فیصل آباد کا دھوبی گھاٹ

دھوبی گھاٹ جہاں دامن دھلتے تھے ، اب یہاں سیاستدان اپنے سیاسی حریفوں کے دامن کو الزامات سے داغدار کرتے اورایک دوسرے پہ کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ اپنی سیاسی شناخت سے پہلے یہ میدان مذہبی رواداری کی ایک مثا ل بھی رہاہے

Ghazanfar Natiq غضنفر ناطق جمعہ 19 جولائی 2019

faisalabad ka dhobi ghaat
فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ کا شمار ملک کے اہم سیاسی جلسہ گاہوں میں ہوتا ہے۔یہاں ہونے والے جلسوں نے کئی سیاسی تحریکوں میں نئی روح پھونکی اور کئی سیاسی جماعتوں کو نئی زندگی بخشی۔یہاں کئی سیاسی اتحاد بنے اور کئی سیاسی اتحاد ٹوٹے بھی۔۔۔جو سیاسی جماعت یہاں لوگوں کی کثیر تعداد کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتی وہ اسے اپنی کامیابی تصور کرتی۔

فیصل آباد کا دھوبی گھاٹ جو اب نصف رہ چکا ہے مگر شہر والوں کی وسیع القلبی دیکھئے کہ اِسے وسیع میدان ہی کہتے ہیں۔سیاسی منظر بدلنے والے اِس میدان کے اپنے منظر بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ یہاں کبھی اینٹوں کا بھٹہ ہوا کرتا تھااور جیسے کہ نام سے ظاہر ہے یہاں کبھی دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

دھوبی گھاٹ جہاں دامن دھلتے تھے ، اب یہاں سیاستدان اپنے سیاسی حریفوں کے دامن کو الزامات سے داغدار کرتے اورایک دوسرے پہ کیچڑ اُچھالتے ہیں۔

 
اپنی سیاسی شناخت سے پہلے یہ میدان مذہبی رواداری کی ایک مثا ل بھی رہاہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں بسنے والے ہندو اِس میدان میں دسہرہ کا تہوارمناتے اور مسلمان عیدین کی نمازیں ادا کرتے۔۔ یوں کہیے کہ اِس کھلے میدان پہ کسی مذہب کا اجارہ نہیں تھا۔ یہ گراؤنڈ تھا تو سب کا سانجھا مگر نام الگ الگ تھے۔ ہندو اِسے دسہرہ گراؤنڈ کہتے اور مسلمان عید گراؤنڈ۔

۔۔
یہاں 1932 ء میں مہاتما گاندھی نے خطاب کیا۔نومبر 1942ء میں قائداعظم لائل پور آئے تو دھوبی گھاٹ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، پاکستان ضرور بنے گا اور لائل پور کو اِس میں اہم مقام حاصل ہو گا۔دھوبی گھاٹ کے قریب واقع ایک کوٹھی میں قائداعظم نے قیا م کیا تھا۔سرخ اینٹوں والی یہ کوٹھی بیلوں سے ڈھکی رہتی تھی اور اِس کا چوبی پھاٹک اکثر بند رہتا۔

یہ کوٹھی 2001 ء تک قائم رہی ، پھراِسے گِرا کرایک ریسٹورنٹ بنایا گیا اور اب یہاں ایک نجی بینک کی عمارت ہے۔
دھوبی گھاٹ قیامِ پاکستان کے بعد بھی اہم سیاسی جلسہ گاہ رہا۔فیصل آبادکے اِس دھوبی گھاٹ میں کئی سیاسی نعرے بلند ہوئے جن کی گونج ایوانوں تک پہنچی۔یہیں روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ گونجا۔ یہیں نو ستارے چمکے اور ایسے چمکے کہ بھٹو کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔

یہیں بے نظیر نے بھی سیاسی مخالفین پر تیر برسائے، یہیں مسلم لیگ ن کا شیر دھاڑتارہا۔کوئی آٹھ سا ل پہلے یہاں کچھ درخت اور پودے لگائے گئے ، مگریہاں پھول نہیں کھلتے اورجہاں ایسی دھواں دار تقرریں ہوتی ہوں وہاں بھلا پھول کیسے کھلیں۔۔۔؟
2018ء میں یہ میدان تبدیلی کے نعروں سے ایسا گونجاکہ جو شہر مسلم لیگ کا قلعہ تھا اب پی ٹی آئی کا شہر بن گیا ہے۔

یہاں سیاسی نعرے ہی نہیں، مذہبی کانفرنسیں اور دیگر مذہبی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔
دھوبی گھاٹ میں کبھی مشاعرے بھی منعقد ہوا کرتے تھے اور شہر والے یہاں شعروں پہ سر دھنتے اور واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتیں۔شاعریہاں داد سمیٹتے ہوئے جاتے اور سننے والوں کو آئندہ مشاعرے کا انتظار رہتا۔ یہاں مشاعرے کی روایت تو مدت ہوئی دم توڑ چکی ہے۔دھوبی گھاٹ کا نام اقبال پارک رکھا گیا، مگر شہر والے اِسے دھوبی گھاٹ ہی کہتے ہیں، حالانکہ نہ اب یہاں دھوبی ہیں اور نہ گھاٹ۔۔۔۔اور لطف کی بات یہ بھی ہے کہ اِس سے متصل سڑک کو کوتوالی روڈ ہی پکارا جاتا ہے جبکہ شہر میں نہ کوئی کوتوال ہے اور نہ کوتوالی۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

faisalabad ka dhobi ghaat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.