Episode 25 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 25 - صلہ - ایمن علی

وہ ابھی بھی ویسے ہی تھے اسم یا مسمی جمال یوسف۔ وہ انہیں یوسف ثانی کہتی تھی۔ تین سال پہلے وہ ان سے اصلاح کروانے کی غرض سے جایا کرتی تھی۔ نسیم بادنی کے باعث ملنے والے لوگوں میں وہ بھی شامل تھے۔ وہ سفر نامے لکھا کرتے تھے۔
”ارے صلہ۔ تم یہاں؟“ انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ بہت اچھے ٹینس پلیئر تھے ساٹھ سال کی عمر میں بھی 45 سے اوپر نہیں لگتے تھے۔
فٹنس انکا جنون تھا۔
”گیس کریں…“ چہکی۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ پھر صلہ سے کافی فاصلے پر اس کے عقب میں کھڑی زرینہ پر نظر پڑی تو چونک سے گئے۔
”مائی گڈنیس… یعنی اپنا کہا پورا کر دکھایا تم نے ہاں…“ وہ شگفتگی سے بولے۔ ”خیر ان سے ملو یہ رفعت ہمدانی ہیں۔ رفعت یہ میری بہت پیاری سی ننھی سی دوست ہیں صلہ رحما۔

(جاری ہے)

بہت اچھا لکھتی ہیں اور آج کل یہ جس پر کام کر رہی ہیں بہت منفرد آئیڈیا ہے۔

“ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑی ادھیڑ عمر میک اپ کی دکان بنی خاتون سے متعارف کروایا۔ ایکسائٹمنٹ میں وہ انہیں دیکھ ہی نہیں پائی۔ سوجھٹ سے سلام کیا جسکا انہوں نے قدرے نخوت سے جواب دیا تھا۔
”رئیلی…“ وہ جمال یوسف کی تعریف پر حیران ہوئیں۔ ”خیر آپ تعریف کر رہے ہیں تو ضرور اچھی ہو گی۔ آپ سے اچھا ذوق تو کسی کا نہیں ہے۔“ وہ اک ادا سے بولیں۔
صلہ کلس کر رہ گئی۔
”جی ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ تو بس ان کی سٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے ذرا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔“ اس نے متنبہہ نگاہوں سے جمال یوسف کو دیکھا۔ وہ تردید کرتے رک گئے۔
”آپ ٹورنٹو سے کب آئے؟“ وہ دبے دبے جوش سے بولی۔ جی تو چاہا کھڑے کھڑے ان کے گزرے ماہ و سال کا حساب لیں۔
”بس کچھ ہی دن ہوئے آئے ہوئے کراچی چکر لگا۔ تو رفعت سے ملاقات ہو گئی سو سوچا باقی دوستوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔
“ وہ صلہ کے عقب میں خاصے فاصلے پر کھڑی کسی سے باتیں کرنے میں مصروف زرینہ کو دیکھتے بولے۔ ان کی اداس نظروں میں ہزار رنگ در آئے۔ وہ پڑمردگی سے سر جھکا گئی۔ خواہ مخواہ سوال کیا۔ بہانے سے ہی سہی ان کی ایک جھلک دیکھنے آئے تھے۔ رفعت ہمدانی شناسا پر نظر پڑتے ایکسکیوز کرتے چل دیں کہ جمال ابھی اس ننھی دوست سے باتیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ پرائیویٹ چینل کی ہیڈ تھیں۔
یہ پروجیکٹ انہی کے چینل کے لیے بنایا جا رہا تھا۔
”تم بتاؤ کیسی ہو؟ اوریہاں کیسے پہنچیں… کہیں اس Page کی وجہ سے تو نہیں؟“ وہ مشفق سے انداز میں پوچھ رہے تھے۔
”جی نہیں۔ اتفاقاً ملاقات ہوئی تھی ان سے۔ اپنی معصوم شکل کس دن کام میں لانی تھی۔“ وہ نارمل سے انداز میں بولی پہلے سا جوش مفقود تھا۔
”ہاؤ mean صلہ۔ زرینہ کو پتہ چلا کہ تم نے رقابت میں ان سے دوستی کی ہے تو کبھی معاف نہیں کریں گی تمہیں۔
دوستی اور محبت کے معاملے میں وہ تمہارے جیسی ہی شدت پسند ہیں۔“ ان کی کشادہ پیشانی پر بل پڑ گئے۔ صلہ نے شکایت آمیز نظروں سے انہیں دیکھا۔ تو وہ گہری سانس لے کر رہ گئے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کی محبت ویسی ہی تھی۔ رات کی رانی جیسی… دکھائی نہیں دیتی مگر خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔
”تم جانتی ہو میں کتنا حسن پرست ہوں۔ ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔
دنیا کا چپہ چپہ چھاننا چاہتا ہوں۔“ ان کے لہجے میں بظاہر شرارت مگر درپردہ تنبیہ تھی۔ وہ اس کے جذبات کو یونہی ہنسی میں اڑا دیا کرتے تھے۔
”اب اتنی بھی گئی گزری نہیں ہوں میں کہ ان خاتون سے میرا موازنہ کریں۔ بوڑھی گوڑھی لال لگام۔“ وہ منہ بناتے بولی۔ ان کے چہرے کے نقوش یکدم تن گئے۔“ زرینہ کی بات کر رہی ہو؟“ ان کے لہجے میں سخت برہمی تھی۔
”میں رفعت میڈم کی بات کر رہی ہوں۔“ وہ جل کر بولی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دے۔
”وہ صرف دوست ہ ے بھئی۔ اتفاقاً ملی تھیں میں نے سوچا باقی دوستوں سے ملاقات رہے گی۔
”جیسے میں جانتی نہیں آپ کو… زرینہ کو ہی دیکھنے آئے ہیں آپ اور یہ بھی جانتی ہوں کہ ان سے ملے بغیر ہی چلے جائیں گے۔ “وہ ٹھوس لہجے میں بولی تھی۔ ”جب سب جانتی ہو تو سدھر کیوں نہیں جاتی۔
“ وہ نرمی سے بولے۔ ”میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ان میں ایسا کیا ہے جو برسوں سے اتہی کا روگ لگائے بیٹھے ہیں۔“ وہ نروٹھے پن سے بولی۔
”تو اب دیکھ لیا ہے نا۔ وہ رُکے۔ اب سب ختم کرو اور واپس چلو۔ تمہیں کوئی حق نہیں دوستی کے نام پر انہیں سیڑھی کی طرح استعمال کرنے کا۔ تمہارے خواب تمہاری قابلیت کے بل بوتے پر بھی پورے ہو سکتے ہیں۔“ وہ دبی دبی آواز میں قدرے سختی سے بولے تھے۔
وہ ساکت رہ گئی۔ یکلخت ڈھیروں دھند نگاہوں میں در آئی تھی۔
”ان کی بہت فکر ہے آپ کو۔“ اس کے انداز میں بلا کا دکھ تھا۔ ”اور میں جو ڈھائی سال سے اتنی محنت کرنے کے باوجود وہی کھڑی ہوں جہاں پہلے دن تھی۔ وہ نظر نہیں آتا آپ کو؟ وہ لب کاٹتی آنسو پینے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ جمال لب بھینچے بے بسی سے اسے دیکھے گئے۔ ”صلہ“ اردگرد نظر دوڑاتے وہ اسے کاندھوں سے تھامے اپنے ساتھ لگائے سٹوڈیو سے باہر لے آئے۔
یہاں بہت سے لوگ انہیں جانتے تھے۔ زرینہ اور وہ ساتھ کام کر چکے تھے۔ شائقین کو ان کی جوڑی ازحد پسند تھی۔ وہ تپ شوقیہ ٹیلی وژن پر کام کرتے تھے جب انہیں زرینہ احمد خان سے پہلی نظر کی محبت ہوئی تھی۔ مگر اس وقت جمیل اختر ان کی زندگی میں آ چکے تھے اور وہ اپنے گھر والوں کو منانے کی سعی کر رہی تھیں اس وقت سے وہ اپنی محبت چھپائے دنیا بھر کی خاک چھانتے پھر رہے تھے۔
صلہ کو ان کا پدرانہ شفقت سے بھرپور لمس اپنے جذبات کی تذلیل محسوس ہوتا تھا۔ ان کا ہاتھ جھٹکتے وہ قریب پڑی کرسی پر آ بیٹھی۔ وہ متاسف سے سر جھٹکتے دوسری کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ باہر شام پر پھیلائے تھی۔ مغرب کے وقت کی ساری یاسیت جیسے صلہ کے چہرے پر گڑھ گئی تھی۔
”میں مانتا ہوں کہ اس فیلڈ میں آگے بڑھنے کے لیے خود سے مواقع پیدا کرنے ہوتے ہیں۔
مگر زرینہ دوستی کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔ تمہاری اس حرکت کے بعد ان کا دوستی پر سے یقین اٹھ جائے گا۔ تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو۔“ ان کی سوئی ابھی بھی زرینہ پر اٹکی تھی۔ صلہ نے بڑی شاکی نظروں سے دیکھا تھا۔ ”زرینہ کی جگہ کوئی اور ہوتی تو آپ کبھی ایسا نہ کہتے۔ بلکہ میری عقلمندی کی داد دیتے۔“ وہ تلخی سے بولی تھی۔ جمال نظریں چرا گئے۔
”دکھ تو مجھے اس بات کا ہے کہ آپ مجھے اتنا گھٹیا سمجھتے ہیں کہ میں آپ کے توسط سے حاصل ہوئی ان کی ذاتیات، پسند ناپسند کو استعمال کر کے ترقی حاصل کرنا چاہتی ہوں۔“ وہ آنسو پونچھتی آہستگی سے بولی تھی۔ ان کے تنے اعصاب یکدم ڈھیلے پڑ گئے۔ ”اچھا… لیکن تم انہیں سرے سے اداکار ہی نہیں مانتی تھیں۔ ان کی تو بس قسمت اچھی تھی جو دو اچھے کرداروں سے ہٹ ہو گئیں۔
“ وہ آخر میں اس کی نقل اتارتے بولے تو وہ بے ساختہ مسکرا دی۔ جمال مبہوت سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔ نم آنکھوں کے ساتھ جھینپ کر ہنستی وہ دل میں گڑ سی گئی۔
”پہلے کبھی انہیں جمال یوسف کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا نہ اس لیے…“ وہ بڑے مان سے بولی تھی۔ وہ بھی کھل کر مسکرا دیے۔
”تمہارے جیسے نمونے خدا روز روز نہیں بناتا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم خوش رہو۔
تمہارا تخیل بہت زرخیز ہے اسے استعمال کرو۔ میں نہیں چاہتا کہ تم خود کو ان فضولیات میں ضائع کرو۔ اگر میری بیٹی ہوتی تو تمہاری عمر کی…“
”پلیز سر…“ صلہ نے سختی سے انہیں ٹوکا۔ ”میری محبت میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ مگر اس بے دردی سے میرے جذبات کی توہین کرنے کی اجازت میں آپ کو قطعاً نہیں دے سکتی۔“ وہ انتہائی برہم نظر آ رہی تھی۔ پھر یکدم اٹھی اور واپس اندر سٹوڈیو میں چلی گئی۔ وہ بے چارگی سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali