلے پڑ گئے۔ وہ واقعی ان دونوں پر فٹ بیٹھتا تھا۔ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہتا ہوا آنچ دیتا رشتہ۔
اعفان زارا کے لیے بھی اس نے اچھا نمبر سلیکٹ کیا تھا۔ ”اچھا یہ اعجاز کو دو میں آتی ہوں۔“ وہ واپس ان دونوں کے پاس چلی گئیں۔
…#…
ٹھنڈے پانی کے زور دار چھپا کے مار کر اس نے دیوار گیر آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ دائیں آنکھ انفیکشن کی وجہ سے ابھی بھی سرخی مائل تھی۔ وہ دوبارہ واش بیسن پر جھک گیا۔ چہرہ رومال سے خشک کرتے وہ باہر آیا تھا پھر جیب سے اپنی قیمتی گھڑی نکال کر پہننے لگا۔ دفعتاً ہلکی سرگوشیوں کی آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ وہ وہم سمجھ کر سر جھٹکتے واپس جانے لگا۔
لیکن ٹھٹک کر رُک گیا۔ اب کی بار اُس کی آواز پہلے سے قدرے بلند تھی۔ واش روم کے پیچھے قدرے سنسان جگہ تھی۔ آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں۔ وہ ہلکے قدم اٹھاتا اس طرف بڑھا۔
”پلیز مجھے جانے دیں۔“ وہ کسی لڑکی کی سہمی سی آواز تھی۔
”کیوں میری جان۔ بہت شوق تھا نہ مجھ سے ملنے کا۔ اب ڈھنگ سے مل تو لو۔“ کسی مرد کی مخمور آواز گونجی تھی۔
اس آواز کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ اس کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ اُبھری۔
”اوہ تو یہ تم ہو۔“ وہ یکدم اس دیوار کی اوٹ کی پار جا کھڑا ہوا تھا۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آنکھوں میں تمسخر لیے بڑے اطمینان سے ان کے سامنے کھڑا تھا۔ لڑکی دیوار سے لگی کھڑی تھی اور کھلے گریبان کے ساتھ اس پر جھکا اعفان باری تیر کی طرح سیدھا ہوا تھا۔
وہ کم عمر لڑکی کالج کے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ اور متوحش نظر آ رہی تھی۔
”کیا خیال ہے ایک تصویر نہ ہو جائے۔“ بالاج نے سیل فون سامنے کیا۔ اعفان کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔
”ارے ڈر کیوں رہے ہو۔ا سی میگزین میں دوں گا۔ جس میں تم میری لو اسٹوریز چھپواتے ہو۔“ وہ واضح اس کا تمسخر اڑا رہا تھا۔ آئی فون کی سکرین ہنوز تازیک تھی۔
لڑکی دوپٹہ سنبھالتے فوراً وہاں سے نکلی تھی۔ اعفان شکارہاتھ سے نکل جانے پر تلملایا تھا۔
”فین تھی میری۔ کب سے پیچھے پڑی تھی۔ اسی سے جان چھڑوا رہا تھا۔ اس نے صفائی پیش کی تھی۔
”کم آن…“ وہ استہزائیہ ہنسا۔“ جیسے میں تمہیں جانتا نہیں ہوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے فون جیب میں رکھا۔ اعفان جل کر رہ گیا۔ اس کے آنکھوں اور لہجے میں اس کے لیے ہمیشہ تمسخر ہوتا تھا۔
حالانکہ وہ اس سے زیادہ قابل، زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کے باوجود چھوٹا سا رول کر کے اس کے حصے کا بھی سارا فیم سمیٹ لیتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ تمام لڑکیاں جن میں وہ انٹرسٹڈ تھا۔ سبکو بالاج نے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ اسی جلاپے میں اس نے بالاج کے سکینڈلز چپکے سے میڈیا کو دینے شروع کر دیے تھے۔
”اور تم جو ہوٹلوں کے کمروں میں کرتے پھرتے ہو وہ۔
یہ تو کچھ نہیں اس کے آگے۔“ اعفان نے بھی جواب تیار رکھا تھا۔ جواباً بالاج کا قہقہہ فلک شگاف تھا۔
”جیلس… تمہیں کوئی منہ جو نہیں لگاتی۔“ اعفان سٹپٹایا۔
”تو پھر ٹھیک ہے نا۔ تم وہ کرو جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے اور میں بھی وہی کروں گا جو مجھے ٹھیک لگتا تھا۔“ اعفان گویا دھمکی دی۔
”بالاج کی طنزیہ مسکراہٹ سمٹی تھی۔
”میں جو کرتا ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہوں۔
تمہاری طرح اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں محفلیں نہیں سجاتا۔ پھر اس کے قریب جا کر پھنکارا۔ ”جو بھی کرو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ مگر محلے کی جھگڑالو عورتوں کی طرح میری سابقہ بیوی کو رپورٹیں دینا بند کرو۔ اس کی نام نہاد مامتا جاگ اٹھتی ہے۔“ اعفان طمانیت سے مسکرایا تھا۔
”تو کیا غلط ہے اس میں جو شخص شراب و شباب میں ہر وقت ڈوبا رہتا ہو وہ اپنے بچوں کی کیا تربیت کرے گا۔
بہتر نہیں کہ ان کی ماں ہی پالے انہیں۔“ وہ سکون سے بولا ۔
”تو وہ کون سا نمازی پرہیزگار ہے۔“ وہ تلخی سے بولا۔ ”بہرحال کسٹڈی کیس تو میں جیت ہی جاؤں گا۔ تم اپنی فکر کرو۔“ اس ڈھکی چھپی دھمکی پر اعفان کلس کر رہ گیا۔ بالاج تمسخر اڑاتی نظر اس پر ڈال کر وہاں سے چل دیا۔
آئی ڈراپس ڈالنے کے باوجود انفیکشن ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے آنکھ کھولنا دو بھر ہو گیا تھا۔
وہ زرینہ سے ایکسکیوز کرتا آرام کرنے کی غرض سے کامن روم کی طرف بڑھ گیا۔ مگر رستے میں ٹھٹک کر رہ گیا۔
سامنے وہ دونوں صلہ کی گود میں موجود لیپ ٹاپ کی سکرین پر کچھ دیکھتے کھلکھلا کہ ہنس رہی تھیں۔
”کچھ لوگوں کے لیے زندگی کس قدر آسان ہے۔“ وہ سوچ کر رہ گیا۔ چند منٹوں پہلے اعفان سے کی گئی باتیں یاد آ گئیں۔ بچوں کی کسٹڈی کا کیس اس کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا تھا۔ تمام حالات اس کے خلاف تھے۔ مگر وہ مر کر بھی بچے اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاسف سے سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali