Episode 10 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 10 - صلہ - ایمن علی

”سب ایک دوسرے کو خوف سے تک رہے ہیں۔ اور آزاد ہونے کو ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر انہیں بڑی مہارت سے باندھا گیا ہے۔ اب اینٹری ہوتی ہے مرکزی کردار کی۔“ اس نے ہاتھوں کے بنے فریم کو کامن روم کے دروازے کی جانب موڑا۔ ”ہیرو مجھے بچانے آیا ہے کیا؟“ ہما نے جیسے سکھ کا سانس لیا تھا۔ مگر صلہ اپنے خیال میں مگن سے انداز میں چلتی صوفے پر چڑھ گئی ہما کنارے ساتھ جا لگی۔
”کمرے کے سناٹے میں ایک بھیانک قہقہہ گونجتا ہے۔ ایک انتہائی ہینڈسم بندہ زور زور سے ہنستا ان لوگوں کی جانب بڑھتا ہے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس بڑی بڑی سرخ آنکھوں والا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ہتھوڑا ہوتا ہے۔ جسے وہ زور زور سے ہلاتا ان کی جانب بڑھتا ہے۔ وہ ساتھ ساتھ ہاتھوں کے بنے فریم کو بھی حرکت دے رہی تھی گویا وہ کردار اسی کمرے میں ہو اور ان کی جانب بڑھ رہا ہو۔

(جاری ہے)


”وہ یونہی زور سے ہنستا کرسیوں کے گول دائرے کے گرد چکر کاٹ رہا ہے پھر وہ اچانک ہما کے سامنے والی کرسی کے پشت پر کھڑا ہو گیا۔ اس کا خوبصورت چہرہ اس وقت انتہائی مکروہ لگ رہا ہے۔ یکایک اس پر جنون سوار ہو گیا اور اس پے درے ہتھوڑے سے اس شخص کے سر پر وار کرنے شروع کر دیے۔“ ہما جو لاپرواہ سی بیٹھی تھی یکدم چونکی ۔ چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں وہ بلا کی ڈرپوک تھی۔
کسی اور فلم کا صرف منظر ہی سناد و تو اس کے حواس اڑنے لگتے تھے۔ جبکہ صلہ رج کے ڈراؤنی فلمیں دیکھتی تھی۔
صلہ کے فریم میں سامنے والا صوفہ تھا۔ اس آدمی کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ڈھیر سارا خون اور اس کا بھیجا بھی باہر کو ابل پڑا۔ دماغ کی نسیں بہتی ہوئی اس کے چہرے پر آنے لگیں۔
”صلہ تم اتنی خونی قسم کی رائٹر تو نہیں تھی۔“ ہما کی آواز میں دبا خوف بھانپ کر وہ بمشکل ہنسی ضبط کر پائی۔
اور ہنوز جان لیوا سنجیدگی طاری کرتے پھر بولی۔“ آہستہ آہستہ وہ سبکو یونہی جارہانہ انداز میں مارتا گیا مارتا گیا۔“ اس کا انداز ڈرامائی رنگ لیے ہوئے تھا۔“ ”اور ہما تھرتھرکانپتی سبکو باری باری مرتے دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینہ توڑ کر باہر آ جائے گا۔ سر پر ناچتی موت کی دہشت سے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور پھر وہ ولن والا قہقہہ لگاتا ہما کی طرف بڑھا۔
”صلہ صوفے پر چڑھی تیزی سے فریم آلتی پالتی مارے بیٹھی ہما پر لائی تو وہ یکدم چلا کر اپنی سیٹ سے اٹھی تھی۔ ”امی…“ اس کا رنگ فق تھا۔ اندر بیٹھی زرینہ خان کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی تھی۔ وہ کوئی انگریزی ہارر فلم کا سین تھا جسے سنا کر وہ دوسری لڑکی کو خوف زدہ کر رہی تھی اور خاصی کامیاب بھی رہی تھی۔
اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی صلہ ہنسی پر قابو نہ پا سکی اور ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا تھا۔
”آگے تو سنو ہیروئن صاحبہ کہ کیا ہوا۔ ”وہ پیٹ پکڑے ہنستی ہوئی بمشکل بولی تھی۔ جبکہ ہما کے چہرے پر اب خوف کی بجائے غصہ تھا۔ وہ کچھ مارنے کو لینے بڑھی تھی کہ دفعتاً کامن روم کا دروازہ کھلا اور نسیم بادنی، اعفان باری اور پروڈیوسر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے۔ صلہ کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔ ہما تیر کی طرح سیدھی ہوئی۔ اعفان باری نے دلچسپی سے صوفے پر کھڑی صلہ کو دیکھا تھا۔
وہ ابھی سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ کامن روم سے متصل میک اپ روم کا دروازہ کھلا اور باہر نکلنے والی خاتون پر نظر پڑتے وہ نیم والب لیے حق دق دیکھتی رہ گئی۔ زرینہ خان لائیو اس کے سامنے چلی آ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ تھی۔ ان دونوں پر ایک نظر ڈالتی وہ نووارد کی جانب متوجہ ہوئیں۔ ہما نے اس کا ہاتھ کھینچ کر نیچے اترنا یاد کروایا۔
وہ جو منہ کھولے تک رہی تھی یکدم چونکی اور پہلے سے جما دوپٹہ سہی کرتی فٹافٹ نیچے اتری۔ اس کا جوتا کچھ فاصلے پر پڑا تھا مگر اس طرف جا کر وہ کسی کو متوجہ نہیں کرنا چاہتی تھی تو یونہی ننگے پاؤں کھڑی تھی۔
”ہم آپ ہی سے بات کرنے آ رہے تھے۔“ پروڈیوسر کا ہمہ لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ جمیل حیرت سے ان کی مسکراہٹ ملاحظہ کر رہے تھے۔ عموماً ان کا موڈ جلد بحال نہیں ہوتا تھا۔
”I guess everything is fine now“ نسیم ان کا موڈ بھانپتے خوشدلی سے مخل ہوئے۔ ”So shell we start again“وہ سب کمرے کے عین وسط میں کھڑے تھے۔ اور وہ دونوں صوفے کی سائیڈ پر ساکت کھڑی تھیں۔
”Sure..But on my terms & conditions“ زرینہ باور کرانا نہ بھولیں وہ خفا نہیں تھیں مگر اصولوں پر ڈٹ جانا ان کی عادت تھی۔ ان کا اشارہ پروڈیوسر کی جانب تھا۔ آج صبح ہی ضرورت سے زیادہ سین فلمبند کرانے کے اصرار پر ان کی پروڈیوسرز سے ہلکی سی جھڑپ ہو گئی تھی۔
”وائے ناٹ۔“ وہ بھی پروڈیوسر صاحب بلا حیل و حجت مان گئے تھے۔ وہ پروڈکشن بورڈ سے بات کر کے ہی زرینہ کے پاس آئے تھے۔ ان کا اس پروجیکٹ پر ہوناضروری تھا یہ بات مارکیٹنگ والے بھی جانتے تھے۔ وہ اداکارہ ہونے کے ساتھ منجھی ہوئی ہدایتکار بھی تھیں اور اب تک ڈائریکشن میں بھی خاصا نام کما چکی تھیں۔ انہوں نے مسکراتے چلنے کا اشارہ کیا۔ باری باری وہ تینوں باہر نکل گئے۔
زرینہ جاتے جاتے چوکھٹ پر رُکیں اور یکلخت مڑیں جیسے کچھ یاد آیا ہو۔ وہ دونوں ابھی تک ہونق بنی کھڑی تھیں۔
”بائی دا وے… گڈ نریشن۔“ وہ صلہ کو دیکھتی مسکراتی باہر نکل گئیں۔ ان دونوں کا جیسے سکتہ ٹوٹا تھا۔
”ہائے اللہ… یہ واقعی زرینہ خان تھیں؟ ان کے جاتے ہی ہما پتھر سی بولی۔ صلہ بھی بے یقین سی تھی۔“ ہما کی بچی تمہیں پتا تھا زرینہ خان، نعیم بادنی کی کوڈائریکٹر ہیں اس پروجیکٹ میں؟“ صلہ نے اُسے پوچھا۔
”مجھے کہاں پتہ تھا میں تو آؤٹ ڈور شوٹ پر ہوں جب سے کراچی آئی ہوں۔“ وہ بولی۔ تو صلہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
”یعنی حد ہو گئی۔ سکرپٹ پڑھنے کی تو تمہیں توفیق نہیں ہوئی۔ یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ دوسرا ڈائریکٹر کون ہے۔“
”انکل بتا تو رہے تھے میں نے غور سے کبھی ان کی بات ہی نہیں سنی۔ اصل میں اتنے دنوں سے کھانا ڈھنگ سے نہیں کھایا تھا نہ تو دماغ ہی بند ہو گیا تھا۔
جیسے“ وہ معصومیت سے بولی۔ صلہ سر جھٹک کر رہ گئی۔
”کیا یار کم از کم ان کے سامنے تو میری بونگی حرکتوں کا پول نہ کھلتا۔“ وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔
”کیوں جناب ان کے سامنے بڑا فلاسفر بن کے آنا تھا یا گوٹے کناری والا سوٹ پہننا تھا انہیں امپریس کرنے کو۔“ وہ اس کے حد درجہ سادہ حلیے پر چوٹ کرتی بولی۔
”کیا پتہ ان کو پسند ہوتے گوٹے کناری والے سوٹ وہی پہن لیتی۔“ اس کے چہرے پر بلا کا افسوس تھا۔ ہما گویا اس کی عقل پر ماتم کرتی سر ہلا کر رہ گئی۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali