
بھارت میں اقلیتوں کو ہندو بنانے کا بھیانک منصوبہ
پرکھوں کی گھرواپسی
جمعہ 7 اپریل 2017

اُتر پردیش میں بلاشرکت غیر جیت کے بعد نریندرہ مودی اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں کا بھارت میں آباد اقلیتوں کیلئے ایک بھیانک منصوبہ تیار ہے جس کے تحت وہ بھارت دیش کو غیر ہندوؤں سے پاک کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ، ان کا پہلا ہدف مسلمان ، اس کے بعد مسیحی اور پھر سکھ ہیں ۔ بھارت میں 2014ء میں ہونیوالی مردم شماری کے مطابق مسلمان کل آباد کا 14.2 فیصد ، مسیحی 2.3 فیصد اور سکھ 1.7 فیصد ہیں ۔ا نتہا پسندہندوؤں نے اس حوالے سے جو طریقہ کار طے کیا ہے اس کے مطابق تین طرح کے حر بے استعمال کیے جائیں گے جن پر عملدرآمد کیلئے الگ الگ تنظیمیں ہونگی ۔ ایک تنظیم بھارت میں آباد اقلیتوں کی عبادات اور مذہبی رسوم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرے گی جس کیلئے بات چیت کے ذریعے روکنے سے لے کر تشدد کو بروئے کارلانے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
تک کلکتہ میں ہوا جس میں 70 ہزار مسلمان اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے اوراتنی ہی تعداد کو بھارتی فوج نے عارضی کیمپ قائم کرکے ان میں پناہ دی ۔ ان فسادات میں کتنے مسلمانوں کی جان گئی ؟ کتنی مسلمان عورتیں اغوا ہوئیں ؟ کتنے بچوں کو برچھیوں پر اُچھالا گیا ؟ اس کی تفصیل نہیں دی گئی لیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد بھی ہزاروں میں ہوگی۔
1983ء میں آسام کے علاقے نیلی میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا ۔ مسلمانوں کے اس اجتماعی قتل عام کو انگریز مورخین دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا قتل عام کا سانحہ بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح 1969ء میں گجرات کے ہندو مسلم فسادات 1970 ء میں بھیوندی کے فسادات ، 1980 ء میں مراد آباد کے فسادات 1989ء میں بھگل پور اور ایودھیان ، ان تمام فسادات میں مارے جانیوالے مسلمانوں کی تعداد 8ہزار بنتی ہے ۔ 22مئی 1987 ء کو اتر پردیش کے شہر میر ٹھ میں پروفیشل آرمڈ کانسٹیبلری کے 19 جوانوں نے مسلمانوں کے محلہ ہاشم پورہ سے بلاوجہ 42 مسلمانوں کو پکڑ کر ٹرک میں سوار کروای ،وہاں سے انہیں غازی آباد سڑکٹ کے علاقے مراد نگرلے جا کر سروں میں گولیاں مار کر قتل کیا اور لاشیں نہر میں ڈال دیں ۔ نوجوانوں کی گرفتاری کا منظر محلہ ہاشم پورہ میں بے شمار لوگوں نے دیکھا لیکن میرٹھ کی پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا، چار روز بعد لاشیں نہر میں تیرتی ہوئی پائی گئیں تو غازی آباد والوں کی نشاندہی پر معاملہ کھلا کہ انہیں پروفیشل کا نسٹیبلری والے لئے پھر رہے تھے ۔ اس بھیانک قتل عام کے 13برس بعد سپریم کورٹ کے حکم پر میرٹھ کی پولیس 19میں سے کانسٹیبلری کے 16جوانوں کو گرفتار کرنے پر مجبور ہوگئی جنہیں محکمانہ ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔ 2000ء میں انکی گرفتاری عمل میں آنے کے بعد سپریم کورٹ کو بھیج دیا جہاں آج کی تاریخی تک مقدمہ زیرسماعت ہے ۔ 1992ء میں ممبئی میں برپا ہونیوالے ہندومسلم فسادات نے بال ٹھاکرے کو شہرت دی کیونکہ اس کی قیادت میں دس برسوں تک نہ صرف ممبئی میں فسادات ہوتے رہے بلکہ فسادات ہندوؤں کیلئے انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی میں دلچسپی کاسبب بنے ۔ بال ٹھاکرے کی پھیلائی ہوئی نفرت نے بی جے پی کی معروف ” رتھ یاترا“ کی وجہ سے حاصل ہونیوالی شہرت کو بام عروج پر پہنچا دیا 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کی طرف سے برپا ہونیوالے بدترین فسادات نے بی جے پی کے سربراہ اور رتھ یاترا کی قیادت سے شہرت پانیوالے ایل کے ایڈوانی اور بال ٹھا کرے کو شہرت میں پیچھے چھوڑ دیا جس سے بھارتی ہندوؤں کی اکثریت کا سیاسی ، رحجان واضح ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کس قدر شدید نفرت کرتے ہیں اور ہر اس جماعت یا لیڈر کو سر پر بٹھاتے ہیں جو مسلمانوں کیخلاف مزیدنفرت کو بڑھاوا دے ۔ مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کی نہ صرف ترغیب دے بلکہ اس حوالے سے ہندو انتہا پسندوں کی سرپرستی بھی کرے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں جب کہیں فسادات ہوئے تو بھارتی پولیس بلوائیوں کی مدد کرتی نظر آئی ۔ یہی نہیں فسادات کی منصوبہ بندی کے دوران بھارتی سرکاری میونسپل ادارے ہندوؤں کی مسلمان آبادی ان کے کاروبار ، گلی محلوں کے نقشوں سمیت منصوبہ سازوں کیساتھ شریک رہے ۔ صرف مسلمان ہی نہیں سکھوں کیساتھ بھی بھارت میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے ۔ا کتوبر 1984 ء میں جب دو سکھ سکیورٹی گارڈز نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کیا تو اس سکھوں سے انتقام لینے کیلئے سیکولر ازم کادعویٰ کرنیوالی کانگرس کے وزراء نیودہلی میں سکھوں کے اجتماعی قتل عام کی نگرانی کرتے رہے ۔ہندوؤں کو پولیس کے ٹرکوں میں سکھوں کے محلوں اور کاروباری مراکز میں پہنچایا گیا ، انہیں آگ لگانے کیلئے پٹرول اور قتل عام کیلئے تلواریں برچھے اور چھوٹا کود کار اسلحہ تک فراہم کیا گیا۔ ٹرانسپورٹ کے محکمہ سے سکھوں کی ٹیکسیوں اور آٹو رکشاؤں کی تفصیلات لے کر کارروائی عمل میں لائی گئی ۔ لیکن عالمی دنیا ان سب فسادات پر خاموش رہی یہاں تک کہ مغربی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں اقلیتوں کیخلاف ڈھائے جانیوالے مظالم پر احتجاج کی آواز بلند کی لیکن عرب ممالک نے مسلمانوں کے قتل عام کی کبھی مذمت تک کرنا گوار نہیں کی ۔
بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی اورانتہا پسندلیڈرون کو یقین ہے کہ انکی طرف سے بھارت میں مسلمانوں پر ڈھالے جانیوالے ظلم پر مبنی ہتھکنڈوں کیخلاف عرب حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ مغربی ممالک کی طرح بھارت میں چرچوں کو آگ لگانے مسیحیوں کے قتل عام اور راحباؤں کی آبروریزی جیسی کارروائیوں پر آنکھیں اور کان بند رکھنے کی پالیسی اپنائیں گے ویسے بھی ماضی میں برپا ہندومسلم فسادات (جنہیں مسلم کش فسادات کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ) پر عرب حکمران کبھی سیخ پانہیں ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد اُتر پردیش میں مسلمانوں کیخلاف اعلانات پر مغرنی ممالک میں تو تشویش کا اظہار کیاجارہا ہے لیکن عرب ممالک یا مسلم امہ خاموش ہے ، آدیتیا ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مساجد کے سپیکروں سے اذان کی بجائے ہندوؤں کے مذہبی نعرے سننا چاہتا ہے ۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کے علاقوں میں ایک بھی ہندو قتل ہوا یا کسی حادثے میں مارا گیا تو اس ایک ہندو کے بدلے وہ دس مسلمانوں کی جان لے گا۔ اس نے مسلمانوں کے قبرستان سے عورتوں اور نواجون لڑکیوں کی میتوں کو نکال کر ان کی بے حرمتی ہندوؤں پر لازم قراردیدی ہے ۔ ہندوؤں کے بھارت میں مسلمانوں کو ووٹ دینے سے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے گی ۔بھارت کو مساجد سے صاف کر کے برہمن ریاست میں تبدیل کیا جائے گا۔ آدیتیا ناتھ کے ان اعلانات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بھارتی ہفتہ روزہ انڈیا ٹوڈے “ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ بھارت میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام جیسے المیے کیلئے تیار ہے ، انسانی تاریخ میں اس سے قبل ایسی بربریت کی کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Bharat Main Aqliaton Ko Hindu Bananay Ka Bhianak Mansuba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 April 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.