کرپشن پر ایکشن فائلوں تک محدود

برطرف ملازمین تاحال ڈیوٹی پر۔۔۔ خادم اعلیٰ پنجاب سمیت ان کی کابینہ کے اکثر اراکین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں کرپیش نہیں ہوتی اور اگر ایک پیسے کی کرپشن بھی ہوئی ہو تو اسے سامنے لایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ یہ دعویٰ میٹروبس اور ٹرین کے پراجیکٹس تک محدود ہو

Syed Badar Saeed سید بدر سعید ہفتہ 27 فروری 2016

Corruption Per Action Files Tak Mehdood
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ کرپشن پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جا ئے گا۔ بظاہر یہ دلفریب نعرہ ہے لیکن حقیقت میں اس پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ خادم اعلیٰ پنجاب سمیت ان کی کابینہ کے اکثر اراکین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں کرپیش نہیں ہوتی اور اگر ایک پیسے کی کرپشن بھی ہوئی ہو تو اسے سامنے لایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ یہ دعویٰ میٹروبس اور ٹرین کے پراجیکٹس تک محدود ہو لیکن پھر بھی سوال اٹھے گا کہ کیا کرپشن کا جانچنے کا پیمانہ صرف یہی منصوبہ ہے؟ اس کے سوا کہیں بھی لوٹ مار کی اجازت ہے ؟ اب تو کرپشن کے بھی کئی طریقے ہیں۔

ریکارڈ بھی درست رکھا جاتا ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دیگر محکموں کی طرح محکمہ سوئی گیس میں بھی ایسا ہی سلسلہ چل رہاہے۔

(جاری ہے)

سر آئینہ کچھ اور نظر آرہاہے لیکن پس آئینہ کچھ اور ہی صورت ہے ۔ رپورٹ کے مطابق کرپشن اور دیگر وجوہات کی بنا پر محکمہ سوئی نادرن گیس نے ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ اب صورت حا ل یہ ہے کہ ریکارڈ میں تو انہیں برطرف کیا جا چکا ہے یہ ریکارڈ دکھا کر داد وصول کی جا سکتی ہے کہ کرپشن کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے دوسری جانب یہ برطرف ملازمین بدستور اپنے عہدوں پر فائز ہیں۔

سوئی نادرن گیس شاہدرہ دفتر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہاں کے انچارج نے اندھیرنگری مچار کھی ہے اور کرپشن کی بنیاد پر نکالے گے افراد کو اہم ڈیوٹیاں سونپ دی ہیں اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ بلیک لسٹ کئے گے ملازمین میں لگ بھگ اٹھارہ افراد کو تاحال اہم ڈیوٹیاں سونپی ہوئی ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ افراد منی فیکٹریوں میں گیس چوری کروا کے ماہانہ لاکھوں روپے ”حصہ“ بھی وصول کر رہے ہیں جس سے محکمہ کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔

یہ صرف ایک محکمہ یا ایک دفتر کی کہانی نہیں ہے سرکاری محکموں میں ”کماو“ ملازمین کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ان پر یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی وجہ سے زیر عتاب آگے تو بھی ان کو سرپرستوں کی جانب سے ”ریلیف“ دیا جائے گا۔ ایسے کماو ملازمین وافسران اگر کسی وجہ سے نظروں میں آجائیں اور ان کے خلاف ایکشن ضروری ہو جائے تب بھی کسی نہ کسی صورت ان کے اختیارات قائم رہتے ہیں۔

انہیں معطل یا برطرف سمجھ کر حصہ دینے والوں کے خلاف کوئی دوسرا افسر ایکشن لے کر باور کروا دیتا ہے کہ مرا ہاتھی سوالاکھ کا ہوتا ہے۔ سرکاری تنخواہ چونکہ ان کے لیے پہلے بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہے اس لئے اوپر کی کمائی، کرپشن میں حصہ دار ی اور باقیوں کے حصے کا خاص خیال رکھنا ہی ان کی سرکاری ڈیوٹی سمجھی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات کرپشن میں شمار نہیں ہوتے ؟ سوال یہ تو بھی ہے کہ کیا معطل اور برطرف کئے جانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی ہو گی ؟ سوال تو کئی ہیں لیکن جواب شاید کہیں نہیں ہے۔

ان افراد کے برطرف ہونے کے باوجود دفتر میں آکر اختیارات استعمال کرنا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ابھی اس مافیا سے جڑے مزید ایسے افراد عہدوں پر فائز ہیں جنہیں اصولاََ برطرف ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Corruption Per Action Files Tak Mehdood is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.