میرے بچپن کے دوست ابرا ہیم بٹ صا حب میرے سا تھ چا ئے پینے کیلئے اصرار کر رہے تھے ۔ میں نے انھیں اپنے گھر بلا لیا پھر میں نے انھیں چا ئے اپنے ہا تھو ں سے بنا کر پیش کی ۔ ہم دیگر سیا سی با تو ں میں محو گفتگو تھے کہ اچا نک بٹ صا حب کہنے لگے ۔''یار تمھارے خیال سے ''فرد قا ئم ربط ملت سے ہے یا نہیں ''۔ایک لمحہ کیلئے میں خامو ش ہو گیا اور چا ئے کی چسکی لگانا بھو ل گیا ۔
میں نے عرض کیا بٹ
صا حب جس معا شرے میں ، میں اور آپ رہ رہے ہیں ۔اس میں ہر شحض ایک نعرہ لگا رہا ہے ۔ کہ فر د کی گر دن رسو م و قیو د سے جلد از جلد آ زاد ہو نی چا ہیے۔کو ئی انسانی آ زادی کی آ ڑ میں جبر و قدر سے انکار کربیٹھا ہے ۔ کسی نے خودی کا نام لے کر ملک و ملت کا شیرا زہ منتشر کر دیا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نام نہاد آ زادی نے بے لگا می اور بد تہذیبی کا روپ اختیار کر لیا۔
(جاری ہے)
اور انسان اس قدر مست ہو کر رہ گیا ہے کہ آ ج وہ نسل کشی اور
سما جی دشمنی پر اتر آ یا ہے ۔
افرا د کی وقوت بڑھا نے کے لیے اس نے ملت کا گلہ گھو نٹ دیا ہے ۔ شخصی وقار حاصل کر نے کے لیے اس نے سو سا ئٹی کو بے دریغ قتل کر دیا ۔ انسان نے خود کو بلند کر نے کے لیے سا ری دنیا کا ستیاناس کر دیا ہے ۔ دیکھا جا ئے تو جب ہمارے بزرگ بچپن کی منزل کو طے کر رہے تھے تو انہوں نے آ زا دی کا نعرہ بلند کر تے ہوئے ما ں با پ کی خد مت سے انکار کیو ں نہ کر دیا ، جب وہ جوانی کی چھا ؤ ں میں پل رہے تھے ۔
تو انھوں نے دوستو ں اور احباب سے منہ کیو ں نہ مو ڑ لیا ۔ جب آپ پیر ی کے دلدل میں پھنس گئے۔ تو اب قدم قدم پر آ پ خوشیو ں کے خواہاں کیو ں ہیں ؟
ایک طرف تو کما ئی ہو ئی دو لت تو ہے ، یہ دو لت تو ہے لیکن آپ کے قلب کی مسرت نہیں بن سکتی ۔ جس معا شرے نے آپ کو پال پو س کر آپ کی شخصیت کو نکھارا اور اس قا بل بنا یا ۔ انصا ف کا تقا ضا تو یہ تھا کہ آپ بھی اس کا مفید رکن بنتے ۔
ہا ں علا مہ اقبال اپنی شا عری اور پرواز تخیل کے اعتبار سے دنیا کے جلیل القدر شا عر تھے لیکن ان کے کلام سے عظمت اسلا می کی رو ح اور ملت اسلامیہ کا درد نکال دیں تو بٹ صاحب بتا ئیں کہ کو ئی پاکستانی ان کی شا عری سے متا ثر ہو گا ۔ قا ئد اعظم اپنی جلا لت کے اعتبار سے لا کھ قا بل سہی لیکن پاکستانی قو م کا تخیل نکال دیں کیا وہ اہمیت با قی رہ جا تی ہے ۔
معا شرے کو جب بھی نظر انداز کیا جا ئے گا کو ئی انسان انسان اور کو ئی فر دفر د رہ سکتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں سب نے بڑے بڑے قلعہ شکن پیدا کیے ۔ لیکن کا میاب وہی ہوا جس نے قوم اور سو سا ئٹی کو سا تھ لے کر عمل کی دنیا میں قدم رکھا ۔ اب ایک ارادہ قو م کا ارادہ ہو گیا ۔ ایک کی ہمت قو م کی ہمت ہو گئی ۔ ایک کی طا قت قو م کی طا قت ہو گئی ۔
پہلے ایک دل تھا لا کھ دل ہو گئے ۔ پہلے ایک مرنے والا تھا اب لا کھ مرنے وا لے ہو گئے۔ ہو سکتا ہے فر د کی کو ششو ں کو ناکام بنا دیا جا ئے ۔ اس کو مجبو ر کیا جا ئے ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ستاروں کا اپنا حسن نہیں ہو تا لیکن آ فتاب تازہ پر انھیں مدھم ہونا پڑتا ہے ۔
جنگل کا را جہ محض ایک شیر ہو تا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چند گیڈروں نے مل کر شیر کی نیا مت کر لی ہو ۔
شیر بہر حا ل شیر ہے خواہ اس کے لیے گیڈروں کا معا شرہ ہو یا نہ ہو ۔ قا ئداعظم اور علا مہ اقبال اسلامی سو سا ئٹی کے ایک رکن تھے لیکن دو نو ں کی زندگی ہمیشہ جا ہل قو م سے پیکار کرتے ہوئے گزری جو انہوں نے سو چا قو م نے اسے رد کر دیا ،پھر بھی آ ج علا مہ اقبال کا تخیل پروان چڑھ رہا ہے ۔ قا ئداعظم کا مشن پھل پھو ل رہا ہے ۔ اگر فر د سو سا ئٹی کے مشوروں اور معاشرے کے بتائے ہوئے اصو لو ں پر نگاہ رکھے تو وہ قو م کا ایک بہترین دوست ثا بت ہو سکتا ہے ۔
ایک قطرے سے طو فا ن بننے کا تصور سمندر کی آ غوش میں ہے ۔ سا حل کے دوش پر نہیں جو فر د اپنی ملت سے را بطہ استوار رکھتا ہے ۔ اسے ہر ایک قدم پر فتح و ظفر کی نشا نیاں ملتی جا ئیں گی۔ لیکن جس نے اس نظا م سے علیحدگی اختیار کی ،بہت ممکن ہے وہ اپنی مو ت آپ ہی مر جا ئے ۔ بٹ صا حب نے اپنی چا ئے پی لی ، اور میری ٹھنڈی کروا دی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔