Episode 28 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 28 - صلہ - ایمن علی

”بالاج تم شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ آدرش کی حالت پر ذرا رحم نہیں آتا تمہیں۔“ بی جان گاؤں سے اس کے پاس چند دن رہنے آئی تھیں اور ہمیشہ کی طرح ان کا ایک ہی بات پر اصرار ہوتا تھا۔”مناہل سمجھدار ہے اپنا خیال رکھ سکتی ہے مگر پھر بھی وہ ہے تو 7 سال کی بچی ہی نا۔ اور کیا آدرش کو تمہارا مناہل کی طرف زیادہ جھکاؤ نظر نہیں آتا ہو گا۔ وہ اپنی ماں کی کاپی ہے اسکی سزا تم اس ننھے سے بچے کو کیوں دیتے ہو۔
“ بالاج بمشکل اپنی بے زاری چھپائے بیٹھا تھا۔ وہ بچوں کی کسٹڈی کا کیس جیت چکا تھا۔ ہادیہ نے جانے سے پہلے آدرش سے ملاقات کی تھی اور کیس ہارنے کا انتقام لینے کے چکر میں اس نے اس معصوم کا ذہن باپ کی طرف سے بھی میلا کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے آدرش نے کھانا پینا سب چھوڑ رکھا تھا۔

(جاری ہے)

اگر بالاج کی والدہ (بی جان) اسے آ کر نہ سنبھالتیں تو شاید وہ کسی کے قابو میں نہ آتا۔

اس کی محرومی اور بھی بڑھ گئی تھی۔ یہ بی جان کی انتھک محنت اور محبت کا ہی نتیجہ تھا جو وہ زندگی کی جانب لوٹا تھا۔ مگر وہ کب تک اسے سنبھالتیں۔
”ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے۔ اسے بھی اس کمی کے ساتھ جینا ہو گا اور کیا گارنٹی ہے کہ میں جس سے شادی کروں گا وہ میرے بچوں کو ماں کا پیار دے پائے گی۔ یہاں تو سگی مائیں بھی اپنے خوبصورت اور ہونہار بچوں کو دسرے کم صورت بچوں پر فوقیت دیتی ہے۔
میں نہیں چاہتا کہ مناہل میرا پر تو ہونے کے باعث مجھ جیسی محرومی کا شکار ہو جائے۔ آدرش لڑکا ہے اسے سنبھلنا پڑے گا اور مجھے یقین ہے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ جائے گا۔ آپ کو میرے بچوں کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے گدی نشین ہونہار بیٹے ہیں نا ان کی فکر کیجئے۔ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔“
 وہ تلخی سے کہتا اٹھ گیا اور لمبے ڈگ بھرتا سیڑھیاں پھلانگتا آدرش کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
بی جان دکھ سے اپنے شاندار بیٹے کو جاتا دیکھتی رہ گئیں۔ ان کے چار بیٹے ہی ان کی کل کائنات تھے۔ انہیں یاد نہیں پڑتا انہوں نے کب باقی تین بھائیوں کو بالاج پر فوقیت دی تھی۔ وہ رنگ روپ میں اپنے تینوں بھائیوں سے کم ضرور تھا مگر اس کی پرسنالٹی کے آگے وہ بھی کم لگتے تھیخ۔ بچپن سے آج تک ان کے خاندان نے اس کے بھائیوں کو خوبصورت ہونے کے باعث ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
اور بالاج نے یہ رویہ دیکھ کر لوگوں سے چھپنا شروع کر دیا تھا۔ وہ گہری سانس لیتے سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ اسے آخری دفعہ انہوں نے اس کی شادی پر بے تحاشا خوش دیکھاتھا۔ ہادیہ کے جوڑ کا خاندان بھر میں کوئی کزن نہیں تھا سوائے بالاج کے۔ اس نے مجبوراً اس سے شادی کی تھی۔ مگر بالاج محنت پانے کی خوشی سے سرشار تھا۔ 
دنیا جہان کی آسائشیں اس نے ہادیہ کے قدموں میں لا کر رکھ دی تھیں اس کے باوجود کبھی خوش نہیں ہوئی تھی۔
مناہل کی پیدائش پر وہ اور بھی دکھی ہو گئی کہ وہ ہوبہو بالاج جیسی تھی۔ تیکھے نقوش گہری سانولی رنگت۔ مگر اسے اس ماں کا پیار بہرحال نصیب ہو گیا تھا جو آدرش کو نہیں ہوا تھا۔ وہ محض سات ماہ کا تھا جب وہ اسے چھوڑ کر بالاج سے طلاق لے چکی تھی اور ایک مڈل کلاس مگر خوبصورت مرد سے شادی کر لی جو اس کا کلاس فیلو رہ چکا تھا۔ اب اسے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دولت بھی چاہیے تھی سو بچوں کی کسٹڈی کے بہانے وہ کروڑوں کی جائیداد پانا چاہتی تھی جو ان کے پیدا ہونے پر ان کے دادا نے ان کے نام کی تھی۔
 
بالاج کو سنبھلنے میں ایک عرصہ لگ گیا اور اس دوران آدرش آیا کے رحم و کرم پر رہا۔ اس نے ہادیہ سے نفرت کرنے کے چکر میں آدرش کو خود سے بہت دور کر دیا اور گاؤں سے شہر چلا آیا۔ یہاں اس feild میں نام کمانے کے لیے انتھک محنت کرنے لگا جس میں خوبصورتی کو ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ پہلے ماڈلنگ اور پھر ڈرامہ انڈسٹری۔ آج کے ویل گرومڈ، ویل ڈریسڈ بالاج اور پندرہ سال پہلے والے بالاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
وہ اب آدرش کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگا تھا۔ تاکہ یہ روز روز کی شادی کی اصرار کے چخ چخ سے جان چھوٹے۔ وہ اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے انجوائے کرنا چاہتا تھا۔ شادی کر کے وہ اس آزادی کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا جو اس کی ٹین ایج میں اس کی شادی کرا کے اس سے چھین لی گئی تھی۔
…#…
یہاں کراچی میں کام ختم ہو چکا تھا لہٰذا وہ نسیم بادنی سے ملنے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس چلا آیا۔
آدرش کے ضد کرنے پر وہ اسے بھی ساتھ لے آیا تھا۔ یہاں سے فارغ ہو کر مناہل کو سکول سے پک کر کے ان کا آخری دن کراچی گھومنے کا ارادہ تھا اور پھر فلائٹ سے پہلے رات کو ایک ابھرتی اداکارہ آرزو کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات تھی۔ جو اس کی یونیورسٹی فیلو بھی رہ چکی تھی۔
 اس وقت شادی شدہ ہونے کے باعث اسے ہادیہ کے علاوہ کوئی دوسری نظر نہیں آئی تھی۔
مگر آرزو اگنور کرنے والی چیز نہیں تھی۔ وہ متبسم سا گاڑی لاک کرتا اس کے خوبصورت سراپے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ آدرش کا ہاتھ تھامے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہ ریسٹ ہاؤس کی پچھلی جانب جا رہے تھے۔ آدرش کے لیے کچھ کھانے کو لینے وہ کینٹین کی طرف جا رہے تھے۔ صبح سے موسم ابرآلود تھا۔ چند موٹی موٹی بوندیں پڑتے یکدم تیز بارش شروع ہو گئی تھی۔
”آج کی ملاقات خوب رہے گی۔” موسم کی بے ایمانی دیکھ وہ دل دل میں سوچ کر رہ گیا۔ مگر دو قدم چلتے وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ آدرش اپنی چھوٹی سی چھتری کھول کر اپنے اوپر تانے پھر سے باپ کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ وہ آج کل بمشکل ہی باپ کا ہاتھ چھوڑتا تھا۔ بالاج کو رکے دیکھ اس کے اٹھتے قدم بھی رک گئے۔ وہ چونک گیا۔ ان کی جانب نیم رخ کیے سیڑھیوں پر بیٹھی وہ صلہ ہی تھی۔
برستی بارش سے بے نیاز بنا پلک جھپکے سامنے دیکھ رہی تھی۔
بالاج کی گہری نظریں اس کے بھیگتے وجود پر جمی تھیں۔ آدرش کے ہلکے سے ہاتھ ہلانے پر وہ یکدم چونکا تھا۔ آدرش نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اجازت چاہی۔ اس کی نظروں کی التجا پر وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا اور جیسے ہتھیار ڈالتے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ کھل اٹھا اور چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتا صلہ کی جانب بڑھ گیا۔
کینٹین بند تھی اور لمبے سے کوریڈور کے عین وسط میں تھی اس کے آگے چھوٹی سی سیڑھیوں پر صلہ بیٹھی تھی۔ آدرش کاریڈور پار کرتا صلہ کے عقب میں جا کھڑا ہوا تھا۔ اور اپنی ننھی سے چھتری اس کے اوپر پھیلا دی۔ مگر وہ ہر چیز سے بے نیاز ہنوز سامنے دیکھ رہی تھی۔
”کیسا عجیب رشتہ تھا ان دنوں کا کہ جب بھی جہاں بھی ضرورت پڑے دونوں ایک دوسرے کو تسلی دینے پہنچ جاتے تھے “وہ سوچ کر رہ گیا۔
اس کے ذہن سے سب نکل گیا تھا۔ وہ بے اختیار سامنے ان دونوں کو دیکھے گیا۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ یہاں کیوں آیا تھا اور اس کے بعد اسے کہاں جانا تھا۔ وہ یک ٹک برستی بارش میں کھڑا وہ منظر دیکھے گیا جو کس قدر مکمل لگ رہا تھا۔ 
بارش میں بھیگتی وہ اوٹ پٹانگ لڑکی اس وقت بالکل الگ لگ رہی تھی۔ دوپٹہ کاندھوں پر ہمیشہ کی طرح سلیقے سے پھیلائے حرن و ملال کی تصویر بنی کسی دیو مالائی منظر کا حصہ لگ رہی تھی۔
وہ لاشعوری طور پر اسکا موازنہ آرزو سے کر رہا تھا۔ آرزو سٹائلش تھی خوبصورت تھی۔ سامنے بیٹھی لڑکی دلکش سراپے کی مالک تھی مگر اس کی سادگی اس وقت سب پر بھاری محسوس ہو رہی تھی۔ دفعةً اس کا سیل فون بجا۔ اس کی عالم خواب میں جیسے فون اٹھایا تھا۔ نسیم بادنی اس کا انتظار کر رہے تھے انہیں کہیں اور بھی جانا تھا۔ اس نے فون بند کر کے آخری نظر ان پر ڈالی اور پھر واپس مڑ گیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali