حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکام کیوں؟

ٹرمپ کا یروشلم دھماکہ․․․․․․․․ فلسطین کے مسائل حل کرنے کی بجائے عرب ممالک کی باہمی تفریق مسائل کی جڑ ہے

منگل 2 جنوری 2018

Hakomat National Action Plane Per Amal Dramad Main Nakaam Q
کرنل (ر)اکرام اللہ:
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یروشلم کو یہودیوں کی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر ایک ایسا عالمی دھماکہ کیا ہے جو نہ صرف فلسطین کی مسلمان ریاست کی آزادی کی سالمیت اور بقاء کیلئے بلکہ پوری مسلم دنیا کے لئے ایک خوفناک وراننگ ہے جو نائن الیون سے بھی زیادہ تباہ کن ہے۔

اس کے ردعمل کے طورپر مسلم ممالک کے علاوہ پوری دنیا نے جس شدت سے احتجاج کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی امریکی صدر کے اعلان پر عالمی احتجاج کا نوٹس لیا ہے او آئی سی نے فوری طور پر اپنے سربراہان کا اجلاس طلب کیا جس میں شرکت کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباس اپنے تمام ملکی معاملات چھوڑ چھاڑ کر تشریف لے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

پورے پاکستان میں احتجاجی جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا ملک گیر احتجاج جاری ہے جس کے دوران مال روڈ لاہور پر امریکی جھنڈا بھی نذر آتس کیا گیا ہے، اس سلسلے میں 13 دسمبر بروز بدھ وار پاکستان نیشنل فورم نے بھی اپنے ایمرجنسی اجلاس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کی ریاست کا دارالخلافہ قرار دینے کے اعلان کو اقوام متحدہ کے آئین اور قانون کے برخلاف ایک تاریخی اور تباہ کن بلنڈر قرار دیا جس کے عالمی امن پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

بظاہر دیکھنے میں ایک عام انسان بھی فوری طور پر بلا تاخیر یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ یہ اعلان مسلمانوں کی ریاست فلسطین کو درپیش سنگین مسائل حل کرنے اور علاقہ میں امن بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں بلکہ بیت المقدس کو یہودی ریاست کا دارالحکومت ہونے کا واشنگٹن سے اعلان کرکے امن کی اقوام متحدہ کی طرف سے کی جانے والی اب تک کی تمام کاوشوں پر پانی پھیر کر علاقے کے امن کو سبوتاژ کیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں عرب لیگ کے ممبر ممالک اور او آئی سی کے مسلمان ممالک اپنی حالیہ بلائی گئی کانفرنس میں کیا مثبت معنی خیز اورٹھوس فیصلے کرتے ہیں جبکہ انتہائی افسوس ناک کڑوا سچ یہ ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر امریکی صدر نے انتہائی مکاری سے ایک نیا ورلڈ ایشو پیدا کردیا ہے۔ فلسطین کے مسائل حل کرنے کی بجائے عرب ممالک کی باہمی تفریق بلکہ باہمی جنگ اور او آئی سی کے ممالک کے درمیان سیاسی اقتصادی تجارتی اور دفاعی وحدت کا فقدان بذات خود مسائل کی جڑ ہے ، اس لئے اسرائیل یا امریکہ کا کسی بھی ایشو پر مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی دنیا میں جس تعاون اور یکجہتی کی ضرورت ہے تو جب اس کی روح غائب ہے تو اسلام کی مخالف قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کیوں نہ کریں گی، یہ عمل جس کا بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر نے اعلان کیا ہے صدیوں پرانا مغرب کا خواب ہے ۔

ایک زمانہ تھا جب اسلامی سلطنت یورپ کے مشرق میں ویانا اور آسٹریا کی ریاست تک پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ کلیسہ کے یہودی اسلام سے اس کا بدلہ چکانے کی کوشش میں صدیوں سے CRUSADEمیں مصروف رہے جو آج بھی جاری ہے۔ فورم نے متفقہ طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی جرات صرف اس بناء پر کی ہے مسلم دنیا کے 58 ممالک آپس میں باہمی انتشار کا شکار ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران پورے کرہ ارض کے سب سے زیادہ سٹرٹیجک جغرافیائی خطہ ارض پر کنڑول رکھنے کے باوجود اپنی بے پناہ طاقت سے کیوں بے خبر اور لاپروا ہوتے ہوئے غیروں پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی سے کروڑوں بلین ڈالر اپنی دولت کو اسلامی دنیا کے عوام کی بہتری اور ترقی کی طرف توجہ دینے سے مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کیوں؟۔ پاکستان نیشنل فورم نے ترکی کے صدر طیب اردگان کی طرف سے بلائے گئی ہنگامی اجلاس سربراہی کانفرنس کو سراہا۔ بعض ممبران نے اس خواہش کااظہار کیا کہ آبادی، قدرتی وسائل اور دنیا کی واحد مسلم نیو کلیئر پاور ہونے کے ناطے اسلام کا مضبوط قلعہ ہونے کی حیثیت میں کاش یہ سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوتی اور پوری دنیا کو ایک طاقتور پیغام دیا جاتا کہ یروشلم میں جنگ کے شعلے بھڑکا کر پوری دنیا کے امن کو خطرہ میں نہ ڈالا جائے ، اگر تمام مسلم ممالک اپنا سرمایہ مغربی بینکوں سے نکال کر اسلامی دنیا میں منتقل کرنے کا اعلان کردیں اور اسی طرح تمام عرب اور دیگر مسلم ممالک اپنے سفیروں کو امریکن صدر کے یروشلم کے بارے میں اپنا اعلان واپس لینے تک اپنے سفیر واشنگٹن سے واپس بلالیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے ان جرات مندانہ اقدامات کی چین اور روس کے علاوہ تیسری دنیا کے کئی ممالک بھی عالم اسلام کا ساتھ دیں گے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جانی پہچانی وجوہات کی بناء پر جن کو تفصیل سے قلمبند کرنا ضروری نہیں پاکستان کے انٹرنل سیاسی، اقتصادی ، مالی ، معاشی اور خصوصاََ امن وامان کے حوالے سے پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں کی بناء پر جن میں دہشت گردی اور ہرقسم کی انتہاء پسندی کے علاوہ کرپشن اور گڈگورننس کے فقدان کا اس قدر ودر دورہ ہے کہ ہم اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کرانے کیلئے قانون نافذ کرنے والی ساری ایجنسیاں بمعہ پولیس اور رینجرز کے چکر میں آجاتی ہیں۔ فیض آباد کا دھرنا ہی دیکھ لیجئے کہ بالآخر امن بحال کرنے کیلئے حکومت کو فوج کی مدد لینا پڑی ، نتیجہ یہ ہے ہم کئی سال سے حالت جنگ میں ہیں اور پارلیمنٹ نیشنل ایکشن پلان کو منظور کرنے کے بعد اس کے 75 فیصد آرٹیکلز پر عملدرآمد کرنے میں ابھی تک ناکام ہے جن میں پرائیویٹ سطح پر مذہبی مدرسوں کو ریگولیٹ کرنا شامل تھا جس حکومت سے اتنا چھوٹا سا مسئلہ حل نہ ہوسکے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اسلامک سربراہی کانفرنس کیسے بلائے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hakomat National Action Plane Per Amal Dramad Main Nakaam Q is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.