16 دسمبر پھر آگیا!

مجھے اپنے دفتر ،اپنی یونیورسٹی کے کمرہ جماعتوں اور اپنے گھر کی دیواروں میں عورتوں اور بچوں کی چیختی ہوئی تصاویر نظر آتی ہیں۔مجھے ہر درو دیواراور ہر سڑک پر اپنا پلو پھیلائے رو،رو کر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوئی عورتوں کی تصاویر کا عکس نظرآنے لگتا ہے۔اس تصور کے بعد مجھے اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ پیر 16 دسمبر 2019

16 december phir agaya !
زمین کی گردش سے شب وروز بدلتے ہیں اور دن و ماہ و سال کی تاریخیں بھی بدلتی رہتی ہیں لیکن چند ایام ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے،اقوام اور انسانی زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ماہ دسمبر کے شروع ہوتے ہی دل میں خوف کی لہریں پنپنیں لگتی ہیں۔ موسم کے ساتھ ساتھ سرد ہواؤں میں جذبات اور احساسات بھی سرد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔بابائے قوم کی ولادت والا دسمبر کا مہینہ اس قوم کے لیے کبھی خوشگوار نہیں رہا۔


دسمبر کے مہینے کا دوسرا ہفتہ شروع ہوتے ہی مجھے ہر طرف سناٹے کا گمان ہونے لگتا ہے۔آسمان پر چمکتے ستاروں کی چمک بھی مانند نظر آتی ہے،فضا میں ہر طرف خون کی بُو محسوس ہوتی ہے ۔سسکیاں ،آہ وبکاء ،چیخ و پکار کی آوازیں کان کے پردے پھاڑنے لگتی ہیں۔طرح طرح کے عجیب و غریب بھیانک تصور ذہن میں پنپنے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

تخیل میں ہر طرف دوڑتے ہوئے مجمے اور ان کے پیچھے مسلح باوردی فوجی اور کرپانوں،چھریوں اور تلواروں سے لیس مکتی باہنی کے غنڈے انسانی سروں کو دھڑ سے الگ کرتے نظر آتے ہیں۔

سڑکوں پر بہتے ہوئے لہو کے تصور کا گماں کرکے میری روح تک لرز جاتی ہے۔میں ہمیشہ ان خیالات کو بُھلانے کی سعی کرتا رہتا ہوں ۔ہمیشہ دل کو تسلی دیتا رہتا ہوں کہ یہ واقعات تو میری پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں ۔جو لوگ میری پیدائش سے بھی پہلے پیدا ہوئے اور مرگئے ان پر مجھے مغموم نہیں ہونا چاہیے۔ان تمام تسلیوں کے باوجود بھی میرادل 16دسمبر کے آتے ہی مغموم ہو جاتاہے،مجھے اپنا آپ بھاری لگنے لگتا ہے،مجھے اپنے دفتر ،اپنی یونیورسٹی کے کمرہ جماعتوں اور اپنے گھر کی دیواروں میں عورتوں اور بچوں کی چیختی ہوئی تصاویر نظر آتی ہیں۔

مجھے ہر درو دیواراور ہر سڑک پر اپنا پلو پھیلائے رو،رو کر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوئی عورتوں کی تصاویر کا عکس نظرآنے لگتا ہے۔اس تصور کے بعد مجھے اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔
خدا کا دیا ہوا اشرف المخلوقات کا تصور بھی مجھے مشکوک معلوم ہونے لگتا ہے۔ماضی کی طرح ہر سال 16دسمبر آتا ہے اور میرے ذہن پر خوفناک یادوں کے تصور چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

میں بھی ہر سال 16دسمبر کو یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اس کرہ ارض پراسلامی ریاست پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران لاکھوں ماؤ ں کی گودوں کے اجڑنے کا ذمہ دار کون تھا ؟کس کی وجہ سے خوابوں کی سرزمین اور اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کے دو ٹکڑے ہوئے؟کیا وجہ تھی کہ ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے ،ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں نے ایک دوسرے پر مظالم کئے اور ان کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا تک مشکل بن گیا؟۔

56سال گزرنے کے باوجود بھی آج تک ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں۔آج بھی جواب دینے والے کبھی مشرقی پاکستان کے سانحہ کو انڈیا کی سازش قرار دیتے ہیں تو کبھی لسانی اختلافات کو،کبھی شیخ مجیب کو غدار قرار دیا جاتا ہے تو کبھی پوری بنگالیوں قوم کوہی غدا رٹھرایا جاتا ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے قائم حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ آج تک بھی مخفی رکھی گئی ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے کرداروں آمر جنرل یحیی خان،سویلین آمر ذولفقار بھٹو،جنرل نیازی ،جنرل ٹکا خان اور آمرانہ سوچ کا آج تک کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔عصر حاضر کی طرح ماضی میں بھی طاقتور اور کمزور کے لیے الگ قانون رائج رہا۔سینکڑوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے جرنیل بھی پورے وقارکے ریٹائر ہوئے اور دفنائے بھی مکمل اعزاز کے گئے ۔

سینکڑوں افراد کی ہلاکت پرالبتہ قدر ت نے ذولفقار بھٹو اور مجیب الرحمن سے جیتے جی انتقام ضرور لیا۔
پاکسان کی تاریخ میں 16سمبر کا ایک اور اندوہناک سانحہ آرمی پبلک سکول کا تھا۔اس سانحے نے پوری قوم کو خون کے آنسو رُلا دیا ۔سانحہ آرمی پبلک سکول بھی ہماری دوغلی پالیسوں اور انتطامی نااہلیوں کے سبب پیش آیا۔ہر کام میں ٹانگ اڑانے اور افغانستان کو اپنا پانچھواں صوبہ بنانے کے چکر میں ہم نے طالبان پیدا کئے اور پرائی جنگ کو اپنی سرزمین پر کھیچ لائے۔

افغانستان میں جنگ کے اختتام کے باوجود بھی ہم نے گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی جاری رکھی اور خود ہی ایسے عناصر کو شہہ دی کہ طالبان ہماری سرحدیں پار کرکے ہمارے شہری علاقوں تک پہنچ گئے اور انجام کار انھوں نے ہمارے معصوموں پر ظلم ڈھایا۔
قوموں کی تاریخ میں سانحات بھی پیش آتے رہتے ہیں اور اس سے سبق سیکھا جاتا ہے اور اس کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور ہر ممکن انسانی کوشش کے ذریعے مستقبل میں اس سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان کا سبب بننے والی عسکری سوچ کی برتری کا تصور آج 56سال بعد آج بھی موجود ہے۔اداروں میں مداخلت آج 56سال بعد بھی موجود ہے۔اپنے چہیتوں کو حکومت اور عہدوں سے نوازنے کا فلسفہ آج بھی جاری و ساری ہے۔میڈیا ،آزادی رائے پر پابندی اور غداری کے سرٹیفیکیٹ آج بھی دھڑادھڑتقسیم کئے جارہے ہیں۔ حقوق اور آزادی کی آوازیں آج بھی دھڑا دھڑ گونج رہی ہیں۔

ہر سال 16دسمبر پر تقاریب منعقد کروانے یا نئے نئے ملی نغمے جاری کرنے کی بجائے اس دسمبر پر ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے۔
ہمارے پالیسی سازوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے ۔ہمارے صاحب اقتداروں اور حزب اختلاف کو بھی سوچنا چاہیے ۔ہمارے لیے سب سے پہلے ہمارا ملک ہونا چاہیے ۔شخصیت کی بجائے ادارہ ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے لسانی منافرت اور فرقہ واریت کو پس پشت ڈال کر عوامی فلاح ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔

ہمارے تمام عسکری اور سویلین اداروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے صرف اپنے ہی فرائض انجام دینے چاہیے۔ دسمبر ہر سال آتا ہے اور ہمیں آہوں ، سسکیوں اور حسرتوں کی یاد دلاتا ہے ۔خدا کرے کہ مستقبل میں ہمیں او ر کوئی خونی دسمبر دیکھنا نصیب نہ ہو اور مستقبل میں دسمبر کا کوئی بھی دن 16دسمبر جیسا نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

16 december phir agaya ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 December 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.