کیا آج کل انسان اپنے اجداد سے زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں؟

برطانیہ میں پیدائش اور اموات کا اندراج سنہ 1841 سے ہو رہا ہے- اس ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 1841 میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 40 سال اور لڑکی کی اوسط عمر 42 سال ہوا کرتی تھی- آج برطانیہ میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 79 سال اور لڑکی کی اوسط عمر 83 سال ہے-

قدیر قریشی جمعرات 25 اکتوبر 2018

Do We really live longer than our ancestors?

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
پچھلی چند دہائیوں میں دنیا بھر میں انسان کی اوسط عمر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے- اقوام متحدہ کے اداروں نے 1960 سے دنیا بھر کے افراد کی اوسط عمر کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا- اسوقت دنیا بھر میں انسانوں کی اوسط عمر 52.5 سال تھی- آج یہ اوسط 72 سال ہے- برطانیہ میں پیدائش اور اموات کا اندراج سنہ 1841 سے ہو رہا ہے- اس ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 1841 میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 40 سال اور لڑکی کی اوسط عمر 42 سال ہوا کرتی تھی- آج برطانیہ میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 79 سال اور لڑکی کی اوسط عمر 83 سال ہے-
جدید طبی ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کی بہتری کی وجہ سے انسان کی اوسط عمر مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے- لیکن اب یوں لگتا ہے کہ انسان اپنی زیادہ سے زیادہ طبعی عمر تک پہنچنے والا ہے جس کے بعد انسان کی اوسط عمر کو مزید بڑھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا- برطانیہ میں افراد کی اوسط عمر میں اضافے کی شرح صفر ہو گئی ہے اور تمام دنیا میں اوسط عمر کے بڑھنے کی شرح کم ہو رہی ہے-
انسان کی اوسط عمر (average life expectancy) اور انسان کی طبعی عمر (average life span) دو مختلف چیزیں ہیں- انسان کی average life expectancy ایک شماریاتی تصور ہے جس میں ہر مرنے والے کی عمر شمار کی جاتی ہے اور اس ڈیٹا سے اوسط عمر کیلکولیٹ کی جاتی ہے- اگر کسی معاشرے میں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے تو اس معاشرے کی اوسط عمر کم ہوگی۔

(جاری ہے)

اس کے برعکس انسان کی طبعی عمر کا تصور یہ ہے کہ اگر انسان اگر کسی موذی بیماری کا شکار نہ ہو اور طبعی موت مرے تو اس کی عمر کتنی ہو گی۔ اس عدد میں بچپن یا جوانی میں مرنے والوں کی عمر شامل نہیں کی جاتی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو افراد 40 سال سے زیادہ عمر پاتے ہیں ان کی اوسط عمر کتنی ہوتی ہے۔ پچھلی کئی صدیوں سے انسان کی طبعی عرم کم و بیش ایک ہی رہی ہے اور اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔
اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں جن میں سے ایک 70 سال کی عمر میں وفات پائے لیکن دوسرا ایک سال سے کم کی عمر میں ہی وفات پا جائے تو اس شخص کے بچوں کی اوسط عمر 35 برس شمار ہو گی- یہ اوسط ہمیں بنیادی طور پر بچوں کے ماحول سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے- جس معاشرے میں بیماریاں زیادہ ہوں گی اور دواؤں تک پہنچ کم ہو گی اس معاشرے میں انسان کی اوسط عمر بھی کم ہو گی- اب سے کچھ صدیاں پہلے تک اکثر معاشروں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں- آج بھی کئی ملکوں میں بنیادی طبی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ اس وجہ سے تاریخی طور پر انسان کی اوسط عمر نسبتاً کم رہی ہے اور کچھ ترقی پذیر ملکوں میں انسانوں کی اوسط عمر اب بھی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے- مثال کے طور پر طبی سہولتوں کے مکمل فقدان کی وجہ سے قدیم یونان میں لوگوں کی اوسط عمر صرف 30 سے 35 سوال ہوا کرتی تھی- لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ اس زمانے میں 30 سال کے افراد کو بوڑھے تصور کیا جاتا تھا۔
ہمیں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ قدیم یونان میں لوگ لمبی عمریں بھی پاتے تھے- قدیم یونانی مصنفین عمومی طور پر اس بات کے حق میں تھے کہ 30 سال سے کم عمر کے لوگوں کو کوئی سیاسی عہدہ نہ دیا جائے- یونانی کونسل کا ممبر بننے کے لیے کم سے کم عمر کی حد 43 سال تھی۔ ان دنوں کی دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو سو برس یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہے- پرانی قبروں کے لوحِ مزار پر بھی بعض اوقات مرنے والے کی عمر لکھی ہوتی تھی- اس زمانے کے ایسے لوحِ مزار موجود ہیں جن میں مرنے والے کی عمر سو سال کے لگ بھگ لکھی گئی ہے- چنانچہ یہ بات تو طے ہے کہ آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے بھی کچھ لوگ سو سال کے لگ بھگ کی عمر پاتے تھے- تاہم ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے زندگی گذارنا ان دنوں میں انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا۔
ہم یہ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ ان دنوں اوسطاً کتنے لوگ سو سال یا اس سے زیادہ کی عمر تک پہنچ پاتے تھے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے 1994 میں قدیم یونان کے لگ بھگ چار سو ایسے افراد کی عمروں پر تحقیق کی گئی جو سنہ 100 قبل مسیح سے پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کی عمروں کے بارے میں قابلِ اعتبار ریفرنسز موجود ہیں- ان لوگوں کی median عمر 72 سال تھی یعنی ان میں سے آدھے لوگوں کی عمر 72 سال سے کم اور باقی آدھے لوگوں کی عمر 72 سال سے زیادہ تھی- 100 قبل مسیح کے بعد پیدا ہونے والے یونانی افراد کی medianعمر 66 سال پائی گئی- اس فرق کی وجہ غالباً یہ تھی کہ لگ بھی اسی زمانے میں یونان میں جست یعنی lead کے پائپ پانی کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے لگے تھے- آج ہم جانتے ہیں کہ lead poisoning انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے- اسی lead poisoning کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی اوسط عمریں کم ہو گئیں۔ اس کے برعکس سنہ 1850 عیسوی اور 1949 عیسوی کے درمیان وفات پانے والے افراد کی اوسط عمر 71 سال تھی جو 100 قبل مسیح کی اوسط عمر کے تقریباً برابر ہے-
لیکن سنہ 100 قبل مسیح سے متعلق یہ سٹڈی بہت زیادہ قابلِ اعتماد نہیں ہے- اس سٹڈی میں صرف مشہور مردوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ اس سٹڈی میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ تمام کے تمام مرد امیر خاندانوں سے لیے گئے تھے جن کے پاس بہت سی سہولیات موجود تھیں۔ چنانچہ اس سٹڈی سے ہم صرف یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے یونان کے امیر مردوں کی طبعی عمر کم و بیش وہی تھی جو آج ہے۔ کچھ ماہرین کی رائے میں اس سٹڈی سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی کم و بیش یہی عمر پاتے تھے- تاہم کچھ اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس زمانے میں متوسط طبقے کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور سوائے چند امیر خاندانوں کے کسی کے پاس ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں جن سے عام انسان اتنی لمبی عمر پا سکتے-
سنہ 2016 میں ایک نئی سٹڈی شائع کی گئی جس میں 2000 کے لگ بھگ قدیم رومن ڈھانچوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو عام شہریوں کے تھے جنہیں عام قبروں میں دفن کیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر ڈھانچوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مرنے والوں کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی- ان کہ ہڈیوں کی حالت زار سے ظاہر تھا کہ یہ لوگ سخت محنت کش مزدور طبقے کے لوگ تھے اور ان میں سے اکثر کو جوڑوں کی بیماریاں مثلاً آرتھرائٹس یعنی جوڑوں کا درد لاحق تھیں- مزدوری اور حادثات کی وجہ سے بہت سے ڈھانچوں میں ٹوٹی ہڈیوں کے آثار بھی موجود تھے-
ان ڈھانچوں میں مردوں اور عورتوں کے ڈھانچے تقریباً برابر تعداد میں تھے- اس زمانے میں خواتین نہ صرف کھیتوں میں سخت محنت کرتی تھیں بلکہ اوپر تلے حمل اور بچوں کی پیدائش بھی انہیں ادھ موا کر دیتی تھی- اس کے علاوہ بہت سی خواتین بچوں کی پیدائش کے عمل کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں- ہم جانتے ہیں کہ حمل کے دوران خواتین کا مدافعتی نظام کچھ کمزور پڑ جاتا ہے اور ان دنوں میں خطرناک بیماریوں کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے- پرانے زمانے میں خواتین میں حمل کے دوران ٹی بی کا خطرہ خصوصی طور پر زیادہ ہو جاتا تھا۔ تاریخی طور پر انسانوں کے پاس خوراک کی قلت رہتی تھی- ایسی صورت میں مردوں کو زیادہ غذائیت بھری خوراک دی جاتی تھی جبکہ خواتین کو کم خوراک میسر ہوتی تھی- اس وجہ سے لڑکیوں میں کمر کے نیچے کی ہڈیاں یعنی pelvic bones درست طور پر نشونما نہیں پاتی تھیں جس کا نتیجہ حمل میں پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا تھا۔ چنانچہ ان دنوں میں صرف ان عورتوں کی اوسط عمر زیادہ ہوتی تھی جن کے بچے نہ ہوں یا کم ہوں۔
اس کے علاوہ پیدائش کے بعد تقریباً ایک تہائی بچے پہلے سال میں ہی وفات پا جاتے تھے- آدھے سے بھی کم بچے دس سال سے زیادہ عمر پاتے تھے- البتہ جو شخص تیس سال سے زیادہ زندہ رہتا اس کے دیر تک زندہ رہنے کے امکانات روشن ہو جاتے تھے کیونکہ ایسے لوگ بہت مضبوط مدافعتی نظام کے مالک ہوتے تھے- ایسے افراد عموماً ساٹھ سے ستر سال کی عمر پاتے تھے- کچھ سخت جان لوگ اسی سے نوے سال تک بھی زندہ رہتے تھے- چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادھیڑ عمر تک پہنچنے والے لوگوں کی اوسط عمر اس زمانے میں بھی قریب قریب وہی ہوتی تھی جو آج کل ہے لیکن ادھیڑ عمر تک پہنچنے کا امکان کم ہوتا تھا کیونکہ زیادہ تر لوگ بچپن یا جوانی میں ہی کسی بیماری یا بھوک اور افلاس کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے تھے-
جنوبی امریکہ اور افریقہ کی قدیم تہذیبوں میں کسی بچے کے 15 سال کی عمر تک پہنچنے کا امکان تقریباً 50 فیصد ہوا کرتا تھا- لیکن جو بچے بلوغت تک پہنچ جاتے تھے ان کی اوسط عمر 51 سے 58 سال کے لگ بھگ ہوتی تھی- آج کل بھی کچھ ایسے قبیلے موجود ہیں جو جدید زندگی سے بالکل الگ تھلگ جنگلوں میں رہتے ہیں۔ ایسے قبیلوں میں پیدائش کے وقت اوسط عمر 30 سے 37 سال ہے لیکن جو لوگ بلوغت تک پہنچ جائیں ان کی طبعی عمر 65 سے 67 سال تک کی ہوتی ہے-
سنہ 1200 سے سنہ 1800 کے عرصے میں یورپ کے باسیوں کی اوسط عمر سے متعلق بہت سا ڈیٹا دستیاب ہے- اس زمانے میں جو خوش نصیب 21 سال تک زندہ رہ پاتے (یعنی جو شیر خوارگی یا بچپن میں بیماری کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئے) ان کی اوسط عمر 62 سے 70 سال کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ اگرچہ یورپی بادشاہوں اور لارڈز کے پاس بے انتہا دولت ہوتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس دولت کی حفاظت کے لیے انہیں مسلسل جنگوں میں شریک ہونا پڑتا تھا- اس وجہ سے اس زمانے میں بادشاہوں اور لارڈز کی اوسط عمر دیہاتیوں کی اوسط عمر سے کم ہوتی تھی- لیکن جب سائنس کا دور شروع ہوا اور امراء نے جدید طبی سائنس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا تو جنگوں کے باوجود امراء کی اوسط عمر دیہاتیوں کی اوسط عمر سے زیادہ ہو گئی-
قدیم معاشروں کے بارے میں اب تک جو ڈیٹا دستیاب ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان کی اوسط عمر یعنی average life expectancy جتنی آج کل ہے اتنی پہلے کبھی نہیں رہی- جدید طبی سہولیات کی وجہ سے شیرخوار بچوں میں اموات کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کی اموات کی شرح بھی مسلسل کم ہو رہی ہے- اس وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ طبعی عمر تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں- لیکن انسان کی طبعی عمر میں کوئی زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے بھی انسان کی طبعی عمر کم و بیش وہی تھی جو آج ہے- یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ہاں جو قصے مشہور ہیں کہ پرانے زمانے میں لوگوں کی عمریں کئی سو برس کی ہوتی تھیں یا ان کے قد کئی گز لمبے ہوتے تھے یہ تمام محض قصے یا حکایات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں- انسان کی طبعی عمر کئی صدیوں پر محیط ہونا ممکن نہیں ہے-
(بی بی سی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Do We really live longer than our ancestors? is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2018 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.