آبادی کا ٹائم بم اور تجاہل غافلانہ

وفاقی ادارے محکمہ شماریات کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں 1998 کے بعدسالانہ2.40 فیصد اضافہ ہواہے ۔اگر یہی صورتحال رہی تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیاکا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا

Atiq Chaudhry عتیق چوہدری ہفتہ 4 جنوری 2020

abadi ka time bomb aur tajahul ghaflana
پاکستان کے قومی مسائل میں سب سے زیادہ بے توجہی کا شکار ہونے والے مسائل میں بڑھتی ہوئی آبادی کامسئلہ ہے ۔سیاسی تنازعات وغیراہم ایشوزکی بحث میں جومسئلہ توجہ حاصل نہیں کرسکا وہ بڑھتی ہوئی آبادی سے معاشرے کولاحق چیلنجز اور اس ٹائم بم کوپھٹنے سے کیسے بچانا ہے ۔
پاکستان کی آبادی میں تقریبا ہر آٹھ سیکنڈ کے بعد ایک نئے فرد کااضافہ ہوتا ہے ۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ77 لاکھ74 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔1998 میں یہ آبادی 13 کروڑ،23 لاکھ 52 ہزار 270 تھی ۔وفاقی ادارے محکمہ شماریات کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں 1998 کے بعدسالانہ2.40 فیصد اضافہ ہواہے ۔اگر یہی صورتحال رہی تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیاکا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے آبادی ڈویژن کی جاری کردہ عالمی آبادی کی رپورٹ 2019 میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور خبردار کیا گیا ہے پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں 9 ویں نمبر پر ہے جہاں موجودہ آبادی کا نصف حصہ 2050 میں دگنا ہوجائے گا ۔

۔۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان کی آبادی میں 60 لاکھ افراد سے زائد کا اضافہ ہورہا ہے اسی تناسب سے آبادی بڑھتی رہی تو 2030 میں پاکستان کی آبادی 40 کروڑ ہوجائے گی ۔ہماری آبادی اس وقت 2.4 فیصد شرح کی افزائش سے بڑھ رہی ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا گنجان آباد ملک بن چکاہے ۔1951-61 تک پاکستان میں شرح افزائش آبادی 2.45 فیصد تھی جو2014-15میں 1.92 فیصد تک آگئی تھی مگر اب یہ شرح پھر 2.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔

اگر ہم کثافت آبادی معلوم کریں تو اس کی شرح 261 افراد فی سکوئر ہے ۔ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ قومی وسائل اور آبادی میں تناسب رکھاجائے ۔پاکستان کواس وقت اقتصادی ،سیاسی وسماجی ،انتظامی ومالیاتی اور ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں ۔
 علاوہ ازیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری ،مہنگائی اور ناخواندگی عوامی مسائل میں سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں اگر ان مسائل کے بنیادی اسباب کاجائزہ لیں تو بڑھتی ہوئی آبادی بھی بنیادی سبب ہے جس کوبری طرح نظرانداز کیاگیا ہے ۔

مشہور ماہر معاشیات مالتھس نے آبادی کے متعلق تھیسز پیش کیاتھاکہ آبادی جیومیٹریکل تناسب سے بڑھتی ہے یعنی 8,6,4,2 وغیرہ جبکہ خوراک بڑھنے کی شرح ریاضیاتی کے تناسب سے بڑھتی ہے اور اس طرح آبادی 25 سالوں کے بعد 3,2,1... ((Arithmatical دوگنی ہوجاتی ہے ۔اس وقت ملک میں پونے 21 کروڑ افراد کے لئے صرف 3 کروڑ ،22 لاکھ ،5 ہزار ،ایک سو 11 گھر دستیاب ہیں جوبہت کم ہیں ۔

اگر ان مکانات کا تناسب دیکھاجائے تو 7 افراد کے لئے ایک گھر بنتا ہے ۔بے گھر افراد کی تعداد تقریبا تیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت بڑے شہروں میں پائی جاتی ہے ۔بین الاقومی لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے24 سال عمر کے 10.8 فیصدنوجوان بیروزگار ہیں ۔
اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام کی نیشنل ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کوہر سال 13 لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔

آبادی کابڑھتاہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بنتاجارہاہے ۔اسی طرح پاکستان میں کروڑوں لوگ علاج معالجے کی معیاری سہولیات سے محروم ہیں ،دنیاکے 188 ممالک کی فہرست میں صحت کے حوالے سے پاکستان 149 ویں نمبر پر ہے۔ ملک میں تقریبا1167 اسپتال ،5695 ڈسپنسریاں اور صرف 5 ہزار تین بنیادی مراکز صحت کام کررہے ہیں ۔
556 رورل ہیلتھ سینٹر میں تقریبا1500 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے ۔

۔صحت کی سہولیات کے متعلق یہ اشاریے اور حقائق انتہائی ہولناک تصویر سامنے لاتے ہیں۔1968 میں بائیولوجسٹ پال آلرککی نے اپنی کتاب The Population Bomb میں خبردار کیا تھاکہ آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے پوری دنیامیں موجودہ آبادی کو خوراک مہیاکرنے کے وسائل نہیں ہیں ۔عالمی ادارہ خوراک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ پچاس لاکھ سے زائد افراد خوراک کی کمی یعنی دووقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں۔

بھوک کے شکار ممالک کی عالمی درجہ بندی میں کل 117 ملکوں میں سے پاکستان94 نمبر پر ہے۔ 
اسی طرح پینے کا صاف پانی بھی ایک اہم مسئلہ ہے 30 سے 40 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے ۔6 کروڑ پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔پاکستان میں 5 سے 16 برس کی عمر کے 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کوسکول میں بھیجنے کے لئے اور کتنے سال لگیں گے ؟ ہماری منصوبہ بندی کیا ہے ؟ کیا یہ مسائل ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہیں ؟ کیا ہمارے حکمرانوں و پالیسی میکرزکوان مسائل کاادار ک ہے اگر ہے تو پھر عملی اقدامات کیوں نظر نہیں آتے؟ صرف زبانی جمع خرچ سے کیوں کام چلایاجارہے؟ ایک اور تشویشناک بات شہری آبادی میں تیزاضافہ ہے جوکہ بڑے شہروں کے نازک انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہاہے۔

ساڑھے 6 کروڑ افراد ایک کمرے کے ڈربے جیسے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں ۔
 سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اپنے فیصلے میں بڑھتی ہوئی آبادی کوایک بم قرار دے چکی ہے جسے روکنے کے لئے مہم کی ضرورت ہے۔ عدالت کے اسی فیصلے میں کہا گیاہے کہ مذہبی اسکالرز ،سول سوسائٹی ،حکومت آبادی کم کرنے کے لئے اقدامات کریں یہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔

اس فیصلے کے بعد بھی حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے ۔افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ایجنڈوں اور منشور میں اس اہم قومی مسئلہ کے لئے جگہ نہیں ہے ۔اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کامستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس مسئلہ کو پہلی ترجیح بنانا ہوگا اور اس کے لئے عوامی سطح پر ایک منظم مہم چلانا ہوگی ۔
فلاحی ریاست بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وسائل اور آبادی میں توازن برقرار رہے جس کے لئے لوگوں کوشعور دینا بہت ضروری ہے ۔

ہم ہر سانحہ کے بعد کسی نئے سانحے کا انتظار کرتے ہیں اور پچھلے سانحے سے من حیث القوم سبق نہیں سیکھتے ۔یہ آبادی بم بھی کسی سانحے سے کم نہیں ہے مگر کیا اس سانحے سے جس نے قوم کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے اس سانحے سے ہم باخبر بھی ہیں ۔اہل علم و دانش کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کی رہنمائی کریں اور اس قومی مسئلہ سے متعلق آگاہی دیں ۔ذرائع ابلاغ کے موثر استعمال کے ساتھ ساتھ مذہبی شخصیات اور علماء کرام کو اس مسئلہ میں موبلائز کرناحکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ذریعے یہ پیغام عوام الناس تک پہنچاسکے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف جلد از جلد اور سنجیدہ توجہ دی جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

abadi ka time bomb aur tajahul ghaflana is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.