
داعش اور پاکستانی طالبان رابطے ٹھنڈے پڑ گئے
ابوبکر البغدادی نے طالبان کی بیعت کو باہمی اتحاد سے مشروط کر دیا۔۔۔۔ امریکہ کے ڈرون دسمبر میں پاکستانی طالبان کے سرکردہ لیڈروں کو ہدف بنا رہے ہیں
بدھ 24 دسمبر 2014

عراق اور شام میں قائم ہونے والی دولت اسلامیہ نے مغرب اور امریکہ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور اس تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ اس نومولود ریاست کو ختم کیا جائے امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کو تقریباََ ختم کر دیا ہے۔ امریکی دعویٰ ایک طرف تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کے خلاف ابھی کارروائی جاری ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا دولت اسلامیہ سے اس لئے زیادہ خائف تھے اور ہیں کیونکہ اس کے پاس باقاعدہ زمین کا ٹکڑا بھی موجود ہے جس کو وہ اپنی سلطنت گردانتے ہیں گویا دولت اسلامیہ کوئی تخیلاتی داستان کا ملک نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی ریاست ہے۔ دولت اسلامیہ کی اس مملکت کو امریکہ اس وقت جب وہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہا ہے اپنے لئے سب سے بڑاخطرہ تصور کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
دولت اسلامیہ کی کشتی میں جو طالبان سوار ہوئے انکے خلاف جس انداز سے ایکشن ہوا وہ سب کے سامنے ہے انہیں الگ کر دیا گیا۔ اس علیحدگی کے بعد افغان طالبان کے جنگجو مولانا قہار نے باقاعدہ دولت اسلامیہ کا مبینہ دورہ بھی کیا جہاں افغان طالبان کی مجبوریاں تو دولت اسلامیہ کے کرتا دھرتا کی سمجھ میں آگئیں لیکن پاکستان کے حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا وہ بڑا ہم ہے۔اس فیصلے تحت دولت اسلامیہ کے امیر ابوبکر البغدادی کی طرف سے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے کہا گیا کہ وہ کسی بھی پاکستانی جنگجو سے اس وقت تک بیعت نہیں لیں گئے جب تک کہ پاکستانی طالبان اپنے باہمی اختلافات بھلا کر متحد نہیں ہو جاتے ۔ یہ فیصلہ حال ہی میں مبینہ طور پر اس وفد نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی طالبان کوبتایا جس کی قیادت مولانا زبیر الکویتی کر رہے تھے۔ذرائع کے مطابق اس تین رکنی وفد میں سعودی عرب سے شیخ یوسف اور ازبکستان کے فہیم الہادی بھی ان کے ہم رکاب تھے ۔ اس وفد کے بارے میں ذرائع کا کہنا اس نے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف میں ملاقاتیں کی یہ ملاقاتیں مبینہ طور پر 11 نومبر سے 5دسمبر کے دوران مختلف مقامات پرکی گئیں جن میں قبائلی اور بندوبستی دونوں طرز کے علاقے شامل ہیں۔سرکاری حکام یہ بات ماننے کو سرے سے تیار نہیں کہ کوئی ایسا گروپ یا وفد پاکستان آیا ہے ان حلقوں کا استدلال ہے کہ پاکستان میں دولت اسلامیہ کی کسی بھی سطح پر تنظیم کا وجود ایک وہم سے زیادہ بڑھ کر نہیں تاہم ذاتی پسند یا نا پسند پر پہرے نہیں بیٹھائے جا سکتے۔ اس موقف کے برعکس دولت اسلامیہ کے مبینہ وفد کی تفصیلات بھی بتائی جارہی ہیں تاہم اس تفصیل سے قطع نظراب جو تازہ ترین انکار دولت اسلامیہ کی طرف سے سامنے آیا ہے اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ تمام لوگ جو خود کو پاکستان میں دولت اسلامیہ کا نمائندہ قرار دیتے تھے انکواب اپنی اپنی دکانیں بند کر دینی چاہئیں کیونکہ ابو بکر البغدادی جو خود حالت جنگ میں ہیں وہ کسی منتشر گروپ کو اس لئے ساتھ نہیں ملانا چاہتے کیونکہ اس طرح یہ منفی تاثر دولت اسلامیہ کے بارے میں جائے گا کہ اس تنظیم کو جو خلافت کی بحالی کیلئے نکلی ہے انکی قبولیت ہی مشکوک ہو چکی ہے۔ دولت اسلامیہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انہیں ان جنگجووٴں کی منقسم حمایت کی اس بناء پر ضرورت نہیں کہ اس نے ان لوگوں کوبلا کر متحارب کارروائیوں میں حصہ تو نہیں ڈلوانا تھا بلکہ ایک اخلاقی حمایت درکار تھی جو اگر متحد ہوتی تو دولت اسلامیہ اسے دنیاکے سامنے پیش کرتی کہ اسے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت حاصل ہے لیکن جب ان یہ کوشش الٹا ایسے تاثر کی طرف جارہی ہے جہاں متعلقہ تنظیم میں ان لوگوں ہی کی گنجائش باقی نہیں رہ پار ہی جو داعش کی حمایت کر رہے ہیں تو پھ رابوبکر کی طرف سے یہ عذر جاری ہوا ہے جس میں طالبان کو اتحاد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
دولت اسلامیہ کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے پاکستانی طالبان کے حوالے سے تو ایک اہم فیصلہ کر لیا ہے لیکن افغانستان میں بھی کام جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق وہاں کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ خاصی اہم پیشرفت ہوگی کیونکہ اگر بات منقسم ہونے پر بگڑی ہے تو پھر افغانستان میں حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوں گئے وہاں تو طالبان کی اکثریت ملا عمر کا بہت زیادہ احترام کرتی ہے ایسے میں افغانستان کے اندر بھی دولت اسلامیہ کو کوئی بڑی کامیابی کا ملنا زیادہ آسان نہیں ہوگا۔ اس لحاظ سے تو بعض حلقے افغان طالبان کے مستقبل بارے میں بھی کچھ پاکستان سے ملتی جلتی پیشن گوئی کر رہے ہیں اور قرائن بھی ایسا ہی کچھ ظاہر کرر ہے ہیں لیکن اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کس طرح نفوذ کرتی ہے۔ افغانستان کے بارے میں فیصلہ جلد ہو جائے گا لیکن پاکستان میں بہت سے معاملات اب واضح ہو جائیں گے جبکہ اس انکار کے بعد وہ طالبان جو دولت اسلامیہ اپنے الحاق کی صورت میں خود کو بین الاقوامی درجے کا جنگجو قرار دینے لگے تھے ان کیلئے اپنا میعار نیچے لانے میں ضرورسبکی ہو گی بہرحال یہی وقت کا فیصلہ ہے۔ پاکستان کی داخلی سلامتی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس فیصلے سے ملک کے اندر داخلی استحکام بڑھے گا کیونکہ وہ طالبان جو آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے زیر زمین چلے گئے تھے ان کے سر اٹھانے کی سردست کوئی سبیل نظر نہیں آرہی جو دولت اسلامیہ کیلئے بہتر ہو یا نہ ہولیکن ابوبکر البغدادی کے اس انکار سے پاکستان کے اندر ایک اور ممکنہ فتنہ جو کھڑا ہو سکتا تھا دب گیا ہے۔ حکومتی حلقے اس صورتحال کو آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے ثمرات قرار دے رہے ہیں جبکہ پاکستان کے عسکری حلقوں اور امریکہ کے درمیان اس وقت جو مفاہمت پائی جا رہی ہے اس کے تحت اب سرحد کے اس پار پاکستانی حدود میں بھی جو ڈرون ہو رہے ہیں وہ جاتے دسمبر میں ہی مکمل کئے جائیں گے۔ امریکہ کی ان کارروائیوں سے پاکستانی طالبان کے سرکردہ لیڈروں کو بھی چن چن کرنشانہ بنایا جا رہاہے جو شائد فرست ہینڈ انفارمیشن شئیر نگ کا کمال ہے یا امریکہ نے اپنے سیٹلائٹ کے ذریعے جاسوسی کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ اس کے نشانے ٹھیک ٹھیک لگ رہے ہیں جس سے پاکستان کا داخلی امن مستحکم ہوا ہے اس لحاظ سے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں دیر پا امن کیلئے معاون ثابت ہو رہے ہیں جو خوش کن ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Daaish Or Pakistani Taliban Rabte Thande Par Gaye is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 December 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.