Episode 9 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 9 - صلہ - ایمن علی

وہ شوٹنگ ختم کر کے کامن روم سے متصل میک اپ روم میں بیٹھا تھی۔ اس پروجیکٹ کو بطور کوڈائریکٹر جوائن کیے انہیں دوسرا دن تھا۔ نسیم بادنی کراچی کے مشہور بازار میں ریکارڈنگ کے لیے گئے تھے۔ ان کے Small town کردار کراچی آئیں اور شاپنگ نہ کریں کیسے ممکن تھا۔ ان کے ساتھ بالاج، ہما اور دیگر فنکار گئے ہوئے تھے۔ جبکہ یہاں سٹوڈیوز میں شہر کے کردار ان کے ساتھ مصروف تھے۔
”کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری۔“ ان کے شوہر تفکر سے ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے پوچھ رہے تھے۔
”ٹھیک ہوں۔ بس سر میں کچھ درد ہے۔ انہوں نے ٹالنا چاہا۔
”ٹیبلٹ لا دوں؟ یا ڈاکٹر؟“
”نہیں۔ بس کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔“ وہ سپاٹ سے لہجے میں قطیعت سے بولیں۔ تو وہ گہری سانس لے کر رہ گئے۔

(جاری ہے)

ایسے وقتوں میں وہ بالکل اجنبی بن جایا کرتی تھی۔

انہیں اکثر ڈپریشن ہو جاتا تھا۔ اور دنیا میں وہ واحد شخص تھے جو اپنی بیگم کے آئے دن بدلتے موڈ کو سنبھالنا جانتے تھے سو خاموشی سے ایک نظر ان پر ڈالتے وہ اٹھے اور باہر نکل گئے۔ جاتے جاتے دروازہ بند کرنا نہ بھولے۔ جانتے تھے وہ اب کسی سے ملنا پسند نہیں کریں گی۔ چھوٹے سے کمرے میں دروازہ بند ہونے کی دھمک باقی تھی۔ باوقار سی وہ خاتون کمرے میں پڑی واحد چیٹر پر براجمان تھیں۔
لائٹ پنک قمیض کے ساتھ ہم رنگ ٹراؤزر میں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں گم تھیں۔ سیاہ شفاف آنکھیں چھت پر ٹکی تھیں۔ پرنٹڈ شیفون کا دوپٹہ کاندھے پر جھول رہا تھا۔
 ڈپریشن کے دورے بڑھتے جا رہے تھے۔ ڈاکٹرز نے اینٹی ڈپریسنٹ تک Prescribe کر دی تھی۔ مگر ان کی اپنی فلاسفی۔ ان کے مطابق غم کی بات، خوشی کی بات سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔
اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ جانے کتنے پل یونہی ماضی کے دھندلکوں میں کھوئے گزر گئے۔ دفعتاً کامن روم کا دروازہ کھٹ سے کھلا گویا کسی نے ٹھوکر مار کر کھولا ہو۔ سکون کی ندی میں جیسے پتھر آ گرا تھا۔ ان کی محویت ٹوٹ گئی۔ پھر دھپ سے کوئی صوفے پر براجمان ہوا۔ بیگ زور سے اچھالا گیا تھا۔ وہ خاصی حیران ہوئیں کہ اتنے مہذب کریو میں سے ایسا بے ترتیب کون ہے۔
وہ یکدم بدمزا ہوئیں جو بھی تھا اگر وہ میک اپ روم میں دروازہ کھول کر آ جاتا تو اس کی خیر نہیں تھی۔ کیونکہ ایسے موڈ میں وہ کسی کو نہیں بخشتی تھیں۔
”کہاں مر گئی یہ ہما کی بچی؟“ وہ انہی سوچوں میں گم تھیں کہ اکتاہٹ بھری آواز ابھری۔
چند لمحے مزید سر کے تو وہ سر جھٹکتی سوچوں کا منقطع سلسلہ پھر وہیں سے جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ لیکن اگلا حملہ ان کی سماعت میں سوراخ کر دینے کو کافی تھا۔
وہ کوئی لوک گیت تھا۔
”اوکھے پینڈے لمیاں نے راہواں عشق دیاں…“ مگن سے انداز میں گیت شروع کیا گیا تھا اور آخری الفاظ کو اچھا خاصا کھینچا گیا تھا اور وہ بھی انتہائی باریک آواز میں۔ ان کے دکھتے سر میں مزید لہروں کا اضافہ ہوا تھا۔
”کیہ دساں کیہ بات سناواں عشق دیا ں…“ اب کی بار خاصی موٹی آواز میں گایا گیا تھا اور آخر میں اوپرا سنگنگ کے جوہر بھی دکھائے گئے تھے۔
وہ تو جیسے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی۔انہوں نے اس خوبصورت کلام کی ایسی بے حرمتی کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ بے اختیار سر تھام کر رہ گئیں۔”انسان بن جاؤ تم شیلا…“ دفعتاً دروازہ پھر کھلا تھا اور خوبصورت نسورتی آواز گونجی تھی۔
”اگر تم نے دوبارہ میرا نام اس بیہودہ طریقے سے بگاڑا تو میں تمہاری ٹنڈ کر دوں گی۔“ خدا کی پناہ۔
کہاں میں اور کہاں وہ شیلا کی واہیات جوانی۔“ پہلی والی لڑکی تپ کر بولی تھی۔
”ہاں جی انگور کھٹے ہیں۔“ آنے والی شرارتاً چہکی۔
”اب ایسا بھی نہیں ہے۔ بس ہائیٹ ہی اچھی ہے اس کی۔ پتا نہیں لوگوں کو کیا پسند ہے۔ اس لمبے منہ والی میں۔“ وہ جل کر بولی تھی ہما ہنس دی۔ اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ دونوں کو ہی میک اپ روم کے بند دروازے کا خیال نہیں آیا۔
درمیان میں بڑے ٹیبل پر ہما کا بیگ ادھ کھلا پڑا تھا۔
”ارے رندھاوا کیا بتاؤں تجھے۔ رات کو کیا کمال خواب دیکھا میں نے… صلہ کو یکدم یاد آیا تھا۔ ”کوئی ہے تو نہیں؟“ اس نے آہستہ سے پوچھا،انداز خاصا لاپرواہی لیے تھا۔ آدھا گھنٹہ باہر انتظار کر کے وہ کامن روم آئی تھی اورا س وقت ہما سے شکایت کرنا بھول گیا تھا۔
”میک اپ روز میں چیک کر لو۔
“ ہما چپس کا پیکٹ کھولتی بولی۔ اندر بیٹھی خاتون پہلو بدلتی کوفت زدہ ہوئیں۔ لیکن صلہ پُرجوش انداز میں شروع ہو چکی تھی۔ ”چھوڑ پرے… یار بلیک مرسیڈیز اندر سے کتنی زبردست لگتی ہے یہ میں نے رات کو خواب میں جانا۔ کالی آندھی رات، تاحدِ نظر پھیلی اونچے درختوں سے گھری سیاہ تارکول کی سڑک اور سیاہ فراک پہنے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان صلہ رحمان۔
ہائے میں مر جاواں۔“ وہ ایکسائٹڈ سی تالی بجاتی بولی۔ مرسڈیز پر تو وہ دل و جان سے فریفتہ تھی۔ جواباً ہما کی ہنسی نکل گئی۔
”کیا لطیفہ ہے؟ صلہ اور ڈرائیونگ…“ چپس منہ میں ڈالتے اس نے گویا اسکی دکھتی رگ پر پاؤں رکھا۔
”دفعہ ہو جاؤ تم۔ جل ککڑی کہیں کی۔“ وہ جل کر رہ گئی۔
”اچھا… اچھا… اب سیریس ہوں آگے بتاؤ۔“ وہ مسکراہٹ دباتے بولی۔
”نہیں شکریہ…“ 
”اچھا یہ بتاؤں کہ تمہاری کہانی کہاں تک پہنچی؟“
”ماؤنٹ ایورسٹ تک…“ وہ تپ گئی۔ ”تم میری جان چھوڑو تو کچھ کروں نا۔ سوچا تھا ساحل سمندر ہو گا، میں ہونگی، چائے کا کپ ہو گا، میری فائل ہو گی اور تصور میں محو رقصاں پورا عالم ہو گا۔“ اس نے زور سے ٹھنڈی آہ بھری۔ ”بھئی تمہاری اس بے وفائی کا بدلہ بھی تو لینا تھا میں نے۔
ویسے تم کلائمیکس لکھنے آئی تھی یہاں۔ کوئی آئیڈیا ہے دماغ میں۔“ چپس کترتی پوچھ رہی تھی۔
”ہاں ہلکا سا ہنٹ ہے تو سہی۔ لکھنے بیٹھوں گی تو کچھ سوجھے گا نا۔“
”تم اسے ناول کی فارم میں شائع کرواؤ گی۔ بھلا نسیم انکل کو دے دو۔ اچھا ڈرامہ بن جائے گا۔“ اس نے اس کی شکایت سے متاثر ہوئے بغیر مخلصانہ مشورہ دیا۔
”بالکل نہیں۔
میری کہانی کا مرکزی کردار تھوڑا ٹیڑھا قسم کا ہے۔ کوئی بھی ایکٹر میری نظر میں اس سے انصاف نہیں کر پائے گا۔“ وہ قطعی لہجے میں بولی پر یکدم سیدھی ہوئی۔ ذہن میں ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔
”ارے… لبوں پر پُرسوچ انداز میں انگلی رکھے وہ رکی۔ مرکزی کردار نا سہی۔ ہیروئن تو بن سکتی ہو تم۔“
”اچھا۔“ اس کے اچھلنے سے بے نیاز چپس کھانے میں مصروف تھی۔
اپنے سائز سے بڑا تو اس کا چپس کا پیکٹ تھا۔
”واہ کیا سچویشن ہو گی۔ وہ اپنے خیالوں میں ہی خوش ہوئی اسنے دونوں ہاتھوں کو کیمرہ فریم کی طرح ہما کے چہرے پر فوکس کیا جو پیکٹ میں جھانک کر جانے کونسے غائبانہ چپس تلاش رہی تھی۔
”چھوٹا سا تاریک کمرہ۔ وحشت ناک سناٹہ اور کالی اندھیری رات۔ مدھم سی روشنی۔ ہما رندھاوا ایک کرسی پر بندھی مدد کو پکار رہی ہے۔
مگر آواز نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا کہ منہ پر کس کر پٹی بندھی ہے۔ وہ ہاتھوں کو زور سے ہلا کر آزاد کرانا چاہ رہی ہے مگر اس کے ہاتھ سختی سے پشت پر بندھے ہیں۔ آنکھیں باہر کو اُبلی پڑی ہیں۔ چہرہ خوف کے مارے زرد پسینے سے شرابور ہے۔“ صلہ کا لہجہ پُراسرار تھا۔ وہ جو چپس کے پیکٹ میں گم تھی قدرے سیدھی ہو بیٹھی۔
”کیا ہیروئن کو کڈنیپ کر لیا گیا ہے؟“ انداز میں دنیا جہاں کی معصومیت تھی۔
صلہ ”چپ کر کے سنو“ والے تاثرات دیتی ہنز اسے فریم میں لیے آگے بڑھی۔ اس کے ساتھ 6 اور لوگ بھی یونہی بندھے بیٹھے ہیں۔ اور سب کرسیاں گول دائرے کی شکل میں رکھی گئی ہیں۔ تاکہ سب ایک دوسرے کا موت کے خوف سے کانپتا وجود دیکھ سکیں۔ ”اندر بیٹھی خاتون لاشعوری طور پر متوجہ تھیں۔ کچھ بھی تھا مگر اس لڑکی کا منظر کشی کرنے کا انداز خاصا دلچسپ تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali