
عسکریت پسند
جو تحریک طالبان پاکستان سے الگ شناخت رکھتے ہیں ”اچھے طالبان“ میں شمار ہونے والا دوسرا بڑا گروپ حافظ گل بہادر گروپ ہے۔ اسے شمالی وزیرستان میں سب سے بااثر اور طاقتور سمجھا جاتاہے
سید بدر سعید
ہفتہ 22 فروری 2014

(جاری ہے)
عام اصطلاح میں اچھی طالبان اُن عسکری گروہوں کو کہا جاتا ہے جو پاکستان میں کارروائیوں سے گریز کرتے ہیں۔
اُنہیں طالبان گروپ کہتے ہوئے بھی ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان سے الگ سمجھا جاتا ہے۔”اچھے طالبان“ کا نظریہ جن گروپوں کے حوالے سے قائم کیا گیا،اُن میں حقانی نیٹ ورک سر فہرست ہے۔ اس گروپ کی سربراہی جلال الدین حقانی کے بیٹے کررہے ہیں۔ یہ گروپ جہادی حلقوں میں انتہائی بااثر سمجھا جاتاہے۔ اس کے ذمہ داران کے بقول اِن کا سیٹ اپ افغانستان میں ہی ہے۔ یہ گروپ مذاکرات اور دیگر امور میں اہم کردار اداکرسکتا ہے۔”اچھے طالبان“ میں شمار ہونے ولاا دوسرا بڑا گروپ حافظ گل بہادر گروپ ہے۔ اسے شمالی وزیرستان میں سب سے بااثر اور طاقتور سمجھا جاتاہے۔ یہ سیاسی اور نظریاتی حوالے سے جمعیت علمائے اسلام ینی مولونا فضل الرحمن سے منسلک ہے۔ پاکستان میں کارروائیاں نہ کرنے والے اِس گروپ کو پاکستان کی کئی پالیسیوں سے اختلاف ہے لیکن یہ مذاکرات کے سلسلے مین اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ ان طاقتور گروپوں کے علاوہ بھی یہاں ایسے متعدد چھوٹے گروپ پائے جاتے ہیں جو اچھے طالبان کی اصطلاح پر پورے اُترتے ہیں۔
پاکستان میں ”اچھے طالبان“ نے تو فوج، حکومت اور تحریک طالبان پاکستان سبھی سے تعلقات استوار کررکھے ہیں اور براہ راست پاکستان میں کارروائیاں نہیں کرتے لیکن دوسری طرف ایسے جہادی بھی موجود ہیں جن کا ”میدان عمل“ کچھ اور ہے اور یہ تحریک طالبان کے ”سیٹ اپ “ میں نہیں آتے۔ ان مین لشکر طیبہ ایک بڑے گروہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ ریاست کے اندر کارروائیوں کو درست نہیں سمجھتے ۔ اِس گروپ کا مقصد کشمیر کی آزادی اور بھارت پر مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنا ہے۔ اس کے سپریم کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی ممبئی حملوں کے الزام میں قید ہیں۔ کشمیر کا ذکا کا دوسرا بڑا گروہ جیش محمد کے نام سے 2000ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عوالمی شہرت ملی۔ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پابندی کے بعد اس نے ”خدام الاسلام“ کے نام سے کام شروع کردیا تھا یہ گروپ پاکستانی طالبان کا ساتھ دینے یا نہ دینے کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہوا او اپنے کئی جنگجو کھو بیٹھا۔ اس کے اہم کمانڈر عبدالجبار ”تحریک غلبہ اسلام“ پاکستان کے خلاف بغاوت کی مخالفت کرتا ہے۔ کشمیر کا ذکے زیادہ تر گروہ اب غیر فعال نظر آتے ہیں۔
طالبان کے اتحاد کی طرح کشمیری عسکریت پسندوں نے بھی ”متحدہ جہاد کونسل“ کے نام سے اتحاد بنا رکھا ہے۔ اس اتحاد میں شامل گروپ نہ تو پاکستان میں کارروائیوں کے حق میں ہیں اور نہ ہی تحریک طالبان پاکستان کی عام حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ سید صلاح الدین المعروف پیر جی اس کے موجودہ سربراہ ہیں۔ یہ بھی عسکری گروہوں کا اکٹھ ہے لیکن طالبان سے مزاکرات کے سلسلے میں شاید یہ کوئی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
پاکستان میں کچھ ایسے عسکریت پسند گروپ بھی ہیں جو نہ طالبان کا حصہ ہیں اور نہ متحدہ جہاد کونسل میں شامل ہیں۔ ان میں ناراض بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ حال ہی میں بننے والی ”جیش العدل“ بھی ہے۔ اس تنظیم کی نشاندہی بلوچستان اور ایران کے باردر کے قریب کے کچھ علاقوں میں کی گئی ہے۔ اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان میں یرانی مداخلت کے خلاف متحد ہوئے ہیں۔ یہ اہل تشیع مکتبہ فکر سے منسلک افراد کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ ایک گروپ ” سپاہ محمد پاکستان“ کے نام سے ہے۔ یہ سپاہ صحابہ پاکستان کے مقابلے میں شیعہ مکتبہ فکر کے افراد نے 90کی دہائی میں بنایا تھا۔ جو شیعہ مخالف عسکریت پسند تنظیموں کے راہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتاہے۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے اکثر رہنما اسی گروپ کے ارکان کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس کی راہنما سید غلام رضا نقوی کو ابتدا میں ہی گرفتار کرلیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی میں فرق آیا لیکن اینٹلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ بھی دوبارہ فعال ہورہا ہے اور اسے ایرانی حمایت حاصل ہے۔
یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ حکومت کے طالبان سے معاملات طے پاجانے کی صورت میں وطن عزیز میں پرتشدد کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آجانے کا امکان ہے لیکن اس کے باوجود مکمل اَمن قائم کرنے کیلئے دیگر اقدامات بھی ضروری ہوں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
مزید عنوان
Aksariyat Pasand is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 February 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.