ہیپی نیوائیر

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی مغرب کی اندھادھند تقلید کرتے کرتے ہماری نوجوان نسل کس ڈگر پر چل رہی ہے

منگل 1 جنوری 2019

happy new year
 کنول زریں
آج کل ہیپی نیوائیر کا فیشن دن بدن پروان چڑھ رہا ہے۔
شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہ جنوری کے شروع ہوتے ہی ہم2019ء میں قدم رکھ دیں گے۔اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پر جوش نظر آتا ہے ۔بڑے پیمانے پر کارڈز کے تبادلے ایس ایم ایس کے ذریعے اور کہیں نئے سا ل کے موقع پر پر تکلف جشن کا اہتمام کیا جا تا ہے ۔
دنیا بھر میں غیر مسلم سال نو کا جشن منانے کے لئے زور وشور سے تیاریاں کررہے ہیں لیکن مسلمان نوجوان کس ڈگر پر چل رہے ہیں ۔

مغرب کی اندھادھند تقلید کرتے کرتے اپنی روایات سے ہٹ رہے ہیں ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا کبھی غیر مسلموں نے مسلمانوں کے تہواروں کو اس قدر جوش وخروش سے منایا ہے ؟نہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے اورا گر ہوا ہے تو بہت کم لیکن جس طرح ہمارے ملک میں سال نو کے جشن کی تیاریاں عروج پر جاری ہیں ۔

(جاری ہے)

بہت سی منصوبہ بندیاں کی گئی ہیں۔ رقص وسرور کی محافل سجانے ‘دعوتوں کا اہتمام مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔

بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے ۔
اربوں روپے کا ضیاع ہو گا اگر ان فضول اخراجات کو جوڑا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ امت کا جان ومال ووقت کہاں صرف ہورہا ہے ․․․․․!!اگر سال نو کا جشن منانے والے یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں توانہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے دن کا آغاز غروب آفتاب اور رات کے آغاز سے ہی ہوجاتا ہے ۔

یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہلال کی رویت ہوتی ہے ۔
ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ یہ لوگ کیا اسی اعدادو شمار سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھتے عید الفطر اور عیدالاضحی نہیں مناتے؟سچ تو یہی ہے کہ سب کچھ ایسا ہے تو پھر آج ہمارے نوجوان کس ڈگر پر چل رہے ہیں ۔چرس کے سگریٹ سلگائے ‘سڑکوں پرغل غپاڑہ وغیرہ کرتے اپنے آنے والی نسلوں کو کونسا سبق سکھا رہے ہیں ۔


کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ ان کو آخر کس بات کی خوشی ہے ۔آج کا نوجوان غیروں کے تہوار منانے کے لئے پوچھنا چاہتا ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار منانے میں آخر حرج کیا ہے ؟
سنواے مسلمانوں اے اللہ کے بندوں مسیحی اقوام کے باطل عقائد ‘نظریات اور تہواروں میں ایک تہوار نئے سال کا بھی ہے ۔
نئے سال کا تہوار مختلف تغیر ومراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر آج ایک عالمی غل غپاڑے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔

اصل رومی کیلنڈردس ماہ پر مشتمل تھا جس میں 304دن تھے۔ کچھ مورخین کے مطابق 713قبل مسیح میں بادشاہ”نیوماپومپیلیس“نے اس کیلنڈر میں مزیددو ماہ کا اضافہ کردیا۔
153قبل مسیح سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ یکم جنوری کو قونصل شہروں کی دیکھ بھال کے لئے تعینات کئے جانے والے سرکاری افسران مقرر کئے جاتے تھے اور اس تقرری کو انتظام وانصرام کا اہم ترین خاصہ سمجھا جاتا تھا۔


تقرریوں کے حوالے سے اس دن کا انتخاب کیوں کیا جاتا تھا ۔اس حوالے سے مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ جنوری کا تعلق رومی لفظ جینس سے ہے جو اہل روم کے نزدیک آغاز اور تبدیلی کا دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور اسی بناء پر جنوری کے مہینے کی پہلی تاریخ کو سال کی شروعات کے لئے منتخب کیا گیا ہے حالانکہ اسکے بعد کیلنڈر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں لیکن پھر بھی آج تک نئے سال کی شروعات یکم جنوری سے ہی کی جاتی
 ہے۔


موجودہ جنوری رومیوں کے دیوتا جینس سے ہی منسوب ہے لہٰذا یہ جشن سال نوخاص جینس دیوتا کے لئے ہی منایا جاتا تھا جو آج ایک ہیپی نیواےئر کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔اب بھی ہمیں کسی چیز اور دلائل کی ضرورت ہے ۔کیا اب بھی ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں سے پٹی نہیں اتری کہ ان کے حساب سے ہی سہی لیکن آج تو ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان قدم آخرت کی طرف مزید بڑھ گئے ہیں کیا ان کو اس بات کا پتا نہیں ؟ اگر ان سے پوچھیں تو جواب ملے گا ہر گز نہیں۔

ان سب بتوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی ہے جو ان کو کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی۔لمحہ فکر یہ ہے!
2018ء اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور2019ء شروع ہونے جارہا ہے ۔ان نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ ان کو کیا یہ معلوم ہے کہ یہ کون ساہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب معذرت یا نفی میں ہی ہوگا۔
عقل کے بنددر یچے کھولیں تو ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ رات11بج کر59منٹ سے 12بجے کے درمیان صرف ایک سیکنڈ کا فاصلہ ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ایک ساعت میں نیا میں کون سی ایسی عجیب وغریب تبدیلی رونما ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش وحواس ہی کھوبیٹھتے ہیں ۔کیا ہماری پاکیزہ روایات،مذہبی تعلیمات اور صاف ستھراتمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا استقبال اسی انداز میں کریں ؟یقینا نہیں۔ ہمارا یہ طرز عمل ہماری تعلیمات اور ہماری روایات و اقدار سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا۔


بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی روایات واقدار کو پہچا ننا ہو گا کسی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اپنے خالق حقیقی کے سامنے سر بسجو د ہونا ہماری دینی تعلیمات کا حصہ ہے ۔ہمارا ذھن لوگوں کی فلاح و بہود کی طرف کیوں نہیں جاتا؟کیوں ہم یہ نیک قدم نہیں اٹھاتے کہ سال کی پہلا دن ہے کو ئی اچھا عمل ہی کرلیتے ہیں تا کہ پورا سال نیک عمل کی تو فیق ملتی رہے۔


اجنبی ثقافت اور مغربی تمدن کی اندھادھند تقلید کا بڑا اور بنیادی سبب ہمارے اندررچایاجانے والا احساس کمتری ہے ۔انگریز برصغیر پر ایک طویل عرصہ حکمرانی کرنے کے بعد واپس اپنے وطن سدھار گیا مگر یہاں کے باشندوں پرا پنی فری سوچوں کی ایک گہری چھاپ چھوڑ گیا اپنی خالص اور صاف ستھری روایا ت واقدار کے بارے میں معذرت خواہا نہ رویہ اورمغر بی انداز فکر کو قابل فخر سمجھنا دراصل اسی فکری ہماری کا نتیجہ ہے جسے اہلِ درد نے خوئے غلامی کہا ہے۔


آج کے کچھ مادہ پرست ،حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان اسی تہذیب پر رال ٹپکا رہے ہیں ۔نیا سال قمری ہو یا خواہ شمشی اس کی ابتدا اپنے ذاتی محاسبے سے کرنی چاہئے۔ہلڑی بازی سے اجتناب برتتے ہوئے اپنے آپ کو حتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے کہ جو سال بیت گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا جو غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیں اس نئے سال کی ابتدا ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ کریں اپنی تمام ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری سے سر انجام دیں ۔


معاشرے میں بسنے والے فراد کے حقوق کا خیال رکھیں اسی طریقے سے ہم سال نوکی ابتدا کرکے مثبت اور تعمیری نتائج کی امید رکھ سکتے ہیں ۔جہاں تک نئے سال کے فنکشن میں ان خرافات کا تعلق جن کو ہر سلیم الفطرت اور باوقار انسان غلط سمجھتا ہے تو اسلام انہیں بدرجہ اولیٰ لغوقرار دیتا ہے ۔اسلام نے چھچھورے پن کی حوصلہ افزائی خلوت میں نہیں کی تو فنکشن میں کیسے کر سکتا ہے چاہے وہ فنکشن نیوائیر کا ہویا مذہبی۔


بہر حال ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے نیوائیر منانے کی جوروش زور پکڑ رہی ہے اس کے منفی پہلوؤں کی جانب توجہ دینا ازحد اہم ہے ورنہ ہیں اپنی روایات اور شناختیں کھودینے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
مغرب کی تہذیب کا مکمل بائیکاٹ کرکے اپنی دینی وقومی روایات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ چھوڑ کر جائیں جس میں ہمارے خالص اور صاف ستھرے تمدن کا عکس پوری طرح چھلکتا ہوں۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
 موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

happy new year is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 January 2019 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.