اقوام متحدہ کی ”برمی آمریت“ پر خاموشی لمحہ فکریہ!

بلوائیوں کے ہاتھوں روہنگیائی مسلم خواتین کی عصمت دری!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5 لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو بنگلہ دیش میں بھی شدید خطرات لاحق بچوں، خواتین سمیت جلی ہوئی نعشوں کے ڈھیر دورِ قدیم کی یادتازہ کرنے لگے

جمعرات 14 دسمبر 2017

Aqwame  mutHida ki Barmi Amriyat pr Khamoshi Lamhaye Fikriya
محبوب احمد:
برما میں مسلمانوں کی آتش نمرود میں پھینکنا ، پانی میں ڈبو کر مار دینا، زندہ انسانوں کی کھالیں ادھیڑنا، خواتین کی عصمت دری یا پھر معصوم بچوں کی آنکھیں نکالنا یقینا ایسے افعال ہیں جن سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ کئی عشروں سے جاری ظلم وستم ضبط تحریر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔بلوائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی داستان انسانی حقوق کی علمبردارکے دعویداروں کے لئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، ویسے تو روہنگیائی مسلمانوں اور برما کی ریاست رکھائین کے بدھ مت پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے لیکن 1947ء میں روہنگیا رہنماؤں نے مسلم ریاست بنانے کیلئے شمالی اراکان میں باقاعدہ حریت پسند تحریک شروع کی جو 1962ء تک کافی متحرک رہی ، لہٰذا برمی فوج نے اس تحریک کو ختم کرنے کیلئے جنگی کاروائیاں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قتل عام شروع کردیا، 1978 ء میں” آپریشن کنگ ڈریگون“ کی وجہ سے سے بڑی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنا پڑی ، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ برما کی حکومت نے 1982ء کے سٹیزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور دیگر 10 لاکھ چینی وبنگالیوں کو شہری ماننے سے انکار کیا تھا۔

(جاری ہے)

روہنگیائی مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کرکے مساجد اور دیگر مقدس مقدمات کو شہید کرنا برمی حکومت کا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے۔ کیا برما”امریکہ“ ہے کہ اس کے سامنے تمام مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے؟ ، انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبردار اقوام متحدہ بڑے پیمانے پر ہونے والے ظلم و جور کے واقعات پر خاموش کیوں ہے؟ برما میں بلوائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کانوٹس کون لے گا؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب شاید سب کے پاس موجود ہے لیکن کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر سبھی نے خاموش اختیار کر رکھی ہے۔

بھارت کی طرح برما میں بھی مسلمانوں کو زندہ جلانا معمول کاحصہ بن چکاہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ عالمی برادری مسلمانوں کی تباہی پر ہمیشہ خاموش رہی ہے لیکن یہاں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک کاکردار بھی کہیں دکھائی نہیں دے دہا جو لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ لاکھوں روہنگیا اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے پر مجبور ہیں، گزشتہ چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس جھگڑے کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کردیا ہے۔

برمی فوج کے ظلم وستم سے راہ فرار اختیار کرنے والے حالات کے ستائے یہ مسلمان بیج منجدھار سمندر کے تھپیڑوں کا مقابلہ کررہے ہیں کیونکہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بعد بنگلہ دیشی حکومت بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے درپے ہے، اس وقت لاکھوں روہنگیا پناہ گزین ہیں جنہیں اپنا شہری تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیش اور برما میں تنازع چل رہا ہے اور اب بنگلہ دیشی حکومت بھی روہنگیائی مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

روہنگیائی مسلمانوں کو مناسب کھانا پینا دستیاب نہیں، مردہ انسانوں کا گوشت کھا کر سمندر کے پانی سے پیاس بجھاتے ان کی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے جارہے ہیں ۔ عالمی طاقت امریکہ نے انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر کئی ایک ممالک کے خلاف محاذ آرائی کی لیکن میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم پر خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مغرب نے ہمیشہ اسلامی شناخت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، اس بات میں بھی کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ بلوائی امریکہ کی شبہ پر ہی مسلمانوں کو اپنی جارحیت اور بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں، کیا اگر یہی ظلم وستم برما میں یہودہ ہنود پر ڈھایا جا رہا ہوتو امریکہ خاموشی کا مظاہرہ کرتا؟ کیاصرف اظہار مذمت سے حالات کو کنٹرول میں کیا جاسکے گا؟ سولہویں صدی سے آباد روہنگیا مسلمان جن کی کئی نسلیں یہیں پروان چڑھ ہیں انہیں شہریت سے محروم رکھنا کھلی زیادتی ہے ۔

خطے میں قیام امن کیلئے برما میں انسانیت سوز اور ظالمانہ قانون کو ختم کرکے شہریت کے حقوق کو بحال کرنا ہوگام یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے برما کو ناپسندیدہ ملک قرار دے، برمی مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کیلئے اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ ان کے تحفظ اور حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے خاموشی توڑتے ہوئے ایک مئوثر اور فعال کردار ادا کرے۔

اقوام عالم کی عموماََ اور برما کے تمام پڑوسی ممالک کی خصوصاََ یہ اخلاقی وقانونی ذمہ داری ہے کہ وہ برمی مہاجرین کو پناہ گزین کے طور پر قبول کرے، انہیں عزت کے ساتھ رہنے سہنے ، تعلیم ، کاروبار اور علاج و معالجہ کی بھرپور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کوان کی شہریت سے محروم کرنا کوئی درست اقدام نہیں۔ نصف صدی قبل 4 ملین آبادی قتل عام اور دباؤ کی پالیسیوں سے تقریباََ ایک تہائی تک رہ گئی ہے۔

برمی فوج کی جارحیت کے شکار روہنگیائی مسلمان اپنے ہی ملک میں پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، کسمپرسی کے ان حالات میں ترکی کابین الاقوامی سطح پر میانمار میں ہونے والے ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنا قابل تحسین اور قابل تقلید ہے لیکن یہاں افسوسناک امریہ ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے تشکیل دی گئی عالم اسلام کی اتحادی فوج کہاں ہے؟۔

برما ہو یاچیچینا، عراق ہو یا افغانستان ، فلسطین ہو یا کشمیر ، شام ہو یا بوسنیا یا پھر دیگر مسلم ممالک یہاں پر یہور وہنود کی مذموم کاروائیاں اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہیں، لہٰذا اب عالم اسلام کے رہنماؤں کے متحد اور منظم ہوکر مسلمانوں کے حقوق ومفادات اور تحفظ وبقا کے لئے تاریخ ساز اقدامات اٹھانا ہوں گے کیوکہ․․․․․․․․․
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Aqwame mutHida ki Barmi Amriyat pr Khamoshi Lamhaye Fikriya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.