بلدیہ عظمیٰ اور ماحولیاتی ادارے آلودگی پھیلانے میں حصہ دار!

مزدوروں کے حقوق کے محافظ ادارے فرائض کی ادائیگی میں ناکام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیٹ ایریا حیدرآباد میں واٹر فلٹر پلانٹ چار مرتبہ افتتاح کے بعد بھی غیر فعال

منگل 14 نومبر 2017

Baldiya Uzma or Maholyati Idary Alodgi
یوسف وارثی:
محکمہ ماحولیات سندھ اور حیدرآباد سائیٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے درمیان پچھلے دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے الزام میں محکمہ ماحولیات نے سخت ایکشن لیتے ہوئے درجن کے قریب فیکٹریوں اور کارخانوں کو سیل کردیا۔

دوسری طرف مقامی فیکٹری مالکان اور کارخانہ داروں نے پُر زور انداز میں دھمکی دی کہ اگر اُن کے ساتھ زیادتی بند نہ ہوئی توہم اپنے کارخانے دیگر صوبوں میں منتقل کردیں گے۔ حکومت سندھ کی طرف سے سرکاری اخراجات کے تحت سائیٹ ایریا حیدر آباد میں صاف پانی کے لئے فلٹر پلانٹ نصب کروانے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں کچھ کام بھی ہوا تھا لیکن نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران اس کا چار مرتبہ افتتاح بھی ہوتا رہا مگر یہ فلٹر پلانٹ ابھی تک فعال نہیں ہوسکا۔

(جاری ہے)

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بار اس واٹر فلٹر پلانٹ کا افتتاح ایم کیو ایم کے سابق وزیر صنعت رؤف صدیقی نے اپنے دور وزارت میں کیا تھا، اس کے بعد دوبارہ سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور ایک بار صوبائی وزیر محمد علی ملکانی نے بھی افتتاح کیا تھا۔ ہر بار یہی کہا گیا کہ صرف دو سے تین دن میں پلانٹ فنکشنل ہوجائے گا مگر شومئی قسمت کہ آج بھی صورتحال ویسے ہی ہے جو پہلے تھی اور یہ واٹر فلٹر پلانٹ اب پانچویں بار کسی نئے مہربان اور کسی نئے وزیر کے ہاتھوں اپنے افتتاح کا منتظر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حیدرآباد فیکٹری ایریا اور کوٹری سائیٹ ایریا میں بڑی تعداد میں فیکٹریاں قائم ہیں جن میں سے بعض فیکٹریوں میں انتہائی زہریلا کیمیکل ملا پانی خارج کیا جاتا ہے جب ان فیکٹریوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب نہیں کئے گئے چند فیکٹریاں ایسی بھی ہیں جہاں پلانٹ نصب ہیں مگر زیادہ تر کارخانوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا پانی مقامی نہروں اور ندی نالوں کے پانی میں شامل ہوجاتا ہے ، اس طرح وہ انسانی حیات، آبی پرندوں اور گائے بھینسوں جانوروں کے لئے مضر صحت ثابت ہوتا ہے جہاں سے کئی طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

اس سلسلے میں حیدر آباد سائیٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹریز کے عہدیداران نے ایک ملاقات میں ندائے ملت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اے پی اے ماحولیاتی آلودگی کا الزام لگا کر صنعتی اداروں کو ظالمانہ اور متعصبانہ کاروائیوں کا نشانہ بنا رہا ہے اور نہایت غیر مہذبانہ انداز اور رویہ اختیار کرتے ہوئے اب تک درجن سے زیادہ کارخانوں کو سیل کردیا گیا ۔

ان فیکٹریوں کی انتظامیہ سے بدسلوکی روا رکھی گئی اور بعد ازاں ان کو ہراساں بھی کیا گیا ہے جبکہ یہی صنعتکار ہیں جو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ واسا ‘ سائیٹ لمیٹڈ ‘ بلدیہ عظمیٰ اور حکومت کے دیگر ادارے ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں 97 فیصد تک کے حصہ دار ہیں، لیکن ان سرکاری اداروں کے خلاف تو کسی قسم کی کاروائی نہیں کی جارہی جبکہ ان محکموں اور اداروں کی ناقص کارکردگی اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف 3 فیصد ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں کو مختلف الزامات لگا کر انہیں بند کردیا جاتا ہے اور بے روزگاری پھیلانے میں غیر شعوری طور پر مدد دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حیدرآباد کے صنعت کاران غیر قانونی ہتھکڈوں اور ناجائز کاروائیوں کے خلاف شدید احتجاج کریں گے اور اگر یہ ظالمانہ کاروائیاں پھر بھی بند نہ کی گئیں تو ہم حیدرآباد سے اپنے کارخانوں کو دوسرے صوبوں میں منتقل کردیں گے ۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو ان سرکاری اداروں کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ سائیٹ لمیٹڈ حیدرآباد کی صنعتوں کو پانی نہیں دے پارہی مگر پانی کے بل ضرور باقاعدگی سے بھیج دیئے جاتے ہیں اور بل ادانہ ہونے پر کنکشن کاٹنے کے لئے عملہ فوراََ پہنچ جاتا ہے۔

یہاں صاف پانی کی فراہمی کا کوئی مئوثر انتظام نہیں اور نہ یہاں سیوریج یعنی نکاسی آب کا کوئی انتظام ہے۔ سائیٹ کے علاقے میں سڑک نام کی کوئی چیز نہیں اورسٹریٹ لائٹس کا بھی بُرا حال ہے رات کے وقت چلنے والی گاڑیوں اور سامان سے لدے ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو سڑک کے گڑھے نظر نہیں آتے اور یہ گڑھے نظر نہیں آتے اور یہ گڑھے گاڑیوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

آئے دن ہونے والے حادثات میں گاڑیوں کے ساتھ ساتھ فیکٹری مالکان کے سامان کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں سائیٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور صنعتکاروں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری صنعتیں بڑی تعداد میں بیروزگار افراد کو روزگار مہیا کرتی ہیں ، لیکن ان سرکاری اور بلدیاتی اداروں کی اس روش سے یہاں بے روزگاری پھیلے گی جبکہ صورتحال یہ ہے کہ حیدرآباد میں پہلے ہی بیروزگاری کا تناسب دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔

حیدرآباد کی مقامی فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکروں اور ان کی مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان فیکٹریوں میں لیبر قوانین اور حکومتی احکامات کو پس پشت ڈال دیا جاتا اور لیبر کے حقوق اورقوانین پر عملدرآمد سے گریز کیا جاتا ہے اور اکثر فیکٹریوں اور کارخانوں میں لیبر کو انتہائی کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے ۔ مزدوروں اور ملازمین کی جانوں اور ان کی زندگیوں کی بھی کسی کو کوئی پروا نہیں کیونکہ یہاں فیکٹریوں میں آگ لگنے سے بچانے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے کوئی آلات نہیں ہیں۔

ملازمین کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جاتا اور یہاں تک کہ دس دس سالوں تک انہیں پکے کرنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے اور اسی طرح کنٹریکٹ کے ظالمانہ نظام کے تحت مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ بہت سی فیکٹریوں میں لیبر سے متعلق افسران مزدوروں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے کارخانہ داراور فیکٹری مالکان کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنی منتھلیاں اور دیہاڑیاں پکی کرنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔

اس بارے میں فیکٹریوں میں مقامی آبادی کے بجائے دیگر صوبوں اور دور دراز سے آئی ہوئی لیبر کو ملازمت کیلئے ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ دیگر صوبوں سے آئی ہوئی لیبر مقامی کارخانے داروں کو سستی پڑتی ہے جبکہ مقامی لوگوں کو روزگار دینے سے محروم رکھا جاتا ہے اس سے ان میں احساسِ کمتری بھی بڑھتا ہے اور امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ ایسا کرنے پر کئی بار مقامی لوگوں کی طرف سے احتجاج بھی ہوا ہے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم کئے گئے ادارے مقامی صنعتی اداروں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کے حقوق کے بجائے کارخانہ داروں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ فیکٹریوں میں حادثات روکنے کیلئے آلات بھی نہیں لگائے جاتے اس پر عملدرآمد کرنے والے ادارے کی چشم پوشی کے باعث کئی غریب مزدور زندگی بھر کیلئے معذور اور اپاہج ہوجاتے ہیں جبکہ ان کی داد رسی اور واجبات کی ادائیگی کیلئے نہ تو متعلقہ ادارے اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور نہ ہی کارخانے دار کسی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں یوں مزدوروں کے ہاں نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Baldiya Uzma or Maholyati Idary Alodgi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.