Episode 19 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 19 - صلہ - ایمن علی

”اب کیا کریں گے۔“ اس نے ہما سے مری مری آواز میں پوچھا ۔
”خود ہی بھگتو۔“ ہما نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔ وہ چند لمحے سوچ میں پڑ گئی۔ ”تمہیں پتا ہے ہما آدرش فٹ بال کا بیسٹ کھلاڑی ہے۔ ہم بھی تو کتنا کھیلتے تھے نا۔“ اس نے آنکھوں میں اسے اشارہ کیا۔ وہ گڑبڑا سی گئی۔“ ہاں نا… مجھے تو سینچری بنانی بھی آتی تھی۔ جلدی جلدی میں اس نے بونگی ماری۔
صلہ نے گھور کر اسے دیکھا۔
”وہ تو کرکٹ میں ہوتی ہے۔“ آدرش متعجب ہوا۔
”آدرش چلو فٹ بال کھیلنے چلتے ہیں۔ بڑا دل کر رہا ہے کھیلنے کا۔“ آدرش کا منہ لٹک گیا۔“ مما کو کب ڈھونڈیں گے پھر۔“ ان دونوں نے ایک دوسرے کو یک بیک دیکھا۔
”ڈھونڈیں گے ناں۔ یہاں سکول میں تو وہ آئی نہیں۔ اگلی دفعہ کوئی اور پلین ٹرائی کریں گے۔

(جاری ہے)

“ صلہ کا انداز ٹالنے والا تھا۔

”آپ مجھے میرے گھر چھوڑ دیں۔“ اس کے انداز میں حددرجہ مایوسی وہ دونوں محسوس کر کے رہ گئیں۔ ہما نے بیک ویو مرر سے اسے دیکھا۔
”ڈونٹ وری آدرش… ہم تمہارے بابا سے ایڈریس پوچھ کر ان کے گھر چلے جائیں گے اور چپکے سے تمہیں بھی لے جائیں گے۔ تمہارے بابا کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔ ”ہما سے اس کی مایوسی دیکھی نہ گئی سو دور کی کوڑی لائی۔ آدرش کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
”ہاں! اگلی دفعہ جب ملیں گے تو تمہاری مما کے گھر چلیں گے۔ مگر ابھی تو فٹ بال کھیلتے ہیں ساحل سمندر پر۔“ صلہ پرجوش ہوئی۔
”کیا… اتنی سردی میں ساحل پر… کوئی نہیں۔“ ہما نے جھرجھری لی ۔ ”تو کیا تمہارے کمرے میں کھیلیں۔“ اس نے گویا اسے دھمکی دی۔ ریسٹ ہاؤس یا سٹوڈیو کے قریب آدرش کے ساتھ تو وہ پھٹک بھی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی تایا یا ماموں طرف جا سکتے تھے۔
”ویسے توبہ ہے تمہاری والی… لاہور کی سردی کے آگے یہ کوئی سردی ہے بھلا۔“ وہ چڑ سی گئی۔ ہما کو ضرورت سے زیادہ سردی کو سر پر سوار کرنے کی عادت تھی۔
”تمہیں تو لاہور میں بھی سردی نہیں لگتی۔ آخر شیلا جو ہو۔“ ہما نے بھی بدلہ لیا۔ صلہ اسے گھور کر رہ گئی۔
”شیلا کو سردی کیوں نہیں لگتی۔“ آدرش کے پوچھنے پر وہ دونوں چونکیں۔
اپنی بحث میں میں تو وہ سب بھول جاتی تھیں۔
بھئی جب برفباری اور برفانی ہواؤں میں جو منی سکرٹ پہن کر ڈانس کرے یا گانے گائے تو اسے کہاں سردی لگتی ہے۔“ ہما نے پھر سے شیلا کی جوانی سے اسے چڑایا۔ صلہ نے اس کے بازو پر تھپڑ رسید کیا۔ ”بچے کا ہی خیال کر لیا کرو۔“ آدرش منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ صلہ آدرش کی جانب مڑی۔
”کیونکہ شیلا بھی ساحل پر تیز سردیوں میں فٹ بال کھیلتی ہے اس لیے سوپر ہیومن بن گئی۔
اب اسے بالکل سردی نہیں لگتی اور ہر چیز وہ یوں چٹکیوں میں ڈھونڈ لیتی ہے۔“ صلہ کی اس عقل مندانہ بات پر ہما سر پیٹ کر رہ گئی۔ ایسی بات پر بڑے تو کیا بچے بھی متاثر نہ ہوں۔ ”پھر ممی مجھے مل جائیں گی! میں بھی سوپر ہیومن بن جاؤں گا۔“ اس کی معصومیت بھری آواز گونجی تھی۔
 اس کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔ ان دونوں یک بیک ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھا تھا۔
”اس طرح Kick نہیں لگاتے۔“ وہ تینوں ساحل پر فٹبال کھیل رہے تھے جب آدرش نے ان دونوں کو الٹی سیدھی Kicks لگاتے ٹوکا۔ وہ ایک دوسرے کو بال پاس کر رہے تھے۔ وہ دونوں کک کسی جانب لگاتی تھیں اور بال چلی دوسری جانب جاتی تھی۔
آج صلہ جلدی میں اپنی کزن راحیلہ کے ہیل والی جوتی پہن آئی تھی۔ اس کے اپنے جوتے جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ وہ آج کل زیادہ تر تایا کے گھر ہی رہ رہی تھی۔
کیونکہ تائی اماں کو اس کے ہر وقت باہر رہنے پر خاصا اعتراض تھا۔ وہ بمشکل Kick مار رہی تھی۔ وہ تکونی شکل میں ایک دوسرے کو بال پاس کر رہے تھے۔ تبھی ہما کو توازن بگڑا اور وہ دھپ سے ریت پر جا گری۔ آدرش قدرے معذرت خواہانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ اس نے خاصی زور سے کک لگائی تھی جسے پکڑنے کے چکر میں وہ ڈھیر ہو گئی۔
”heel میں نے پہنی ہے اور گرنے کا شغف تم فرما رہی ہو۔
“ صلہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی۔ اسے ہنستا دیکھ کر آدرش بھی مسکرا دیا۔ خود نیچے گری ہما بھی زور سے ہنس دی۔ یک بیک تینوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ ہما کپڑے جھاڑتے کھڑی ہو گئی۔
”بچو اب تیری باری۔“ اس نے صلہ کی طرف زور سے بال کو کک لگائی۔ وہ تیار تھی سو بچ گئی اور آدرش کی جانب بال بڑھا دی۔
”ویسے اگر اس کے ابا کو پتا چل گیا کہ ہم اس کی ماں کو ڈھونڈنے نکلے ہیں تو سوچو کیا حشر ہو گا ہمارا۔
“ صلہ بولی تھی۔
”ہاں پتہ نہیں وہ کیسے ری ایکٹ کرے گا۔ مگر ایک بات ہے وہ اتنا برا نہیں ہے جتنا تم نے خوفناک نقشہ کھینچ رکھا ہے اس کا۔ ان فیکٹ میری تو بہت مدد کرتا ہے وہ۔“ وہ کھیلتے کھیلتے باتیں بھی کیے جا رہی تھیں۔
”ارے یہی تو فنکاری ہے اس کی۔ تم سے پہلے زارا اور اس کے پہلے جتنی بھی خواتین اس کے ساتھ کام کرتی تھیں سب کے ایسی ہی مدد کر کے پٹایا تھا اس نے۔
سکینڈلز سے بچنے کوسیٹ پر دو رہتا ہے مگر جہاں پرائیویسی ملی ان سے اس کی بے تکلفی۔ الامان“ اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ”ایک دفعہ تو اتنی بے دردی سے ایک اسسٹنٹ کی اس نے پٹائی کی تھی کہ ہم سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ اپنی کولیگز کی مدد بھی صرف اسی لیے کرتا تاکہ سکرین پر کیمسٹری اچھی آئے۔“ اس نے آدرش کی جانب بال بڑھائی۔
”خیر مجھے کیا۔
مجھے تو بس کام کرنا ہے۔ کسی کے بھی ساتھ ہو۔ ویسے بھی مجھے تو لگتا ہے کہ لڑکیاں خود سے اسے لائن دیتی ہونگی۔ میں نے کبھی اسے خود سے کسی کو بلاتے نہیں دیکھا۔“ ہما ہانپتی بولی۔ آدرش اچھا خاصا پاؤں چلا لیتا تھا۔ ان دونوں کو خاصی بھاگ دوڑ کرنی پڑ رہی تھی۔ ان کا بچپن تو کرکٹ کھیلتے گزرا تھا۔ 
فٹبال کی تو ABC بھی معلوم نہ تھی۔ ہما یکدم ٹھٹک گئی۔
”تو اس نے خود کو اتنا سست کیوں رکھا ہوا ہے کہ بغیر کوشش کے کوئی بھی لڑکی چند دن کی رفاقت بھی پا سکے۔ بندے کا کوئی سٹینڈرڈ بھی تو ہوتا ہے۔“ ہما کی اڑی رنگت دیکھ کر وہ چونکی۔ ”کیا ہوا۔“ اس کے پوچھنے پر ہما نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ مڑی تو بوکھلا کر رہ گئی۔ بالاج جانے کب اس کے پیچھے کھڑا خطرناک تاثرات لیے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
وہ اتفاقاً ادھر آ نکلا تھا۔ اور آدرش کو دیکھ کر اس کی طرف آ گیا تھا۔ ”تو محترمہ اب آپ مجھے بتائیں گی کہ میرا سٹینڈر کیا ہے؟“ وہ طنزیہ بولا۔ اس کا لہجہ برف جیسا ٹھنڈا تھا۔ صلہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
 اس کی نظروں کا تمسخر ہنوز قائم تھا۔‘ کسی کے بارے میں رائے دینے سے پہلے انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہیے۔“ وہ تسلی سے کہتا آگے بڑھ گیا۔
”اوقات سٹارڈم نہیں، کردار ڈیسائیڈ کرتا ہے۔“ صلہ بھی تپ گئی۔ وہ یکدم مڑا تھا۔ ”اچھا کیا دیتا ہے یہ کردار یہ پارسائی ہاں؟“ وہ چینج کرتے بولا تھا۔ ”کم از کم انسان اپنی نظروں میں تو سرخرو ہو سکتا ہے۔“ وہ استہزائیہ ہنستا قریب آیا ”کیا مل گیا تمہیں اپنی نظروں میں سرخروئی پا کر۔ کیا پایا تم نے۔ کوئی ایک Acheivement بھی ہے تمہارے پاس تمہارے نام کی؟“ اس کا تمسخر اڑاتا انداز صلہ کو اور سلگا گیا۔
”میں آپ کو بتانے کی پابند نہیں ہوں۔“ اس کے سپاٹ انداز میں کہے جملے پر بالاج زور سے ہنسا تھا۔
”کوئی ہو گی تو بتاؤ گی نا۔“ اسے تپانے میں اسے لطف آ رہا تھا۔ ”بڑی دیکھی ہیں تم جیسی سوکالڈ کردار والیاں۔ ایک کمزور لمحے کی مار ہوتی ہیں بس۔“ اس نے چٹکی بجاتے مذاق اڑایا۔ اس کی خود کلامی خاصی اونچی تھی۔ ”آپ کو اب تک شاید اپنے جیسے ہی ملی ہونگی۔
“ صلہ بھی نہ چوکی۔ ہما افق چہرہ لیے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ آدرش بھی ناسمجھی کے عالم میں تک رہا تھا۔ ”میرے جیسی یہ تمہاری دوست بھی تو کھڑی ہے یہ میرے ہاتھوں سے کیسے بچ گئی۔ مائنڈ یو صلہ رحمان لڑکیاں اتنی بے اختیار اور معصوم نہیں ہوتیں کہ مرد کی دعوت کی نوعیت نہ پہچان سکیں۔ ”وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔ لاشعوری طور پر ہی سہی مگر وہ اسے اس کی اوقات یاد دلانا چاہتا تھا۔
”جو شخص عورت نامی کتاب کو شروع ہی آخری صفحے سے کرتا ہو بھلا“ صلہ بول بھی نہ پائی تھی کہ وہ بول اٹھا۔ ”عورت کوئی کتاب وتاب نہیں ہے اور جو سمجھتے ہیں وہ صرف وقت ضائع کرتے ہیں۔ ان کو سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بس انہیں سرا ہو خود ہی پکے آموں کی طرح جھولی میں آ گرتی ہیں۔“ وہ استہزائیہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ صلہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔
”یہی بات کوئی آپ کی بیٹی کے لیے کہے تو“ بالاج کی مسکراہٹ یکدم غائب ہو گئی۔ ”شٹ اپ یو بلڈید“ بے اختیار ہی اس کا ہاتھ ہوا میں بلند ہو گیا تھا۔ ہما تیزی سے آگے بڑھی۔
”یہ آپ کیا کر رہے ہیں بالاج۔ کم از کم آپ سے اتنے شارٹ ٹیمپر کی امید نہیں تھی مجھے۔“ اس نے صلہ کو پیچھے کھینچا۔ وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ صلہ بھی برہم نگاہوں سے اسے تک رہی تھی۔
وہ تن فن کرتا آدرش کی جانب بڑھا اور تقریباً گھسیٹتے اس کا ہاتھ پکڑے لے جا رہا تھا۔ آدرش چھوٹے چھوٹے پاؤں تیزی سے اٹھاتا بمشکل اس کا ساتھ دے پا رہا تھا۔ اردگرد سے گزرتے لوگ عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
”تمہارا منہ نہیں رہ سکتا… وہ ہاتھ اٹھا دیتا تو کیا عزت رہ جاتی تمہاری۔“ ہما غصے سے اسے کھینچ کر لے جا رہی تھی۔
”بات نہیں سنی تم نے اس کی… سمجھتا کیا ہے خود کو۔ بڑا آیا ٹام کروز کہیں کا۔“ وہ چڑ کر بولی تھی۔
”ایسے لوگوں کو Avoid کرنا سیکھو۔ ورنہ کہیں کی نہیں رہو گی۔“ ”بھاڑ میں جائے۔ میں کیوں ڈروں اس سے۔ دیکھا نہیں تم نے کیسے چیلنج کر رہا تھا مجھے۔ سڑیل کہیں کا۔“ وہ دونوں کمرے میں داخل ہو گئی تھیں جب ہما نے اسے گھر کا۔“ اچھا اب چپ کر جاؤ۔ جو ہوا اس کا ذکر کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔“
”مجھے کوئی شوق نہیں ذکر کرنے کا وہ بھی اس فضول آدمی کا۔ نیور۔“
وہ بیڈ پر منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔ سارا موڈ غارت ہو گیا تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali