”ڈاگ کریسی“

9 اکتوبر کا ہی واقعہ لے لیا جائے تو سیالکوٹ میں ایک پاگل کتے نے 23 افراد کو کاٹا۔ متاثرین ہسپتال گئے تو وہاں انہیں کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین کی کمیابی کا منہ دیکھنا پڑا۔

محمد راحیل وارثی جمعرات 24 اکتوبر 2019

Dog Cracy
پالتو کتے قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ اُن کے مالکان اُن کی ہر طرح سے ناز برداری کرتے ہیں، اُن کی خوراک کا خصوصی رکھا جاتا ہے، صفائی ستھرائی کے بہتر بندوبست ہوتے ہیں۔ دوسری طرف گلی محلوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کو بدنصیب گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اُن کو دانے دانے کے لیے جگہ جگہ کی خاک چھاننا پڑتی اور بے پناہ جتن کرنے پڑتے ہیں۔

سارا سارا دن اِدھر سے اُدھر پھرنے کے باوجود اُن کے پیٹ کے دوزخ کے بھرنے کا بندوبست نہیں ہوپاتا۔ اسی کوشش میں بعض زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ زخمی ہوجانے والے سگ خاصے خطرناک ٹھہرتے اور پاگل قرار پاتے ہیں۔ ”ہمارے ناز اُٹھانے والا کوئی نہیں۔“ پچھلے کچھ عرصے سے ایسا لگنے لگا ہے کہ آوارہ اور پاگل کتے اس امر پر سخت نالاں ہیں اور پالتو کتوں کی قسمت پر رشک اور اُن سے سخت حسد کرنے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

اسی لیے تو خود کو نظرانداز کرنے پر بطور احتجاج لوگوں کی بوٹیاں نوچنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ شاید وہ ”ڈاگ کریسی“ کی اصطلاح متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے عوام النّاس میں خاصا خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ”ڈاگ کریسی“ کے رواج کے لیے یہ کمر کس چکے اور رات گئے تک مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں ٹولیوں کی شکل میں دندناتے دِکھائی دیتے اور راہ گیروں و موٹر سائیکل سواروں کو خصوصی نشانہ بناتے ہوئے ہلابول دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔

گویا ملک بھر کے عوام برسہا برس دہشت گردی کی لپیٹ میں رہنے کے بعد اب ”کتا گردی“ کی زد میں ہیں۔
متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے اور اس کا موثر تدارک نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہی کوئی نہ کوئی فرد سگ گزیدگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے اس حوالے سے ہولناک اطلاعات آرہی ہیں۔

9 اکتوبر کا ہی واقعہ لے لیا جائے تو سیالکوٹ میں ایک پاگل کتے نے 23 افراد کو کاٹا۔ متاثرین ہسپتال گئے تو وہاں انہیں کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین کی کمیابی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے کچھ روز بعد کراچی کے علاقے ایف سی ایریا میں ایک سب انسپکٹر سمیت 25 افراد ایک پاگل کتے کا شکار بنے۔ لیاقت آباد ایف سی ایریا میں دہشت پھیلانے والے کتے کی لاش جب جھاڑیوں سے ملی تو عوام نے سکون کا سانس لیا۔

کراچی کے متاثرین جب سرکاری ہسپتال پہنچے تو وہاں کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین ناپید تھی۔ محض ان واقعات پر ہی کیا موقوف ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر سگ گزیدگی کے کئی واقعات پیش آتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے تمام شہروں میں آوارہ کتے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور شہری انتظامیہ ان پر قابو پانے یا ان کے خاتمے پر توجہ دینے سے قاصر اور اس حوالے سے اقدامات کرنے سے یکسر عاری دِکھائی دیتی ہیں۔

عوام کو آوارہ اور پاگل کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو اس کے انسداد کی دوا سرکاری ہسپتالوں میں عنقا ہوتی ہے۔ سگ گزیدگی کے شکار لوگوں کی جانب سے زندگی کو تحفظ دینے کے لیے یہ ویکسین خریدنے کی بھی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ پہلے ہی ملکی آبادی کے تناسب اور ضروریات کے مطابق انسدادِ سگ گزیدگی کی ویکسین کمیاب ہے، اوپر سے حکومتیں کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین کی فراوانی کے دعوے بڑے طمطراق سے کرتی ہیں۔

سچ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ امر حقیقت سے پرے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ گزشتہ ماہ لاڑکانہ میں کتے کے کاٹنے اور انسداد کی ویکسین نہ ملنے پر سسک سسک کر بچے کی موت کئی سوال چھوڑ گئی ہے، جن کے جواب سنجیدگی سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اس واقعے کو دیکھ کر ماضی کے دریچے وا ہوجاتے ہیں کہ جب کسی کو کوئی کتا کاٹ لیتا تھا تو اُس کی موت یقینی ہوتی تھی اور اس دوران وہ پاگل ہونے کی صورت میں اگر کسی دوسرے انسان کو کاٹ لیتا تو اُس کا بھی موت کے منہ میں جانا یقینی ہوتا تھا، کیونکہ اُس دور میں اینٹی ریبیز ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو اُس وقت اگر کسی کو کوئی کتا کاٹ لیتا تھا تو اُس کے اپنے اُسے شہر اور آبادی سے دُور جنگلوں میں درختوں کے ساتھ رسیوں سے باندھ کر مرنے کے لیے چھوڑ آتے تھے کہ وہ ناصرف پاگل ہوچکا ہوتا تھا بلکہ سگ کی طرح حرکتیں بھی اُس سے سرزد ہونے لگتی تھیں۔

وہ رسیوں سے بندھے بندھے ہی عقل و شعور گنوانے کے بعد کچھ ہی وقت میں اپنی زیست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا تھا۔ اُس زمانے کے لوگوں کو سفّاک مت سمجھیے گا کہ اُن کے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا اس سے بہتر اور کوئی دوسرا راستہ یا حل موجود نہیں تھا۔
اب جدید دور ہے، دُنیا نے بہت ترقی کرلی ہے، انسداد سگ گزیدگی کی ویکسین بھی موجود ہے۔ ایسے میں خدارا یہاں کی حکومتیں بھی اس کا ادراک کریں، عوام کو تحفظ دیں اور ملک کے طول و عرض کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں اینٹی ریبیز دواوٴں کی آبادی کے تناسب سے فراہمی یقینی بنائیں۔

اس کے علاوہ تمام شہروں کے عوام کو آوارہ اور پاگل کتوں سے نجات کے لیے سنجیدہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ تمام شہروں کی انتظامیہ موثر حکمت عملی ترتیب دیں ، جس کے تحت اقدامات کرتے ہوئے آوارہ اور پاگل کتوں سے عوام کی جان چھڑائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Dog Cracy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 October 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.