چمگادڑ، وائرس اور ہم

دنیا میں سب سے بڑی چمگادڑوں میں''فلائنگ فاکس'' اور'' جائنٹ گولڈن کراونڈ فلائنگ فاکس'' شامل ہیں جن کے ونگز پانچ فٹ سے زیادہ پھیل سکتے ہیں اور ان کا وزن ایک کلوگرام سے زیادہ ہے

اتوار 3 مئی 2020

chamgadar, virus aur hum
تحریر: مہرین فاطمہ

1967ء سے اب تک 10 ایسی وبائیں پھیلی ہیں جس نے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا۔ان میں سے پانچ وبائیں چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرس سے پھیلیں۔
1967ء سے یوگنڈا سے ایک وباپھیلی جس نے 590 افراد کو متاثرکیا۔ان میں 478 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔یہ انتہائی خطرناک تھی کیونکہ اس میں اموات کی شرح 81 فیصد رہی۔

اسے '' ماربرگ'' کا نام دیا گیا۔ جس کا وائرس چمگادڑ سے آیا تھا۔ 1976ء میں''ایبولا''نامی وباجمہوریہ کانگو سے پھیلی جس نے 33687 افراد کو متاثر کیا۔ جن میں سے 14693 افراد ہلاک ہو گئے۔اس میں ہلاکتوں کی شرح 44فیصد رہی۔
1999 میں ملائیشیا سے ایک وبا کا سبب بھی چمگادڑ کی ایک قسم کو قرار دیا گیا،اس ''نیپا،''کہا جا تا ہے،اس سے 496 افراد متاثر ہوئے اور شرح اموات53فیصد رہی۔

(جاری ہے)

2002ء میں چین میں ''سارس''نامی وائرس نے جنم لیا۔اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے اور اموات کا تناسب 10 فیصد رہا۔نیا کرونا وائرس (کووڈ-19)جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس سے لاکھوں افراد متاثر اور لقمہ اجل بن گئے ہیں۔اس کی ابتداء چین کے شہر دوہان سے ہوئی اس کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ اس کی بنیادیں چمگادڑہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انسانوں میں پھیلنے والی75فیصد متعدی امراض کی اساس جانور ہیں جن میں چمگادڑ اور دوسرے میملز شامل ہیں۔

چمگادڑ سے ریبیر(باولیپن)کا مرض بھی منتقل ہو سکتا ہے جو جان لیوا ہو سکتاہے جب یہ ریبیر شکار ہوتی ہیں تو بالآخر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے لیکن مرنے سے پہلے وائرس انسانوں اور جانوروں میں منتقل کر جاتی ہیں۔ریبیر عموما کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے۔متاثرہ چمگادڑ اگر پالتو جانور کو کاٹے گی تو یہ اس میں منتقل ہو جاتی ہے اور پھر انسان میں۔اس مرض کے وائرس کی منتقلی متاثرہ جانور کے لعب کے آنکھ، ناک، منہ،یازخم میں جانے سے بھی ہوسکتی ہے۔

امریکا میں ہر سال چمگادڑوں سے ریبیر سے منتقلی کے ایک یا دو کیسز ہی سامنے آتے ہیں۔چمگادڑوں سے پھیلنے والا نظام تنفس کا ایک مرض ہسٹوپلازموسس کہلاتا ہے۔یہ جانوروں،بشمول چمگادڑوں،کے فضلے میں نمو پانے والی پھپھوندی یافنگس سے ہوتا ہے۔چمگادڑوں میں وائرس''سنبھالنے'' کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔یہ بیمار ہوئے بنا کئی طرح کے وائرس کی پناہ گاہ ہو سکتی ہے۔

اس میں ایسے وائرس پائے جاتے جن کے مستقبل میں انسانوں میں منتقل ہونے کا شبہ ہے۔ان معلومات سے عمومی تاثر قائم ہوتا ہے کہ چمگادڑ ہم انسانوں کے لیے خطرناک ہے۔چمگاڈر اور انسان اکثر دور دور رہتے ہیں یہ عموما دن ڈھلنے کے بعد شکار پر نکلتی ہے جبکہ انسان کے لیے یہ سستانے کا وقت ہوتا ہے اگر انسان اور چمگادڈ اپنی حدود میں رہیں تو خطرہ بہت کم رہ جا تا ہے۔

یہ انسان سے دور رہنے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن انسان چمگادڑ سمیت مختلف جانوروں کے رہائشی علاقوں کو قبضے میں لینے کی راہ پر چل نکلا ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔جنگل کم ہوتے جا رہے ہیں اور بے آباد علاقوں میں انسانی آبادیاں بنتی جا رہی ہیں جس سے جنگلی حیات انسانوں کے قریب آرہی ہے یا ناپید ہورہی ہے۔لوگ جنگلی جانوروں کا بلاوجہ شکار کرتے ہیں۔

بعض چمگادڑ کا گوشت کھاتے یا سوپ پیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چمگادڑ آپ کے گھر یا دفتر میں آجائے،پھس جائے یا زخمی ہو جائے تو اس کے پاس جانے اور چھونے سے گریز کریں۔ اگر یہ آپ کے گھر میں رہنا شروع کر دے تو اسے ہٹانے کا کام احتیاط سے کیا جائے۔ان کی زندگی کا اپنا دائرہ ہے۔چمگادڑیں اڑنے کی استعداد رکھنے والی واحد میمل ہیں۔ یہ اڑنے کے ساتھ رات کو''دیکھ'' سکتی ہیں اور اپنے اندر پائے جانے گونج کے نظام سے اندھیرے میں راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔

کئی علاقوں میں ان کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہوتی ہے۔اس کی ایک مثال''میکسیکن فری ٹیلڈ چمگادر''کی ایک آبادی ہے۔یہ قسم ریاست ہائے متحدہ امریکا سے میکسیکواور جنوبی امریکا تک پائی جاتی ہے۔ایمازون جنگل میں ان کی کثرت ہے البتہ ان کی سب سے بڑی آبادی ٹیکساس(امریکہ)میں واقع بریکن غار میں ہے جہاں دو کروڑ چمگادڑیں رہتی ہیں۔
ان کے مختلف سائز ہوتے ہیں۔

دنیا میں سب سے بڑی چمگادڑوں میں''فلائنگ فاکس'' اور'' جائنٹ گولڈن کراونڈ فلائنگ فاکس'' شامل ہیں جن کے ونگز پانچ فٹ سے زیادہ پھیل سکتے ہیں اور ان کا وزن ایک کلوگرام سے زیادہ ہے۔
حشرات اور پتنگے کھانے والی سب سے بڑی''گنجی چمگادڑ'' ہے۔اس کا وزن 250 گرام ہوتا ہے۔سب سے بڑی گوشت خور ''سپکٹرل چمگادڑ''ہے۔اس کے ونگز دو فٹ ہوتے ہیں۔ناک والی چمگادڑ''بمبلیبی''تھائی لینڈ میں پائی جاتی ہے اور سب سے چھوٹے میملز میں سے ایک ہے۔

اس کے ونگز چھ فٹ اور وزن دو گرام ہوتا ہے۔خصوصا منظقہ حارہ میں یہ کثرت سے پائی جاتی ہیں مغربی افریکہ میں ان کی 100 کے قریب اقسام ہیں۔یہ پولی نیشن اور نیجوں کے پھلاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔چمگادڑوں کی بعض اقسام پولن کھاتی اور پودوں کا رس پیتی ہیں۔کچھ پھل کھاتی ہیں۔پھل ہضم ہونے کے بعد کس مقام پر خادج کرتی ہیں جہاں ایک نیا پودا اگ آتا ہے۔

خونخوار چمگادڑیں مویشیوں کے لئے بعض علاقوں میں مسائل پیدا کرتی ہیں یہ ان میں چھوٹے چھوٹے زخم کر دیتی ہیں اور ان میں ریبیراور مرض النوم جیسے امراض کا سبب بنتی ہیں۔ان کی 1300 اقسام میں تین خون پی کر گزارہ کرتی ہیں۔
حشرات اور پتنگے کھانے والی چمگادڑوں کا فضلہ اب بھی کئی ممالک میں زرعی کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔بارود کی خاطر نائٹروجن اور فاسفورس حاصل کرنے کے لیے ان کے فضلے کو استعمال کیا جاتا رہا۔

امریکی جنگ آزادی میں اس مقصد کے لیے ان کا فضلہ استعمال ہوتا رہا۔۔مغربی ثقافت میں چمگادڑوں کے بارے میں کئی مافوق الفطرت نا موافق باتیں مشہود ہیں۔البتہ کئی مشرقی ممالک میں انہیں خوش قسمتی،طویل العمری اود خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔بحرالکاہل کے چند جزائر میں '' فلائنگ فاکس'' کا گوشت کھا نے کا شکار کرتے ہیں۔
یورپی چڑیا گھروں میں انیسویں صدی کے وسط سے ان کو رکھنے کا رواج ہوا۔انہیں تحقیقی مقاصد کے لیے رکھا جاتا ہے۔ وائرس کی کثرت کے باعث ان پر تحقیقات زیادہ ہو تی ہیں۔کچھ لوگ انہیں پالتے ہیں لیکن یہ آسان کام نہیں،خطرناک اور احتیاط طلب شوق ہے۔ان سے دور رہنے میں ہی بھلائی ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

chamgadar, virus aur hum is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.