ہے طرز تخاطب کا انداز ہمارا کچھ یوں

سوچا جاتا ہے کہ بھئی شوہر سے جب تک دوستی نہ ہو زندگی اچھی نہیں گزرتی اور دوستوں کو نام سے ہی بلایا جاتا ہے کیا یہ میاں جی ،ان کو ،انھیں کہہ کربلایا جائے پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ نام سے مخاطب کر کر دوستی قائم کرلی جاتی ہے مگر پھر چند دن بعد ہی احساس ہوجاتا ہے کہ کچھ غلط ہورہا ہے نام سے مخاطب کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ان کی عزت نہیں کرتی

مبشرہ خالد ہفتہ 23 مارچ 2019

hai tarz e takhatub ka andaaz hamara kuch yun
وہ آدم اور حوا کا ملاپ ہی تھا جس نے دنیا کی تخلیق کا مقصد پورا کیا اور آج ہم سب آدم اور حوا کے ملاپ کی ہی نشانیاں ہیں جو پوری دنیا میں بسی ہوئی ہیں اور ان کے ملاپ کی طرح آج بھی مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہیں اور نکاح کے تین بول ایک انجان مرد اور عورت کو میاں بیوی میں تبدیل کردیتے ہیں اور ایک اٹوٹ بندھن قائم ہوجاتا ہے مگر اس اٹوٹ بندھن کی بنیاد پیار ،محبت ،عزت پر رکھی جائے تو یہ بندھن قبر تک ساتھ نبھاتا اور نہیں تو راستے میں ہی ساتھ چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ اس بندھن میں سب سے اہم عزت ہوتی ہے ایک مرد بھی محبت کے بغیر رہ جاتا ہے مگر عزت کے نہیں اور ایک عورت بھی عزت کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اسے عزت دی جائے ۔


اس بندھن میں بے پناہ خوبیاں ہوتی ہیں وہ شخص جو کبھی کسی کا بھی خیال رکھنا پسند نہیں کرتا اسے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب کوئی ہے جس کا خیال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے جسے دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنا پسند ہوتا ہے وہ سوچتا ہے کہ کوئی گھر میں اس کا انتظار کررہا ہے 
اور وہ لڑکی جسے صبح بستر سے اٹھنا دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے وہ اب بستر سے اٹھنے کی صرف شوہر کی خاطر روادار ہوتی ہیں کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص صبح سے شام تک دفتر میں سر صرف اس کی خاطر کھپا رہا ہے تاکہ اسے سرد و گرم سے بچا سکے۔

(جاری ہے)

اسے اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو پہلے دفتر سے گھر واپسی میں باہر بھی کھا پی کر پیٹ بھر لیتا تھا اب گھر بھوکا لوٹتا ہے تاکہ اس کا ہاتھ کا بنا کھانا کھاسکے ۔وہ لڑکی جو پہلے سجنے سنورنے کو اہمیت نہیں دیتی تھی اب دیتی ہیں کیونکہ اسے دیکھ کر کوئی اس کی تعریف کرتا ہے۔ 
 اس رشتے کی سب سے انمول بات جو لڑکیاں اپنی دادیوں اور نانیوں سے سنتی آرہی ہوتی ہیں پہلے تو خوب ان کے انداز کا مذاق اڑاتی ہیں ان کو آؤٹ ڈیٹٹ پرانی سوچ کی حامل خواتین کہتی ہیں مگر جب خود اس رشتہ میں جڑتی ہے تو پھر ان کو مان جاتی ہے کہ یہی ہے شوہر کو عزت دینے کا انداز انھیں سرکا تاج اور مجازی خدا ماننے کا طریقہ اور وہ ہے طرز تخاطب کتنا عجیب لگتا ہے نہ جب دادی دادا کو شاہد کے ابا کہہ کربلاتی ہے اور پھر اماں ابا کو میاں جی کہہ کر مخاطب کرتی ہے خوب مذاق اڑاتی ہیں یہ کہہ کر دادی آج اسکو ل میں مس نے اردو گرامر میں کنیت پڑھائی تھی کہ کنیت اسے کہتے ہیں جس میں والد یا والدہ کو بچہ کے نام سے جوڑ کرمخاطب کیا جاتا ہے جیسے رابعہ کی ماں سچ میں مجھے تو ہنسی آگئی آپ بھی تو دادا کو ایسی انداز میں بلاتی ہے اور پھر جب امی ابو کو میاں جی کہہ کربلاتی ہے تو کان میں کہا جاتا ہے ابو کا نام بھی ہے شادی سے پہلے ان طرز تخاطب کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے۔

 
سوچا جاتا ہے کہ بھئی شوہر سے جب تک دوستی نہ ہو زندگی اچھی نہیں گزرتی اور دوستوں کو نام سے ہی بلایا جاتا ہے کیا یہ میاں جی ،ان کو ،انھیں کہہ کربلایا جائے پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ نام سے مخاطب کر کر دوستی قائم کرلی جاتی ہے مگر پھر چند دن بعد ہی احساس ہوجاتا ہے کہ کچھ غلط ہورہا ہے نام سے مخاطب کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ان کی عزت نہیں کرتی اس لیے پھراپنی اماں کی طرح میاں جی کہنا شروع کردیا جاتا ہے اور پھر دوستوں میں کہا جاتا ہے طرز تخاطب کا انداز میرا کچھ یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہ میں میاں جی کہتی ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

hai tarz e takhatub ka andaaz hamara kuch yun is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.