
تین میں جانشین کون؟؟
الطاف حسین کے جانشین کے طور پر یہ تین نام پہلی بار سامنے آئے جس پر سب کو حیرت ہوئی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ نام الطاف حسین نے خود پیش کیے ہیں
جمعہ 3 اپریل 2015

25اپریل کے ضمنی الیکشن کے لیے ایم کیو ایم نے کنور نوید اور تحریک انصاف نے عمران اسماعیل کو اْمیدوار نامزد کر دیا ہے۔جس کے ساتھ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور بیانات کی جنگ جاری ہے ۔ عزیز آباد میں ایم کیو ایم اورتحریک انصاف کے کارکن آمنے سامنے آ چکے ہیں جس کے بعد سوال کیاجارہا ہے کہ کیا ایسے میں پرامن ماحول میں الیکشن ہوسکیں گے یا نہیں۔ حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے اس ضمن میں پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے تاکہ اس کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیاجاسکے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے بھی عزیز آباد کے واقعات کا نوٹس لے لیا اورکہا کہ کراچی کا امن ہرصورت میں برقرار رکھاجائے گا۔
عمران خان کی جانب سے کراچی کے ضمنی الیکشن میں الطاف حسین کو شکست دینے کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان ٹھن گئی ہے۔
(جاری ہے)
کراچی میں یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ عزیز آباد کا معرکہ کون سر کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اب تک کشمیر سے کراچی تک ناکامیاں نہیں کامیابیاں ہی سمیٹی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کراچی کے شہریوں کو خوف سے نجات دلانے روشنیاں بحال کرنے اور عروس البلاد کو تحریک انصاف کا شہر بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں تحریک انصاف کا کوئی سیاسی اثر و نفوز نہیں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد بھی مایوس کن ہے۔ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ(ن)‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ(ف)‘ جمعیت علما اسلام‘ جمعیت علماء پاکستان‘ اے این پی اور سنی تحریک بڑی جماعتیں ہیں ۔ کراچی میں جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف سے بڑی جماعت ہے اس کے کارکنوں کی تعداد تحریک انصاف کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ تحریک انصاف 10جنم لے کر بھی جماعت اسلامی جیسا ملین مارچ نہیں کر سکتی۔ جماعت اسلامی تین بار کراچی میں بلدیاتی انتخابات جیت چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے 93ء کے الیکشن میں کراچی سے 6,6 نشستیں جیتی تھیں اس لحاظ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو کراچی میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایک ایسے موقع پر جب تحریک انصاف کراچی کی ٹاپ جماعت بننے جارہی ہے زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کراچی کی ان بڑی جماعتوں میں شامل نہیں۔ 11مئی 2013ء کو کراچی میں تحریک انصاف کے حق میں ریکارڈ دھاندلی کی گئی۔ لیکن موجودہ زمانہ چونکہ پروپیگنڈہ کا دور ہے، اس لیے نقار خانے میں کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ 90?ء کے الیکشن میں آئی جے آئی نے میدان مار لیا تھا۔ لیکن تحریک انصاف جسے اس وقت ملک میں متبادل سیاسی قیادت کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے اور اس کو آئی جے آئی کی طرز پر ابھارا جارہا ہے، اس نے 2013?ء کے الیکشن میں اپنے مہربانوں کومایوس کیا۔
سیاسی حلقے۔ عمران خان کی جانب کراچی کے ضمنی انتخابات میں کامیابیوں کے اعلانات پرحیران ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ 2013?ء کے الیکشن میں عمران خان کو کراچی سے ووٹ ضرور ملے تھے لیکن وہ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 246سے تمام سیاسی جماعتوں کو ہرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ حلقہ این اے246 میں ایم کیو ایم کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کا ووٹ بنک موجود ہے۔ایم کیو یم کے قائد اعلان کرچکے ہیں کہ تحریک انصاف کو کراچی فتح نہیں کرنے دیں گے۔ نائن زیرو پر چھاپے کے بعد الطاف حسین ابتدائی صدمے سے باہر آگئے ہیں۔ وہ بیک وقت وزیراعظم اور قانون نافذ کرنے والوں پر برس رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ دونوں جماعتیں ایک ہو گئی ہیں۔ پیر کی صبح کارکنوں نے قائد الطاف حسین کی جانب سے ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی تجویز مسترد کردی الطاف حسین نے کہا کہ فوج کسی صورت میں مجھے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے میں قیادت چھوڑنا چاہتا ہوں آپ بھی گھر جائیں اور ہم سب مل کر انسانیت کی خدمت کریں گے لیکن کارکن تیار نہیں ہوئے۔
قائدایم کیو ایم کہتے ہیں کہ اگر وہ قیادت سے دستبردار نہیں ہوئے تو ایم کیو ایم کی مزید شامت آجائے گی اس لیے نیا قائد چن لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جانشینی کے لیے تین نام پیش کر دیئے جن میں ڈاکٹر فاروق ستار‘ ندیم نصرت اور محمد انور شامل ہیں۔ الطاف حسین کے جانشین کے طور پر یہ تین نام پہلی بار سامنے آئے جس پر سب کو حیرت ہوئی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ نام الطاف حسین نے خود پیش کیے ہیں۔ ندیم نصرت اس وقت رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین ہیں اور ایم کیو ایم کے قائد کے ڈپٹی ہیں جبکہ محمد انور بھی لندن میں رہتے ہیں جبکہ ڈاکٹر فاروق پاکستان میں موجود ہیں وہ وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب کراچی آپریشن کے دوسرے مرحلے کی منظوری کے موقع پر وزیراعظم اور عسکری اداروں کی جانب سے گورنر، وزیر اعلیٰ اور حکومت سندھ کے بارے میں عدم اعتماد کا اظہار خالی از علت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ پی اے ایف بیس پرہونے والے اجلاس میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے حکومت سندھ کو سخت پیغام دیتے ہوئے گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ کو اجلاس میں تو نہ بلایا لیکن انہوں نے سویلین سیٹ اپ چھیڑنے سے بھی گریز کیا ہے ۔ گرچہ وزیراعظم کی کراچی آمد پر اخبارات نے یہ تک لکھ دیا تھا کہ آج گورنر سندھ عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے گا لیکن وزیراعظم نواز شریف کی گورنر سندھ سے ملاقات سے یہ تاثر بھی جاتا رہا۔گورنر سندھ نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر اجلاس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اجلاس میں ایم کیو ایم کے خلاف فیصلے ہونے تھے اور وہ ان فیصلوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے جارحانہ رویہ کے بعدا گر سندھ میں حالات گورنر راج کی جانب جا نکلتے ہیں تو سیاسی حلقوں کا اندازہ ہے کہ ایسا اقدام وزیراعظم کا اپنے ہاتھوں سیاسی خودکشی ہو گی۔
دریں اثناؤٴ کورکمانڈر نے وزیراعظم کے سامنے شکایات کے دفاتر کھول دیئے انہوں نے کہا کہ رینجرز نے سابق صدر پرویز مشرف کے گھر کے اطراف رکاوٹیں ختم کردیں لیکن سندھ حکومت دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔کور کمانڈر نے کہا کہ اگر کسی جگہ سے بیریئر نہیں ہٹائے تو آپریشن کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بن جائے گی۔ اس موقع پر و زیراعظم نے منصفانہ آپریشن کے لیے رینجرز کو فری ہینڈ دیدیا۔ جس کے بعد رینجرز نے اعلان کیا کہ بلاول ہاؤس کو چھوٹ نہیں ملے گی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے۔ وزیراعظم کے اس عزم کی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تائید کردی اور کہا کہ ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ افراد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ایسے افراد کے خلاف کارروائی پر ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے رینجرز نے وزیراعظم نواز شریف کے توسط سے حکومت سندھ سے تعاون کی درخواست کی ہے اور لاجسٹک سپورٹ بھی مانگ لی ہے۔ جس پر حکومت سندھ صلاح و مشورے میں مصروف ہے۔ ادھرکراچی میں آپریشن کے باوجود بم دھماکے کنٹرول نہیں ہورہے گزشتہ جمعہ کو کراچی میں دو دھماکے ہوئے تھے اس بار قائدآباد میں دھماکہ ہوگیا اورایک سال کے بعد پولیس کمانڈوز کی بس کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ سال جو کمانڈوز ہلاک ہوئے وہ بھی بلاول ہاؤس جارہے تھے۔ ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کی ذمہ داری تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے قبول کی ہے۔ لانڈھی میں جس جگہ پولیس کمانڈوز کی بس کونشانہ بنایاگیا اس مقام پرپولیس اورفوج پر دس بارہ مرتبہ حملے ہوچکے ہیں۔ جن میں فوجی اورپولیس افسران شہید ہوئے ہیں۔ ا س علاقے میں نعیم بخاری گروپ کا کنٹرول ہے۔ جو کہ کئی سال سے شب خون ماررہا ہے۔ یہ گروپ کئی ڈی ایس پی اورایس ایچ اوشہید کرچکا ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ کراچی میں بم دھماکوں کی نئی لہر کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ پولیس اوررینجرز کی توجہ جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن پر مرکوز ہے ، اس سے فائدہ اٹھا کر شدت پسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے ،جو ہر جمعہ کو حکومت کو چیلنج کرتے ہیں اور کالعدم تنظیموں نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
3 Main Se Jansheen Kon is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 April 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.