حقوق نسواں کا بیانیہ اور کچھ قابل غور پہلو

سوال پیدا ہوتا ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا یہ ایک ڈیڑھ فیصد ایلیٹ کلاس طبقہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے گوبر اور مٹی سے لتھڑے لوئر کلاس طبقے کی عورت کو آج تک کون سا ریلیف پہنچا سکا ہے؟

Tahir Ayub Janjuah طاہر ایوب جنجوعہ جمعہ 6 مارچ 2020

haqooq e naswan ka biyania aur kuch qabil e ghor pehlu
دنیا میں سب سے پہلا عالمی یوم خواتین 19 مارچ 1911 کو منایا گیا تھا، اس سے پہلے 1908 اور بعد میں 1977 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک بل منظور کیا جس میں یہ طے کیا کہ خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو باقاعدہ طور پر منایا جائے گا- جس کا مقصد مَردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور لوگوں میں عورتوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے پیش قدمی کی ترغیب دینا تھا، یہ دن خواتین کی جدوجہد کی علامت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے- اس کا پس منظر 1908میں 15 ہزار محنت کش خواتین کا کام کے طویل اوقات کار،کم تنخواہوں، ووٹ کا حق لینے جیسے مطالبات منوانے کے لئے نیویارک کی سڑکوں پر نکلنا تھا-
 28 فروری 1909 کے دن کو امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے پہلی بارخواتین کے قومی دن کے طور پر منایا- 1910 میں ورکنگ ویمن کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی، جس میں Clara Zetkin (جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما) نامی عورت نے خواتین کے عالمی دن کے نظریے کو پیش کیا۔

(جاری ہے)

17ممالک کی 100 سے زائد خواتین نے اس تجویز کو متفقہ منظور کیا اور ہر سال اس دن کو منانے کا فیصلہ ہوا۔ 1911 میں کوپن ہیگن میں اس اتفاقی فیصلے کے بعد آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں بھی عالمی یوم خواتین یعنی (IWD) باقاعدہ طور پر منایا جانے لگا-
اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا اور عورتوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے خواتین سے متعلق تمام امتیازی قوانین اور رویوں کو ختم کرنے کے لئے ایک کمیشن (CEDA) تشکیل دیا اور تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ خواتین کے حوالے سے سیڈا کنونشن کے مطابق قانون سازی کریں-
 خواتین کے عالمی دن سے متعلق اس تاریخی پس منظر کے حقائق جاننے کے بعد ہم اب اس پھڈے کی طرف آتے ہیں،جو پچھلے کئی دنوں سے جاری ہے، اور جس میں ملک کی دائیں اور بائیں بازو کی دونوں قوتیں باہم گتھم گتھا ہو چکی ہیں، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، بلکہ دو تین دن پہلے کے ایک ٹاک شو کی گرما گرمی نے تو اخلاق و شائستگی کے تمام دامن بھی تار تار کر کے رکھ چھوڑے ہیں-
 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاں معاشرتی روایات اور خاندانی نظام میں بھی بے شمار پیچیدگیاں موجود ہیں، لیکن ان روز مرہ مسائل کی آڑ میں ''میرا جسم میری مرضی '' کا جنسیت آلود نعرہ لگا کر عورتوں کے حقوق کا مطالبہ ایک عجیب و غریب منطق ہے، جس کو دیکھتے ہوئے معتدل مزاج حلقوں کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں،'' میرا جسم میری مرضی'' کے سلوگن سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ کیا عورت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا جسم ہے؟ کیا عورت کے تمام سماجی،معاشی مسائل کا حل اس کی جنسی آزادی سے ہی ممکن ہے؟ اور کیا جنسی آزادی سے لوئر اور مڈل کلاس طبقے کی عورت کے استحصال سے چھٹکارا ممکن ہے؟
 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اس میں جنس کی بنیاد پر دیکھا جائے تو خواتین معاشرے کا 45فیصد بناتی ہیں۔ لیکن اگر دیگر اعداد و شمار، خاص طور پر WHO اور UNICEF کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو انتہائی گھمبیر تصویر سامنے آتی ہے۔پاکستان کی شرح خواندگی 58 فیصد ہے لیکن خواندگی کا پیمانہ اپنا نام لکھنا اور پڑھنا ہے- اس طرح اس میں خواتین کی شرح خواندگی 25فیصد بتائی جاتی ہے جو کہ عالمی حوالوں سے انتہائی کم ہے۔

ڈھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے اور ان میں سے ایک کروڑ 37لاکھ لڑکیاں ہیں۔ محنت کی منڈی میں خواتین کا حصہ 15.8 فیصد ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ پھر حکمران اور درمیانے طبقے کی مخصوص سماجی غلاظتوں کے زیر اثر موجودہ یونینز میں خواتین کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابرہے- 65فیصد اور کچھ اندازوں کے مطابق 75 فیصد خواتین کو بیماری یا زچگی کی حالت میں جدید صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔

ہر ایک لاکھ زچگیوں میں 275 خواتین کی موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ کچھ اندازوں کے مطابق یہ ڈھائی لاکھ سالانہ سے بھی زیادہ ہے- 35فیصد خواتین کا وزن نارمل سے بھی کم ہے اور 65 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں- یہ اعدادوشمار محنت کش خواتین کے استحصال اور ظلم و جبر کا ایک معمولی سا عکس ہیں،اور یقیناً مکمل تصویر پیش نہیں کرتے بلکہ ان تمام اور دیگر اشاریوں کی شرح اس سے کہیں زیادہ بلند ہے-
 اسی طرح پچھلے کچھ عرصے میں گھروں پر کام کرنے والی معصوم لڑکیوں پر تشدد کے پے در پے واقعات کا منظر عام پر آنا، آئے روز فیکٹریوں میں نوجوان لڑکیوں پر جنسی تشدد کے واقعات، میڈیکل کالجز،یونیورسٹیز،بینک،ملٹی نیشنل اداروں میں خودکشیوں اور دوسرے مختلف طریقوں سے مرنے والی حوا کی بیٹیوں اور ان کے روزمرہ جنسی استحصال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ حقوقِ نسواں کے نام پر شروع کی گئی اس مہم کی حیثیت ایک دلفریب نعرے سے زیادہ کچھ نہیں، جب کہ متذکرہ بالا اعداد و شمار اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ حقوقِ نسواں کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے جاری اس دھینگا مشتی کا عورتوں کے حقیقی مسائل اور ہر طرح کے معاشی، جنسی اور طبقاتی استحصال سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں،اور یقیناً یہ فرنشڈ کمروں میں بیٹھ کر لاکھوں کے میک اپ ڈریسز اور امپورٹڈ طلائی زیورات سجائے چند بانکی، سجیلی اور چلبلی عورتیں صنفٍ نازک کے ان حقیقی مسائل سے بالکل بھی نابلد اور ناآشنا ہیں،اور اپنی ہم جنسوں کو اس استحصال سے بچانے کا ذرا برابر بھی فہم و ادراک نہیں رکھتیں، اور نہ ان کے انداز اور روئیے سے کسی بھی طرح سے معاشرتی اقدار و روایات کے بوجھ تلے دبی عام عورتوں کے لئے خیر کا کوئی ایک پہلو بھی نکلتا نظر آتا ہے- 
یہاں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا یہ ایک ڈیڑھ فیصد ایلیٹ کلاس طبقہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے گوبر اور مٹی سے لتھڑے لوئر کلاس طبقے کی عورت کو آج تک کون سا ریلیف پہنچا سکا ہے؟ پچھلے کتنے عرصے سے مختلف سیمینارز، میڈیا چینلز،ٹاک شوز، اور دوسری ادبی محفلوں میں عورت کے مسائل پر ڈیبیٹس نے عورت کے مسائل کو حل کرنے میں اب تک کتنا موثر اور کتنا اہم کردار ادا کیا ہے؟ کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حوا کی بیٹیوں پر ذہنی،جسمانی، تشدد اور معاشی استحصال میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے،بلکہ اکثر تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی ہی اپر کلاس عورتیں فائیو سٹار ہوٹلز کے کسی لگزری سیمینارز میں ایسے ہی رنگے برنگے اور پرکشش نعروں سے لہو گرمانے کے بعد گھر آ کر گھریلو ملازماؤں پر جسمانی تشدد اور ذہنی ٹارچر میں پیش پیش ہوتی ہیں -
اسی طرح حقوق نسواں“ کی علم بردار تنظیموں نے بھی عورتوں کے نام کی دکانیں چمکا کر اس استحصالی نظام پر کون سے تیر برسائے ہیں؟ اور کون سے زخموں پر مرہم رکھا ہے؟ سوائے اس کے کہ کسی ایک واقعے کو ذاتی تشہیر،یا بیرون ملک سے پیسوں کی بھیک مانگنے یا کاروباری مفادات کی بڑھوتری کیلئے استعمال کرنے کے بعد عورت کو پھر حالات کے رحم و کرم پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا-
 آج حقیقت یہ ہے کہ جس طبقے کے خیال کے مطابق مولوی نے عورت کو چادر اور چار دیواری میں قید کر رکھا ہے اسی طبقے نے دوسری انتہا میں عورت کو ننگا کر کے منڈی کی زینت بنا دیا ہے- یقیناً یہ ایک تلخ حقیقت ہے،کیونکہ ہمارے معاشرے کا نصف حصہ خواتین کی اکثریت پر مشتمل ہے جو شعور و آگاہی کے باوجو آج بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں، اِ ن تمام حا لات کے پیش نظر آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملکِ عزیز میں ''میرا جسم میری مرضی'' کے جنس آلود نعرے کے بجائے خواتین کے استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے پھینکنے کا کوئی اور قابلِ قبول لائحہ عمل مرتب کیا جائے، تاکہ حقیقی معنوں میں حقوقٍ نسواں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیا جا سکے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

haqooq e naswan ka biyania aur kuch qabil e ghor pehlu is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.