Episode 22 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 22 - صلہ - ایمن علی

”آپ نے پوچھا نہیں میں جمال یوسف کو کیسے جانتی ہوں؟“ صلہ کے بولنے پر زرینہ قدرے چونک گئیں۔ پھر فوراً سنبھل کر مسکرائیں۔“ تمہارے نسیم انکل بڑے کام کی چیز ہیں۔ یقینا انہوں نے ہی ملوایا ہو گا۔ ان سے کافی دوستی ہے جمال کی۔“ 
”دوستی تو آپ کی بھی بہت تھی ان سے۔“ صلہ کے برجستہ کہنے پر وہ ٹھٹکیں۔ ”ہم نے کافی کام اکٹھے کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے۔
“ وہ فائل تھامتے نارمل سے انداز میں گویا تھیں۔
”جمال سر سے آپ کی دوست ٹوٹنے کی کوئی خاص وجہ؟“ وہ آج ٹلنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ زرینہ گہری سانس لے کر رہ گئیں۔
”جو بھی وجہ تھی۔"Thats none of your concern"۔ وہ خاصی زچ آ گئی تھیں۔ ”کوئی شخص پچیس سال سے آپ کا روگ لگائے ساری دنیا میں خوار ہوتا پھر رہا ہے۔ کسی غیر کو بھی ان کی حالت پر ترس آ جائے۔

(جاری ہے)

مگر آپ نے ان پر ایک کیتھلک کو ترجیح دے دی۔ صرف اس لیے کہ ان دنوں آپ پر دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کا شوق چر آیا تھا…“
”شٹ اپ صلہ… جسٹ شٹ اپ“ ان کے زور سے فائل میز پر پٹخنے پر صلہ کی زبان کو بریک لگ ۔ مگر آنکھوں میں ان کے لیے درشتی ابھی بھی قائم تھی۔ ”تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم کسی کی ذاتی زندگی پر اپنے فضول اندازے صادر کرو۔
تم کچھ نہیں جانتی۔“ وہ بمشکل ضبط کیے بولی ۔ صلہ کے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ انہوں نے چند گہرے سانس لیے تو خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔ چند لمحے وہ یونہی سر تھامے بیٹھی رہیں۔ صلہ خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
”ٹیلی ویژن کے اس سنہرے دور میں ہم آٹھ لوگوں کا گروپ خاصا فعال تھا۔ ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں سب ساتھ ساتھ تھے۔
جمال اس زمانے میں بھی ایسی ہی خانہ بدوش طبیعت کا مالک تھا۔ اس کا دل کبھی ایک چیز پر ٹھہرتا نہیں تھا۔ مگر میرے لیے اس کے جذبات کسی سے چھپے نہیں تھے اور نہ اس نے کبھی چھپائے تھے۔ تم یقین کرو گی کہ میری اور جمیل کی شادی پر گروپ کا ایک بھی بندہ شریک نہیں ہوا تھا۔ سب مجھے جمال کا مجرم سمجھتے تھے۔ جبکہ میں نے کبھی اس کی پذیرائی نہیں کی تھی اس کے باوجود اس وقت سب نے مجھے مورد الزام ٹھہرایا اور آج تم بھی انہی لوگوں میں شریک ہو گئی ہو۔
“ وہ دُکھی سے لہجے میں بولی تھیں۔ صلہ کی اس بات نے انہیں بہت ہرٹ کیا تھا۔ جبکہ صلہ سر جھکائے ہنوز خاموش بیٹھی تھی۔
”مجھے نہیں پتا تھا کہ تم مجھے ایسا سفاک سمجھتی ہو۔“ ان کے آہستگی سے کہنے پر صلہ نے سر اٹھایا تھا۔“ میں آپ کو بالکل ایسا نہیں سمجھتی زرینہ۔ بلکہ میں آپ کو برا سمجھ ہی نہیں سکتی۔ اس شخص نے ساری زندگی آپ سے محبت کی ہے اور میں نے اس سے۔
“ اس کے شکست خوردہ سے انداز پر زرینہ بوکھلا کر رہ گئیں۔ چند لمحے وہ کچھ بول ہی نہ پائیں۔
”صلہ یہ صرف وقتی کشش ہے جسے تم محبت سمجھ رہی ہو۔ بے شک جمال ایک ساحر شخصیت کا مالک ہے۔ مگر یقین کرو اس میں اور بالاج علی شاہ میں صرف انیس بسیس کا فرق ہے۔“ ان کے انکشاف پر صلہ نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تھا۔ زرینہ نے نٓہستگی سے سر کو اثبات میں جنبش دی۔
”وہ باتیں اچھی کرتا ہے۔ تمہارے آئیڈیل پر کھرا اترتا ہے۔ صرف اسی لیے تم اپنے آئیڈیلزم کو محبت سمجھ بیٹھتی ہو۔“
ان کا لہجہ خلوص سے پُر تھا۔ صلہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
”نہیں زرینہ۔ میں نے اپنے جذبات کو ہر کسوٹی پر آزما کر دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں انہیں سے محبت کرتی ہوں اور جہاں تک ان کے کردار کی بات ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
” وہ شکستگی سے مسکرائی۔“ محبت میں خود پر بس ہی کہاں چلتا ہے جو باقی چیزوں کے بارے میں سوچ سکیں۔“ زرینہ بے بس سی اسے دیکھتی رہ گئیں۔ وہ حقیقتاً چاند کی تمنائی تھی۔ لاحاصل درلاحاصل۔ وہ گھر بسانے والا آدمی نہیں تھا۔ وہ صلہ کے لیے ازحد دکھی ہوئیں۔ دفعتاً ان کی نظر میز پر پڑی فائل پر پڑی تو اچانک جیسے انہیں کچھ یاد آیا تھا۔
”تم بھی نا صلہ… اِدھر اُدھر کی باتوں میں اصل کام بھلا دیتی ہو۔
یہ فائل پکڑو۔“ انہوں نے فائل اس کی طرف بڑھائی۔ صلہ نے ایک اچٹتی نگاہ ان پر اور ایک فائل پر ڈالی۔ قدرے بے دلی سے اس نے فائل تھام لی۔ ”یہ کس چیز کی فائل ہے۔“
”بھئی تمہارا پلان کامیاب ہو گیا۔ یہ کنٹریکٹ ہے۔ میری فلم میں میرے ساتھ تم بھی ہدایتکاری کرو گی۔“ وہ مسکراتی بشاشت سے بولیں۔
”تو اس کے لیے کنٹریکٹ کی کیا ضرورت ہے۔
وہ تو میں ویسے بھی آپ سے پوچھے بغیر مداخلت کروں گی۔“ وہ فائل رکھتے آہستگی سے بولی تھی۔
”تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ پروڈیوسرز نے مجھے یہ سہولت دی ہے کہ میں کسی کو معاون ہدایتکار کے طور پر اپائنٹ کر سکتی ہوں۔ میں نے تمہارا نام دے دیا اور اب یہ کنٹریکٹ بن کر آ گیا ہے سو میں نے تمہیں بلوایا ہے۔ تین مہینے تک ہمیں کام شروع کرنا ہے۔“ وہ پھر سے چیزیں سمیٹ کر ڈرار میں رکھ رہی تھیں اور کچھ اپنے بیگ میں ان کی گھر جانے کی تیاری تقریباً مکمل تھی۔
”کس سوچ میں گم ہو بھئی۔“ انہوں نے خاموش بیٹھی صلہ کے آگے چٹکی بجائی وہ چونکی۔ ”سوچ رہی ہوں میرا منصوبہ اتنی جلدی کیسے کامیاب ہو گیا۔“ اس کے سپاٹ انداز پر زرینہ ٹھٹکیں۔ مگر اگلے ہی لمحے مسکرا دیں۔
”اچھا زیادہ سوچو مت۔ اور اس پر سائن کر کے مجھے دے دو۔ یا پھر اگر تم پڑھنا چاہو یا پروجیکٹ کے متعلق کوئی سوال ہو تو پوچھ لینا۔
“وہ رسان سے گویا ہوئیں۔ صلہ کے سامنے فائل جوں کی توں رکھی تھی۔ اس نے کھول کر بھی نہیں دیکھی تھی۔ ”کیوں ا پنی فلم کا بیڑہ غرق کروانا چاہتی ہیں آپ۔ اس سے تو اچھا ہے اعفان باری کو اپائنٹ کر لیں۔ اس کے پاس اکیلے کام کرنے کا تجربہ بھی ہے اور کانفیڈنس بھی۔“ آپ خواہ مخواہ مروت میں نہ پڑیں۔“ 
”مروت؟“ انہوں نے ہنستے ہوئے دہرایا۔
“ ایک تھپڑے پڑے گا سیدھی ہو جاؤ گی۔ کام کے معاملے میں کیسی مروت۔ مجھے تمہاری قابلیت اور وژن چاہیے تجربہ کتنا ہے اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔ تم نے جس طرح اس فیس بک کی ویڈیو میں میری اچھی سے اچھی پرفارمنس کے ساتھ میری خراب ترین پرفارمنس کو استعمال کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔“
”زرینہ وہ تو پوسٹ پروڈکشن میں ایڈیٹرز بھی کر سکتے ہیں۔
مجھے اب کسی بھی ڈائریکٹر کے ساتھ کام نہیں کرن۔مسودہ جب تک پورا نہیں ہو گا میرا میں تب تک کچھ نہیں کرو ں گی اور لکھنے کا موڈ بننے یا بنانے تک میں اکثر فارغ ہی ہوتی ہوں۔ یہ پیسہ شہرت جہاں آ جائے وہاں دوستی خراب ہونا لازمی امر ہے۔ آپ کے اسسٹنٹ تک تو ٹھیک ہے مگر آپ کی ہم رتبہ سیٹ سنبھالنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی زرینہ سرشار سی ہو گئیں۔
بے شک ان کا انتخاب غلط نہیں تھا۔
”اب تو یہ پروجیکٹ تم ہی کرو گی۔ پکڑو یہ فائل اور اب ایک لفظ بھی میں نہیں سنوں گی۔ بہت بحث کرتی ہو تم۔“ انہوں نے قطیعت سے گویا بات ختم کی۔ صلہ قدرے بے بسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
”ہائے اللہ! تم فلم بناؤ گی اور وہ بھی زرینہ احمد خان کے ساتھ۔“ ہما کی بے یقینی چہک ابھری۔ اعفان باری کے چلتے قدم یکدم رکے تھے۔
کمرے کا دروازہ بند تھا مگر آوازیں واضح آ رہی تھیں۔
”کیا مطلب؟“ ندیا کی حیران آواز آئی۔
”بھئی یہ زرینہ کو ڈائریکٹر کے طور پر فلم میں کام کرے گی۔ ان کی برابر کی سیٹ پر۔ مائی گاڈ۔ گھر میں سب کتنے خوش ہوں گے۔ ویسے بڑی چھپی رستم نکلی یہ خواہ مخواہ میں اسے کنویں کا مینڈک کہہ رہی تھی۔ ”ہما پرجوش تھی۔ اعفان دہلیز پر کھڑا سن رہ گیا۔ ندیا کی بھی ایکسائٹمنٹ سے چیخ ابھری تھی۔ ”یہ دیکھو Contract کی فائل۔ مائی گاڈ آفر بھی کتنی زبردست ہے۔“ وہ فائل کھولے کھڑی تھی۔ جبکہ صلہ خاموش تبسم سی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ دہلیز پر کھڑے اعفان باری کی کشادہ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا تھا۔ نظروں میں بے انتہا ناگواری در آئی۔ مٹھیاں بھینچتا وہ سٹوڈیو کی جانب چل دیا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali