Purane Sood K Liye Naya Qarz

Purane Sood K Liye Naya Qarz

پرانے سود کیلئے نیا قرض

حکومت مہنگے بانڈکیوں خرید رہی ہے۔۔۔ ہمارے ہاں یہ بات اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک بیرونی قرضوں پرچلایا جارہا ہے۔ 20کروڑ سے زائد آبادی کاہر فرد ہزاروں روپے کامقروض ہوچکا ہے۔ سود درسودسے لیاجا نے والا قرضہ اصل رقم سے زائد ادائیگی کے باوجود کم نہیں ہورہا

ہمارے ہاں یہ بات اب بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک بیرونی قرضوں پرچلایا جارہا ہے۔ 20کروڑ سے زائد آبادی کاہر فرد ہزاروں روپے کامقروض ہوچکا ہے۔ سود درسودسے لیاجا نے والا قرضہ اصل رقم سے زائد ادائیگی کے باوجود کم نہیں ہورہا۔ ملکی معیشت کی تباہی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کی ایک وجہ قرضوں کابڑھتا ہوا حجم بھی ہے۔ اب فنانس کمیٹی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے مشرف دور میں لئے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی مارکیٹ سے مہنگے ریٹس پر 500ملین ڈالرز کے بانڈخریدے جس پر 410ملین ڈالر کاسودا اداکرنا ہوگا۔
یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ایک بھارتی کمپنی جاری کروہ بانڈز بھی مہنگے داموں خریدے گئے ہیں۔ اس کمپنی نے 700ملین ڈالر کے بانڈز 2.8فیصد منافع پر جاری کیے تھے اور حکومت نے یہ بانڈز 8.25فیصد منافع پر مہنگے داموں خریدے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں سینٹ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دس سال قبل مشرف دور میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے دس سال کے لیے عالمی مارکیٹ سے بانڈز خریدے تھے۔

دس سال بعد جب مدت پوری ہوئی اور قرضہ واپس کرنے کاوقت آیاتوصورت حال یہ تھی کہ ملکی معیشت اور ہمارے رنرمبادلہ میں یہ قرض واپس کرنے کی سکت اور معاشی طاقت نہیں تھی۔ اس لیے ہمارے ” قابل“ دماغوں اور معیشت دانوں نے یہ حل تجویر کیا کہ پہلا قرضہ اتارنے کے لیے مزید قرضہ لے لیا جائے۔ لہٰذا حکومت نے مہنگے داموں مزید بانڈز خرید لیے۔ اب یہ قرضہ اگلی حکومت ادا کرے گی۔

پاکستان میں طویل عرصہ سے یہی فارمولا اپنا جارہا ہے۔ ہرحکومت غیرملکی قرضہ حاصل کرنے کے لیے عالمی اداروں کاکڑی شرائط تسلیم کرتی ہے۔ اسی طرح ہربار جب غیرملکی قرضہ ملے توشور مچایا جاتا ہے کہ اب پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ ایسے قرضوں کو حکومت کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے دھواں دار بیانات دیئے جاتے ہیں۔
دوسری جانب سچ یہ ہے کہ ایسے قرضوں کاعام طور پرپاکستان کے عوام کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ رقم پاکستان آتی ہے۔ حکومت پہلے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لیتی ہے اور اس رقم سے بمشکل سود ہی ادا ہوپاتا ہے۔ اس طرح پاکستان پر مزید سود قرضوں کابوجھ پڑجاتا ہے لیکن استعمال میں کوئی رقم نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ” بہترین معاشی پالیسی یہی ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ پالیسی کب تک اپنائی جاتی رہے گی؟ کیاہر حکومت اگلے سالوں کے لیے پاکستان کو مزید مشکل میں ڈال کراپنا دور گرارنے کوہی کارنامہ سمجھتی رہے گی۔
سچ یہ ہے کہ اس عمل سے نہ صرف آنے والے وقتوں میں پاکستان کوانتہائی مشکلات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے بلکہ بے روز گاری اورغربت کے ساتھ ساتھ شہری کومزید برے حالات سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے ہی حکومت عالمی اداروں کے حکم کے تحت شہریوں پر سختیاں کرتی ہے۔

Browse More Business Articles