امریکہ اور یورپ سیاسی واقتصادی بحران کی زد میں

بے روزگاری‘مہنگائی کی بڑھتی شرح سے علیحدگی کی تحریکیں جنم لینے لگی عالمی افق پر دائمی اقتدار کا خواب دیکھنے والی ”سپر پاور“ کا شیرازہ بھی سوویت یونین کی طرح بکھرنے لگا

ہفتہ 19 مئی 2018

America aur Europe siyasi o aqtsadi bohraan ki zad mein
محبوب احمد
امریکہ اور یورپ میں حالیہ برسوں سے شروع ہونے والا معاشی بحران دنیا کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکا، یہی وجہ ہے کہ معاشی بحران کے اثرات اس تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ جہاں امریکہ کا سوویت یونین کی طرح شیرازہ بکھر رہا ہے وہیں یورپ میں بھی علیحدگی کی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ دنیا کو درپیش خراب اقتصادی صورتحال نے قومیتیوں کے پرانے تصور کوتوڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

امریکی مالیاتی بحر ان کے بعد یورپ کو بھی خاصے مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈونلڈ
ٹرمپ کی اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اورجنگجویانہ پالیسیاں امریکی معیشت کے لئے زہر قاتل ثابت ہورہی ہیں، اس معاشی بحران کے اثرات امریکی ریاستوں پر ہی نہیں بلکہ ترقی پذیرممالک پر بھی پڑ رہے ہیں گزشتہ عشروں سے امریکہ بیرونی ممالک سے سرمائے کے حصول اور دوسروں کو منافع ادا کرنے کے ذریعے اپنی معیشت چلانے میں کامیاب رہا ہے، تاہم پیدا ہونے والے رخنے سے اب یہ ملک جمود کے خطر نا ک دور میں داخل ہوتا جارہا ہے۔

(جاری ہے)


امریکہ میں علیحدگی پسندتحریکوں کا زور شدت اختیار کرتا جارہا ہے ،ماہرین کے نزدیک خود کو سپر پاور کہلانے والے امریکہ کیلئے اب اپنا وجود برقرار رکھنا آئے دن مشکل ہوتا جارہا ہے، یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ عالمی افق پر اقتدار کا خواب دیکھنے والا امریکہ بھی کیا سوویت یونین کی طرح ٹوٹ جائے گا؟ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے اب تک امریکی عوام میں علیحدگی پسند جذبات جنم لے رہے ہیں۔

25 سے زائد امریکی ریاستیں متحدہ امریکہ سے علیحدگی کی درخواست دے چکی ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے، پرامن علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی ریاستوں میں لوزیانا، ٹیکساس ، مونٹانا، شمالی ڈکوٹا، انڈیانا،مسیپی ،کینٹکی، شمالی کیرولینا، الباما، فلوریڈا، جارجیا، نیو جرسی، کولوراڈو، اوریگون ، جنوبی کیرولینا ،ٹین ینسی مشی گن میسوری، نیو یارک اور آرکنساس وغیرہ سرفہرست ہیں۔

امریکی ریاست ورمانٹ جوشمال مشرق کے نیو انگلینڈریجن میں واقع ہے وہاں کے عوام نے دی سیکنڈ ورمانٹ ر یپبلک“ کے نام سے امریکہ میں آزادی کا پرچم بلند کر رکھا ہے، کا سکاڈین کے عوام بھی امریکہ سے علیحدگی کیلئے بے تاب ہیں۔ ماہرین اب یہ پشین گوئی کر رہے ہیں کہ امریکہ کا زوال اصل میں شروع ہو چکا ہے اور اس کے پاس اب کسی کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں۔

۔ سرمایہ داری کے تضادات بہت گہرے ہیں ہر ملنے والی مہلت آنے والے برے دنوں کو محض ملتوی کر تی ہے لیکن اس سے وقت آنے پر ٹکر مزید بھیا نک ہوگی۔ امریکہ کا اقتصادی تسلط اب روز بروز ختم ہوتا چلا جارہا ہے اور اب معاشی سدھار میں ایک لمبا عرصہ لگے گا کیونکہ اس کے ذمہ قرضے اربوں میں نہیں بلکہ کھربوں میں ہیں اور قرے ماضی کے قرضوں کی نسبت بہت خطرناک اور امریکی زوال کی ایک بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔


یورپ کے بیشتر ممالک کے عوام اورٹریڈ یونینز ملازمت کی ابتر صورتحال اور کفایت شعاری کی تدابیر پر عملدرآمد کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔2010ء میں یورو زون میں شامل 5 ریاستوں نے یورپی یونین سے مالی امدادطلب کی تھی ان میں سے 4 ممالک یونان، آئرلینڈ، پرتگال اور قبرص کی طرف سے فوری طور پر مالیاتی اداری کی درخواست بھی موصول ہوئی، سپین نے محدود پیمانے پرمالی معاونت حاصل کی، ان ریاستوں کو یورپی یونین، یورپی مرکزی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے مخصوص مگرسخت شرائط کی بنیاد پر اربوں ڈالر فراہم کئے گئے اور ان کی نگرانی کا بیڑہ ہی قرض دہندہ اداروں نے اٹھایا اس وقت یونان اور قبرص کی معیشت 3 بین الا قوامی اداروں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔


یورپی یونین اور یوروز ون کی جن 5 ریاستوں کو مالیاتی پیکج سے نوازا گیا ان کی معیشت حقیقت میں غیر ضروری حکومتی اخراجات کے باعث اندرونی اور بیرونی قرضوں تلے دب کر رہ گئی تھی۔ یورپ کی حالت جو تفریط زر کے بحران کی زد میں ہے عالمی نقط نظر سے معاملات میں مزید بگاڑ کا سبب بن رہی ہے لہذا معاشی کران سے نمٹنے کے لئے بھاری بھرکم ٹیکس لگا کر بڑی کمپنیوں کو بچانے کے لئے کوشش کی گی، یونان اور اٹلی میں طلبہ کی فیسیں بڑھائی گئیں لیکن صورتحال مسلسل ابتری کی نشاندہی کر رہی ہے۔

یورپ آج سے10 برس قبل کے مقابلے میں زیادہ تقسیم کا شکار ہے، 11 یورپی ممالک جن میں بیلجئیم ، فرانس، جرمنی، ہنگری، اٹلی، پولینڈ ،روس ، سپین، سویڈن ، سربیا اور برطانیہ شامل ہیں کے 93فیصد عوام بھی اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ معاشرہ پہلے کی نسبت بہت منقسم ہے اور اس کی بڑی وجہ پناہ گزینوں اور مقامی باشندوں میں پائی جانے والی تقسیم قرار دی جا رہی ہے۔

سربیا میں امیر غریب کی آمدن میں جتنا فرق ہے اتنایورپ کے کسی اور ملک میں نہیں ہے کیونکہ وہاں کی ایک چوتھائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور 20 فیصد امیر ترین 20 فیصد غریب ترین سے10 گنا سے بھی زیادہ کما رہے ہیں، گزشتہ 5 برس کے دوران سربیا میں پائی جانے والی یہ خلیج خطرناک حد تک بڑھی ہے سیاسی طور پر بھی یہ ملک منقسم ہے اس کی بڑی وجہ کوسوو بھی واپس لینا چاہتے ہیں۔

امریکہ میں بے روز گاری کی شرح جہاں تقریبا10 فیصد ہو چکی ہے وہیں یورپی یونین میں بے روزگاری کی شرح11 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ فرانس کی حکومت کو شدید مالی
بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اورصنعتی اور مینوفیکچرنگ جیسے دیگر شعبوں میں تنخواہیں پانے والے ملازمین مسلسل کام کی ابتر صورتحال اور انہیں ملازمت سے نکالے جانے اور کم تنخواہیں دئیے جانے کے خلاف ہڑتال اور مظاہرے کررہے ہیں، بہت
سے یورپی ممالک کے معاشی بحران نے ان ممالک کو عام اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافے جیسے سخت معاشی اقدامات انجام دینے پر مجبور کر دیا ہے، جرمنی پر اپنے ٹریڈ سرپلس کو برقرار رکھنے کا خبط سوار ہے اور اس ماڈل کو پورے یورپ پر لاگو کرنا چاہتا ہے جس سے جنوبی یورپ میں فاقے ہوں گے ، یونان یور پی بحر ان کا مرکز ہے یہ یقینی طور پر تباہی کے دہانے پر ہے۔


یورپ کے دو ممالک سپین اور یونان میں اس وقت بیروزگاری کی شرح یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ
ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں مہنگائی کی شرح6،سپین میں 25 ،آسٹریا میں 5، اٹلی میں 11 فیصد اور دیگر ممالک میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے ،یہ دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ یورپ کا قرضوں کے بحران اقتصادی مفادات پر مبنی ریاستوں کے اتحاد پر کافی اثر پڑا اور اس کے نتیجے میں یورو زون کے ممالک میں سیاسی بحران امڈ آیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کی حکو متیں تبدیل ہوئیں۔


لاطینی امریکہ کے ما لک ارجانٹینا، برازیل، میکسیکو، چلی اور پیرو بھی سیاسی اور معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے کشیدگی کا احساس سب سے زیادہ ارجنٹینامیں نمایاں دکھائی دیتا ہے جہاں 70 فیصد سے زائد ارجنٹینا کے باشندے سیاسی بنیادوں پر منقسم ہیں۔ ملیشیا کو چھوڑ کر ارجنٹینا میں سیاسی اختلافات سب سے بڑا مسئلہ ہیں، تاہم 68 فیصد اور یورپی باشندوں کی نسبت صرف59فیصد لاطینی امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کے معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم گزشتہ 10 برس میں گہری ہوئی ہے 74فیصد کینیڈین شہریوں نے کہا کہ ان کا معاشرہ مختلف نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں خاصی برداشت رکھتا ہے جبکہ 64 فیصد چینی اور 64 فیصد ملائی باشندوں کا بھی یہی خیال تھا کہ دوسرے ممالک میں سیاسی، مذہبی یا صنفی تقسیم پر گرما گرم بحث یا مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن چین میں اس قسم کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ میڈیاپر سخت حکومتی کنٹرول کی وجہ سے کسی قسم کی معنی خیز یا کھلی سیاسی بحث نہیں ہو سکتی جس کی وجہ سے اکثراوقات سیاسی تقسیم دب کر رہ جاتی ہے، سابق صدر ہوجنتاؤنے ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دینے کا عزم ظاہر کیا تھا جہاں لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہوں اور ایک دوسرے پر اعتماو کر تے ہوں ، تاہم ایسی پوسٹیں سوشل میڈیا سے ہٹا دی جاتی ہیں جس کے بارے میں خیال ہو کہ وہ قابل اعتراض ہیں پھر بھی خو وچینی قیادت کو چین میں پائی جانے والی معاشی تفریق کا احساس ہے ، صدرشی جن پنگ نے چینی خواب“ کو تازہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے لیکن اس کے ثمرات ہر ایک تک نہیں پہنچ پارہے، بہر حال عالمی کساد بازاری اور مالیاتی بحران کے اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام گھر، گاڑی حتی کہ ضروریات زندگی کی عام اشیاء کی خریداری بھی قرضے کی رقوم سے کرنے پرمجبور ہیں۔

دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ نے امریکہ کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America aur Europe siyasi o aqtsadi bohraan ki zad mein is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 May 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.