Budget Sazi Main Siasi Juraat Ka Taqqza
بجٹ سازی میں سیاسی جرات کا تقاضا
بجٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔کسی ملک کی ترقی کا تمام تر دارومدار متوازن بجٹ کا مرہوں منت ہے۔ ہر ملک میں اس کے سالانہ بجٹ کے لیے اس کی ترجیحات دوسرے ممالک سے مختلف ہو سکتی ہیں اس لیے بجٹ سازی میں ملکی وسائل اور ان سے ممکنہ استفادہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے
بجٹ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔کسی ملک کی ترقی کا تمام تر دارومدار متوازن بجٹ کا مرہوں منت ہے۔ ہر ملک میں اس کے سالانہ بجٹ کے لیے اس کی ترجیحات دوسرے ممالک سے مختلف ہو سکتی ہیں اس لیے بجٹ سازی میں ملکی وسائل اور ان سے ممکنہ استفادہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاََ بعض ممالک میں تیل کی فراوانی ہے اوربعض میں زرعی پیداواری صلاحیت قابل رشک ہے۔
ہم اگر پاکستان کے ابتدائی دور کا جائزہ لیں تو قیام پاکستان کے بعد سے لے کر 80 کی دھائی تک انکم ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے لے کر 70 فیصد تک تھی اور لوگ خوش دلی سے ٹیکس ادا کرتے تھے۔ ان دنوں ملک بھر میں کمشنر انکم ٹیکس عہدے کے گریڈ میں 300 سے زائد افسران تعینات ہیں ۔ ریجنل کمشنرز/ چیف کمشنرز گریڈ 22 کی تعداد 10 ہے جبکہ ممبران ایف بی آر کی تعداد 12 سے زائد ہے ۔
(جاری ہے)
1 ۔ رشوت ، کمشن، سفارش اور اقرباپوری
2۔ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری
3۔ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ، بلیک مارکییٹنگ
4۔ جعلی مصنوعات ، ادویات سازی ، منشیات فروشی
5۔ اراضی اور جائیداد کے قبضے اور انسانی و دوسری ہر قسم کی سمگلنگ ۔ ان سب معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے بجٹ سازی میں اقدامات تجویز کرنا ہوں گے۔ اس بارے میں عوام اور خواص کو ایک موقع دینا ضروری ہے تاکہ وہ اگر چاہیں تو ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھالیں۔ بصورت دیگر ان سماج دشمن عناصر کے ساتھ سختی ہے نمٹنا چاہیے۔ ٹیکس ایمنسٹی کے بارے میں عرض ہے کہ جو سکیم اس سے پہلے رائج کی گئی وہ نہایت محدود تھی صرف ایک خاص طبقہ کے لیے جو تاجر ٹریڈرز کہلاتے ہیں اور ی سکیم 2 روپے فی ہزار ادا کر کے 5 کروڑ روپے جائز بنانے کی پیشکش تھی یعنی صرف ایک لاکھ روپے ٹیکس ادائیگی جیسی کم شرح کے باجود یہ سکیم ناکام ہوئی۔ ٹیکس ایمنسٹی کا اجراء سب سے پہلے 1971 میں ہوا اور آخری بار 2002 میں اجراء ہوا۔ ہر بار اس کے خاطرہ خواہ نتائج برآمد ہوئے اور لوگوں نے ناصرف پوری شرح کے ساتھ ٹیکس ادا کر کے اپنے اثاثے قانونی بنائے بلکہ ذہنی سکون سے ٹیکس دہندگان کے ریگارڈ میں داخل ہو کر اپنے گوشوارے بھی جمع کروائے۔ جبکہ موجودہ حالات میں کئی ایک طبقے خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں ٹیکس ایمنسٹی حکیم سے استفادہ کا حق دیا جائے۔ جیسے کہ بہت ساری تاجر تنظیموں نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن یہ ایمنسٹی مناسب ٹیکس شرح کے مطابق ہونی چاہیے اگر بجٹ برائے 2016-17 میں ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ایمنسٹی کے اجراء کا مطالبہ کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے افراد بھی اپنے اثاثہ جات مقررہ ٹیکس دے کر کلیئر کرواسکیں جو بیرون ممالک میں پانامہ لیگ کے حوالے سے آج کل زیر بحث ہیں یا قرضے معاف کروانے کے حوالے سے مور دالزام ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہرپاکستانی کے لیے ہر قسم کے اثاثے کو وائٹ کرنے کاحق دیا جائے ۔ اس کے لیے سیاسی جرات پر مبنی فیصلے کی ضرورت ہے ۔جس کے تحت بلیک منی یا ناجائز اثاثے پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے کم نہ رکھی جائے۔
Browse More Business Articles
راوی کی کہانی
Ravi Ki Kahani
خیبر پختونخواہ امن کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن
Khyber Pakhtunkhawa Amaan Ke Baad Taraqi Ki Rah Per Gamzan
مہنگائی و معاشی بدحالی سے آئل ٹینکرز انڈسٹری تباہی کے دہانے پر
Mehengai O Muashi Badhaali Se Oil Tankers Industry Tabahi Ke Dahane Par
ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے خوراک میں خود کفالت ناگزیر
Mulki Taraqi O Khushhali Ke Liye Khoraak Mein khud Kifalat Naguzeer
مہنگائی و بیروزگاری کی خوفناک لہر میں حکومت کے معاشی اشاریے
Mehngai O Berozgari Ki Khofnak Leher Mein Hakomat Ke Muashi Ishariye
مہنگائی و بے روزگاری کا اژدھام اور حکومتی ترجیحات
Mehngai o Berozgari Ka Azdaham Aur Hakomati Tarjeehat
برطانوی سکے جو پاکستان میں رائج رہے۔ وجہ کیا تھی؟
Bartanvi Sikke Ju Pakistan Main Raij Rahe
مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ اور ڈگمگاتی معیشت
Maaliyati Idaroon Ki Blackmailing
زراعت کی ترقی کے لئے حکومتی اقدامات
Zaaraat Ki Taraqi K Liye Hakomati Iqdamat
مردم خور”سیاسی بلی“کس کی تھی
Mardam Khoor Siyasi Billi Kis Ki Thi
بھارت میں کسانوں کا خوفناک استحصال
Baharat Main kissanoon Ka Khofnak Istehsaal
نواز شریف کے بیانیے سے اپوزیشن کا انحراف
Nawaz Sharif K Bayaniye Se Opposition Ka Inheraf