کرپشن یاخود مختاری

سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کئی ادارے آڈٹ نہیں کراتے۔۔۔ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین اور ادارے خود کوکسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ پولیس اہلکار ہی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اکثر اہلکاروں کی موٹر سائیکلوں پر نمبر پلیٹ نہیں ہوتی

پیر 29 فروری 2016

Corruption Ya KhudMukhtari
ہمارے ہاں سرکاری ملازمین اور ادارے خود کوکسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ پولیس اہلکار ہی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اکثر اہلکاروں کی موٹر سائیکلوں پر نمبر پلیٹ نہیں ہوتی۔ ٹریفک وارڈنز اشاروں کی پابندی نہیں کرتے، دیگر سرکاری ملازمین بھی اپنی اپنی سطح پر ” اختیارات“ کے مزے لیتے ہیں۔ اسی طرح اب اہم عہدوں پر فائزبڑے افسران بھی ” میں نہ مانو“ کسی پالیسی پر گامزن نظر آتے ہیں۔

مختلف ادارے قانون سے زیادہ اپنے اختیارات کی حدود پر لڑتے نظر آتے ہیں۔ صورت حال تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل آڈیٹر جنرل اعلانیہ کہتے رہے کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں اور ان سے پارلیمنٹ سمیت کوئی بھی جواب طلب نہیں کرسکتا۔ آج کل سنا ہے وہ اپنی ضمانتیں کراتے پھررہے ہیں اور انہیں مقدمات کاسامنا ہے۔

(جاری ہے)

اب ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے واضح حکم کے باوجود 22سرکاری ونیم سرکاری اداروں نے آڈٹ کرانے سے انکار کردیا ہے ان اداروں کا موقف ہے کہ وہ خودمختار ادارے کے طور پر کام کررہے ہیں۔

ان کا آڈٹ کااپنا نظام ہے اس لئے وہ کسی اورے آڈٹ کروانے کے پابند نہیں ہیں۔ دوسری جانب 8اداروں نے آڈٹ کرانے کے لئے اپنے اکاؤنٹس پیش کردیئے ہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح طور پر ہدایات دی تھیں کہ جو ادارے آڈٹ نہیں کراتے، ان کا آڈٹ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ ادارے قومی خزانے سے فنڈز اور بجٹ حاصل کرتے ہیں۔

دوسری جانب 22ادارے اپنی خود مختاری کادعویٰ کرکے آڈیٹر جنرل سے آڈٹ کرانے سے گریزاں ہیں۔ آڈٹ نہ کروانے والے اداروں میں پیپلز پرائمری ہیلتھ پروگرام خیبر پختونخوا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹرسٹ فار والنٹری آرگنائزیشن، واہ نوبل پرائیویٹ لمیٹڈ، ایگری بزنس سپورٹس فنڈ، پاکستان آرڈ نینس فیکٹری ویلفیئر ٹرسٹ فنڈ بھی آڈٹ کرانے سے انکار کرنے والوں میں شامل ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ان اداروں کے کھاتے شفاف ہیں تو پھرا نہیں آڈٹ سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ ادارے اپنا آڈٹ خود کراتے رہے ہیں اور ان کے یہاں آڈٹ کامکمل نظام موجود ہے تو پھر وہ کیسا نظام ہے؟ اس انکار سے تواداروں کے انٹرنل آڈٹ نظام پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انٹرنل آڈٹ سسٹم کے نام پر دھوکا دیا جاتا ہے اور جعلی آڈٹ رپورٹس تیارکرواکر ٹیکس اوردیگر مد میں قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کیایہ سب سرکاری افسرانو اہلکاروں کی ملی بھگت کے بنا ممکن ہے؟ کیا سرکار ایسی خود مختاری کی قائل ہے جس سے کسی گھپلے کو فروغ دیا جاسکے۔ سوال تو کئی ہیں لیکن خود مختاری کے نام پر قوانین کو تسلیم نہ کرنا یا اپنے لئے بھاگنے کاراستہ تلاش کرنا بذات خود شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہے تو پھریقینا توہین عدالت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Corruption Ya KhudMukhtari is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 February 2016 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.