Episode 13 - Sila By Emin Ali

قسط نمبر 13 - صلہ - ایمن علی

وہ ساحل سمندر پر قدرے پرسکون گوشے میں بنے بنچ پر آ بیٹھی۔ اتفاقاً موسم بھی سہانا تھا اور اس کا موڈ بھی۔ وہ آج پکا تہیہ کر کے آئی تھی کچھ نہ کچھ لکھ کر ہی جائے گی۔ پچھلے دنوں زرینہ کو دیکھنے خواہ مخواہ سیٹ پر چلی جاتی تھی مگر دوبارہ انہیں مخاطب کرنے کی ہمت پھر بھی نہیں کر پائی تھی۔
موسم خوشگوار ہونے کے باعث لوگوں کا تانتا بندھا تھا۔
کچھ لوگ بچوں کے ساتھ کسی کھیل میں مشغول تھے اور کچھ چہل قدمی کر رہے تھے۔ سامنے کچھ کرکٹ کھیلتے، لڑتے جھگڑتے بچوں کو دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرائی۔ وہ بھی ایسے ہی چیٹنگ کر کے کزنز سے خوب لڑتی تھی۔ اور شیری ڈھٹائی سے اس کی سائیڈ لیتا سب کو لتاڑ کر رکھ دیتا اس کی بائیں جانب بنچ پر اسکی ملگجے سے سبز رنگ کی فائل دھری تھی۔

(جاری ہے)

جو کہ کثرت استعمال کے باعث اصلی رنگت کھو بیٹھی تھی۔

صفحات کا پلندہ جن میں کچھ مڑے تڑے کنارے اور چند نئے ورق کے کونے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ سینے پہ بازو لپیٹے اردگرد نظر دوڑا رہی تھی مگر اس کا دماغ گہری سوچ میں گم تھا۔ دفعةً اس کے قریب سے ایک بچہ گزر رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اس جانب دیکھا تو اس کی سرسری نظر نے لوٹنے سے انکار کر دیا۔ وہ بھاگتا جا رہا تھا اس نے باقی بچوں کی تلاش میں نظر دوڑائی کہ شاید کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔
مگر دور تک کوئی نہیں تھا۔ تبھی دور سے آتی آواز نے اسے چونکا دیا۔ ”آورش بابا رکیے۔ آدرش بابا۔“ ایک ضعیف العمر آدمی کاپنتے اسے پکارتے آ رہے تھے۔ اس نے بچے کی جانب دیکھا تو ٹھٹک گئی۔ وہ شاید توازن کھونے کے باعث گرا تھا۔ وہ نامحسوس انداز میں اس کی جانب لپکی۔ وہ بزرگ خاصے فاصلے پر تھے۔ اس نے بازوؤں سے تھام کر اسے اٹھایا ”آپ ٹھیک ہو بچے؟“ اس نے متفکر سے انداز میں پوچھا۔
آدھی آستین کی ٹی شرٹ بمع ہم رنگ نیکر پہنے لگ بھگ چار سال کا وہ خوبصورت سا بچہ خفا خفا سا لگ رہا تھا۔ اس نے اس کے کپڑے جھاڑے تو نظر اس کے ننھے جوگرز کی جانب پھسل گئی۔ ان کے تسمے کھلے تھے اور غالباً وہ انہی کی وجہ سے گرا تھا۔
وہ تیز ہوا سے اڑتے بال کانوں سے پیچھے اڑتستی اس کے تسمے باندھنے لگی۔
”بی بی جی رہنے دیں۔ میں کر دوں گا۔
بابا چوٹ تو نہیں لگی۔“ شمیم سے بابا جی بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھے پوچھ رہے تھے۔ بچے نے درشتی سے ان کا ہاتھ جھٹکا اور وہاں سے چند گز فاصلے پر ریت پر جا بیٹھا۔ اکڑوں بیٹھی صلہ نے بے بس سے کھڑے بابا پر نظر ڈالی۔ کچھ سوچ کر وہ منہ پھلائے بچے کے ساتھ جا بیٹھی۔ وہ ناراض ناراض سا بچہ غصے میں اتنا کیوٹ لگ رہا تھا جب خوش ہوتا ہو گا تو کیسا لگتا ہو گا۔
وہ بے اختیار سوچ کر رہ گئی۔
”کیا بات ہے بابا۔ یہ کیوٹ سے شہزادے ناراض کیوں ہیں؟“ اس نے بچے کی طرف رخ کیے بزرگ ملازم سے پوچھا تھا۔ وہ کچھ ہچکچائے۔
”وہ جی بیگم صاحب ملک سے باہر گئی ہیں اور یہ ان سے ملنے کی ضد کر رہے ہیں۔“
”نہیں… جھوٹ بول رہے ہیں یہ۔ سب جھوٹ بولتے ہیں میرے ساتھ۔ کوئی مجھے ان کے پاس نہیں لے تے جاتا۔
“ وہ رندھی آواز میں غصے سے بولا تھا۔
”کیسے ملائیں۔ وہ تو یہاں ہیں نہیں اور صاحب…“
”وہ یہیں ہیں۔ میں نے خود انہیں دیکھا تھا سکول تے باہر۔“ اس نے پھر بات کاٹی تھی۔
”ان کے ساتھ ایک اور بچہ بھی تھا۔“ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ جنہیں اس نے فوراً اپنے ننھے ہاتھوں سے صاف کیا تھا۔ صلہ جو متحیر سی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی قدرے چونک سی گئی۔
وہ حیران تھی کہ اتنی عمر میں آنسو خود سے پونچھ لینا کہاں سے سیکھا تھا اس نے۔
”وہ جی… باباکو وہم ہوا ہے۔ وہ تو یہاں ہیں ہی نہیں ورنہ صاحب خود ہی ملوا دیتے۔“ اب کے ملازم کا لہجہ کمزور سا تھا۔ صلہ ہنوز گہری سوچ میں ڈوبی تھی۔ ”مجھے پتا ہے پاپا کی ان سے کٹی ہے۔ وہ ان کے پاس نہیں لے تے جائیں گے مجھے۔“ وہ زور سے چلایا تھا کہ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔
”بھئی ہم تو ضرور ملیں گے ممی سے۔ یہ کونسا مشکل کام ہے۔ ڈھونڈ نکالیں گے کہیں سے بھی۔ وہ آواز میں جوش بھرتی بولی تھی۔ بچے کی متورم آنکھوں میں حیرانگی دُر آئی۔ جواباً وہ مسکرا دی۔
”اپنا نام نہیں بتائیں گے؟“ چند لمحے کی بے یقینی سی خاموشی کے بعد صلہ کا بڑھا ہاتھ اس نے تھام لیا۔ ”آدرش…“ وہ بچہ اپنی عمر کے بچوں سے خاصا مختلف تھا۔
صلہ کو محسوس ہو گیا تھا کہ وہ کینڈیز وغیرہ کے لالچ میں نہیں آئے گا۔
”بونڈ… جیمس بونڈ“ اس کے پوچھنے پر صلہ نے مسکراہٹ دباتے تعارف کروایا۔ ”وہ تو لکا ہوتا ہے آپ تو لکی (لڑکی) ہو۔“ وہ حیران ہوا تو صلہ ہنس دی۔ ”لکٹا لکی کچھ نہیں ہوتا۔ جیمس بونڈ ہو وہ ہوتا ہے کہ جن بچوں کی ممی نہیں ملتی نا وہ اسے ڈھونڈ لاتا ہے۔“ اس کی بات پر کھل اٹھا تھا۔
”ویسے آپ مجھے صلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔“ وہ اس کا ننھا سا ہاتھ نرمی سے چھوڑتی بولی۔
”شیلہ…“ آدرش نے اس کا نام زیر لب دوہرایا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ ایک اور نام بگاڑنے والا مل گیا تھا۔
”آپ مجھے میری مما سے ملواؤ گی نا۔“ بچے کے چہرے پر خوبصورت سی چمک تھی۔ صلہ چند لمحے سوچ کر رہ گئی۔ وہ اس کا دل توڑنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ اس کی ممی ڈھونڈو مہم میں پڑنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
اس نے ملازم بابا کی جانب دیکھا۔ ان کے ہاتھ میں ادھ کھایا سینڈوچ تھا۔
”بالکل ڈھونڈیں گے۔ لیکن پہلے کھانا نہ کھا لیں؟ سچ میں بہت بھوک لگی ہے۔“ وہ چہرے پر مسکینیت طاری کرتی بولی تھی۔ وہ ہلکے سے سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ سامنے کھڑے فرید بابا متذبذب سے کچھ کہتے کہتے رُک گئے تھے۔ ان کے چھوٹے سرکار بڑے عرصے بعد کھل کر مسکرا رہے تھے۔
وہ ان کے ساتھ قریبی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ چلی آئی۔ کھانے کے دوران وہ چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتی اس کا دھیان ہٹانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ وہ زیادہ کھل کر بات نہیں کرتا تھا اس کے باوجود بھی وہ اس کی باتوں کا اپنے مخصوص دھیمے انداز میں جواب دے رہا تھا۔ عام بچوں کی طرح مسلسل وہ ضد کر کے اسے زچ نہیں کر رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے اس نے ان دونوں سے اجازت چاہی۔ آدرش دھیرے سے اٹھ کر اس کے ساتھ باہر آیا۔
”ہم پھر کب ملیں گے؟“ اس نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا تو صلہ بے بس سی کھڑی رہ گئی۔ اس نے چند دن بعد اسے ملنے کا کہا مگر آدرش نے اس کا سیل فون نمبر فرید بابا کے موبائل میں سیو کرا کے ہی دم لیا۔ کہ وہ اسے فون کر کے ملاقات کا ٹائم ڈیسائیڈ کرے گا۔ بچہ خاصا ذہین تھا۔

Chapters / Baab of Sila By Emin Ali