امریکہ پھر افغان جنگ کے گروپ میں!

ٹرمپ نے اوباما کی کوششوں پر پانی پھیر دیا․․․․․․․․․․ نیٹو ممالک کی بڑی تعداد نے امریکی صدر کی نئی مہم جوئی سے کنارہ کشی اختیار کرلی

جمعہ 29 دسمبر 2017

America Phr Afghan jang k Gardaap me
محمد رضوان خان:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے لگ بھگ ایک سال ہونے کو ہے لیکن روزاول سے ان کے فیصلے قبولیت عام حاصل نہیں کرسکے ان کا ہر فیصلہ کسی انہونی سے کم نہیں ہوتا اسی لئے ٹرمپ کی وجہ سے دنیا بھر میں امریکہ کی سبکی بھی ہورہی ہے جس کی تازہ ترین مثال مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کا اعلان کرنا ہے، یہ کافی عرصے بعد ہو ا ہے کہ اقوام متحدہ جو عملی طور پر امریکہ کی ذیلی تنظیم بن چکی ہے کی جنرل اسمبلی نے وہ قرار داد منظور کرلی جس میں امریکہ سے کہا گیا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے، اس قرار داد کے حق میں128 ممالک نے ووٹ دیاجبکہ 35 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ 9 نے اس قرار داد کی مخالفت کی۔

(جاری ہے)

اس اعداوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو امریکہ کے خلاف لا کھڑا کیا ہے کیونکہ جو قدم 22 برس سے کوئی امریکی صدر نہیں اٹھا رہا تھا وہ ٹرمپ نے اٹھایا لیکن اس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام اور خود مغربی ممالک کی اکثریت نے بھی اس اقدام کو غلط قرار دیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہی کھیل افغانستان میں بھی کھیل رہے ہیں جہاں سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے بڑی ہوشیاری سے امریکہ کو ایک ایسی جنگ سے تقریباََ باہر نکال لیا تھا جو وہ سراسر ہارچکا ہے، یہ جنگ افغانستان میں لڑی جارہی ہے لیکن اس کا اچھا خاصا خون پاکستان میں بہا ہے جبکہ امریکہ نیٹو کے دیگر ممالک بھی اپنے پیروں پر چل کر آنے والے فوجی تابوتوں میں بند ہو کر جاتے رہے۔

امریکہ لگ بھگ نصف دنیا کے فوجی لاؤ لشکر کو لے کر یہاں حملہ آور ہوا تھا تو اس وقت اور آج میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت افغانستان کے طول وعرض میں طالبان کا سکہ چلتا تھا لیکن آج وہ ملک کے 46 فیصد رقبے کے نہ صرف حکمران ہیں بلکہ وہ افغانستان کے مقابلے میں زیادہ محاصل اکھٹے کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا یہ حقائق جانتی ہے اور سابق امریکی انتظامیہ نے اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے افغانستان جو ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کی مقتل گاہ رہا ہے سے بڑی چالاکی سے اپنی فوج کو واپس بھی بلایا اور وہاں فوجی اڈے بھی باقاعدہ اپنی مرضی کی منتخب کردہ حکومت سے حاصل کئے ۔

افغانستان میں امریکہ کے یہ فوجی اڈے دفاعی لحاظ سے اس قدر اہمیت کے حامل تھے کہ کرہٴ ارض پر جنوبی ایشیاہی وہ علاقہ تھا کہ جہاں امریکہ کے پاس کوئی فوجی اڈا نہ تھا۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اوباما انتطامیہ بے نہ صرف افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ سے خود کو علیحدہ کیا بلکہ جنوبی ایشیاء میں اپنی دفاعی ضرورت حاصل کرکے سب سے اہم چال یہ چلی کہ اپنے فوجیوں کا کردار غیر متحارب کردیا، گویا اس اقدام کا مقصد یہ تھا امریکہ نے دُنیا کو بالعموم اور افغانستان میں اس کے خلاف بروئے کار تمام متحارب حلق وں کو یہ پیغام دیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ وجدل سے باز آیا۔

باراک اوبامہ انتظامیہ یہ اقدام اگر دیکھا جائے تو امریکی فوج کیلئے انتہائی فائدہ مند تھا کیونکہ وہ طالبان سمیت تمام مخالفین کا شکار بن رہے تھے اور دوسری طرف جب اس جنگ کا کوئی دوسرا حل دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا تو نیٹو ممالک نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اور وہ بھی دھیرے دھیرے اپنے فوجیوں کو واپس بلواتے گئے کیونکہ عملی طورپر افغانستان میں کل بھی طالبان حکمران تھے اور آج بھی انہی کی ہیبت تخت کابل سمیت سب پر طاری ہے۔

امریکہ میں پچھلے سال جو انتخابات ہوئے ان میں ساری کی ساری پیش گوئیوں کے برعکس ہیلری ہارگئیں تو نیٹو کے ممالک نے اپنا ہاتھ مزید کھینچ لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ آج عملی طور پر افغانستان میں تنہا ہوگیا ہے ۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہوش کے ناخن لیتے لیکن وہ تسلسل کے ساتھ ایسے اقدامات کررہے ہیں جس پر انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالکل ایسا ہی کارنامہ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں سرانجام دیا ہے انہوں نے پہلے تو نئی افغان پالیسی بنا نے کیلئے وہ تمام لوگ اکھٹے کئے جو افغانستان کی جنگ میں شریکر ہے اور دوسری صفت ان میں یہ تھی کہ یہ سب اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتے تھے، اس قسم کی ٹیم سے جو توقع تھی انہوں نے اسی قسم کی پالیسی بنائی جس میں بھارت کو تو اس جنگ میں سانجھے دار بنادیاگیا اور اس پر ناز کیا جارہا ہے جہاں اس جنگ کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا لیکن جس ملک نے ستر ہزار جانوں کی قربانی دی اس کو ڈومور کے ذریعے کٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے اگست کے مہینے میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کیا جس میں بڑی وضاحت کے ساتھ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے کہا گیا ، عجیب وغریب منطق یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے جہاں اس کی ناک کے نیچے ملک میں لگ بھگ 50 فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری ہے جبکہ کابل کی امریکی سپانسر ڈ حکومت کی عملداری کا یہ عالم ہے کہ کابل سے باہر کہیں حکومت نظر نہیں آتی ایک دفعہ پھر ملک میں جنگی سرداروں کی چاندی ہوگئی ہے جبکہ افغا نستان کے صدر اشرف غنی کو صدر کے بجائے کابل کا میئر کہا جاتا ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنی فوج او ر اشرف غنی اینڈ کمپنی سے یہ تقاضا نہیں کرتے کہ پہلے افغانستان میں طالبان کا راج ختم کیا جائے بلکہ الٹا پاکستان کو دوش دیا جارہا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ پاکستان کی ہی وجہ سے ہورہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک کی جو سنگین غلطی کی ہے اس میں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کو بغیر کچھ سوچے سمجھے میدان جنگ میں پھرسے اتار دیا ہے ۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں اپنی فوج کو یہ حکم دیتے کہ افغانستان میں جتنے بھی متحارب دھڑے ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے لیکن حال ہی میں انہوں نے اپنی قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد بھی پاکستان سے ایک بار پھر تقاضا کیا کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں کاروائی کرے تاکہ سرزمین افغانستان کو محفوظ بنایا جائے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے احکامات کی روشنی میں امریکہ نے اپنے تازہ دم فوجی افغانستان بھیجے ہیں،مجموعی طورپر افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی بھی تعداد بڑھا دیا ار وہ جنگ جس میں اوباما نے امریکہ کو خاموش تماشائی بنادیا تھا میں امریکی فوج کو پھر سے متحرک کردار دے دیا ہے یہ کردار دینے کی ایک وجہ دکھائی دے رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے تیئں شاید امریکہ کو فتح کرنا چاہتے ہیں ، بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ نیٹو ممالک کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی مہم جوئی میں اپنے فوجی فراہم نہیں کئے جس کی وجہ سے امریکہ کو زیادہ شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اسے اپنی دھاک بٹھانے کیلئے افغانستان میں اپنا جارحانہ کردار ہی رکھنا چاہیے، اس بارے میں حال ہی میں کرسمس سے قبل امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ بھی کیا جس کے دوران بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں موجود امریکی فوج پر عائدہ وہ قدغنیں ختم کردی ہیں جس کے باعث ان کے بقول امریکی فوج کی صلاحیتیں محدود ہوگئی تھی ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد اب امریکی فوج دشمن سے پوری قوت اور سرعت سے لڑ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت نے امریکی فوج کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو کہیں بھی نشانہ بنانے کا اختیار دے دیا ہے چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں ۔ مائیک پینس نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کی اس نئی حکمت عملی کے افغانستان میں مثبت نتائج برآمد ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امریکی فضائی حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور امریکی فوج کی اپنے افغان شراکت داروں کے ساتھ مل کر کی جانے والی کاروائیوں کے نتیجے میں طالبان دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔

مائیک پینس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو ایک اور تڑی لگادی جس کے دوران انہوں نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی جاری رکھی تو وہ بہت کچھ کھودے گا موصوف کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک عرصے سے طالبان اور دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ دینے کے دن گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کونوٹس دے چکے ہیں کہ اسے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنا ہوں گی۔

پاکستان نے اس قسم کی زبان پر امریکہ کو کڑا جواب بھی دیا ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس بابت کہا کہ اتحادی ایک دوسرے کو تنبیہہ یا نوٹس جاری نہیں کرتے، ان کا کہنا تھا کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کا بیان پاکستان کی امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں سے ہونے والی بات چیت سے بالکل مختلف ہے۔ ترجمان نے کہا کہ نوٹس یا تنبیہ اُن عناصر کو جاری کرنی چاہیے جو ان کے بقول پڑوسی ملک افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے ،افغان علاقوں حکومت کی عملداری ختم ہونے اور داعش کووہاں قدم جمانے کا موقع فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

ا مریکہ کی جانب سے اس قسم کے بیانات سے جس میں سالانہ کروڑوں ڈالر دینے کی بات کی جارہی ہے اور ساتھ ہی تعاون کی صورت میں بہت کچھ پانے اور عدم تعاون پر بہت کچھ کھونے کی دھمکی سے پاکستان اورامریکہ کے مابین دوریاں پیدا ہوگی حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں جس طرح آپریشن ضرب عضب کیا گیا اس نے دہشت گردی کا خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا ، اس آپریشن نے ملک میں کام کرنے والے دہشت گردوں کا کمانڈر اینڈ کنٹرول تباہ کردیا جس کی وجہ سے اب دہشت گرد پاکستان کے قبائلی سے بھی فرار ہوچکے ہیں ، اس صورتحال کی تصویر کشی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر نے مدلل انداز میں کی۔

انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ الزام قطعی طورپر درست نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاک افغان سرحد میں امریکی ڈرون حملوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے بلکہ اس وقت تو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقوں کو ان دہشت گردوں سے بالکل صاف کرلیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America Phr Afghan jang k Gardaap me is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.