ہم شرمندہ ہیں

مولانا طارق جمیل جنہوں نے اللہ کے سامنے 22 کروڑ عوام کا مفسر ہونے کا حق ادا کیا ۔ان کی دعا کے القابات وہ القابات تھے جو ہماری روزانہ کی دعا کا ٹھوس حصہ ہیں

Hamna Afzal حمنہ افضل منگل 28 اپریل 2020

Hum Sharminda Hain
اس حکومت کے پیچھے بڑی سرکار ہے۔اس حکومت کے پیر بوٹوں میں ہیں۔حکومت عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔یہ غیر سنجیدہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی۔حکومت اندرونی چپقلش کا شکار ہے۔جلد کھلاڑیوں کی ٹیم میں فارورڈ بلاک بننے جارہا ہے۔حکومت صرف ون مین گیم ہے۔گیم کے دیگر کھلاڑی بس اپنے مفاد کے لئے کھیل رہے ہیں۔ڈیل ہونے جارہی ہے۔ڈیل ہوگئی ہے۔

بیماری ملکی ڈاکٹروں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔سفر علاج سے مشروط ہے۔واپسی عوامی جدوجہد کے لیےہے۔
یہ فقرے جو کرونا سے پہلے ہمارے ملک کے معتبر اور سینئر صحافیوں کے زبان عام تھے۔ ہر پروگرام اور تجزیے میں یہ معلومات اتنی سنجیدگی کے ساتھ بیان کی جاتی رہی کہ میرے سمیت ہر عام عقل و فہم انسان اس معلوماتی مصالحوں پر بنی ڈش کھانے کے لئے بیتاب رہا۔

(جاری ہے)

لیکن مصالحے پورے تھے نہ ڈش کا کوئی اہتمام تھا  بس لوگوں کو اکٹھا کرنے اور اپنی دکان چلانے کے لئے چمچ ہلانے  کا شور رہا۔
شور مچانا، گرجنا، بن بادل برسنا ہمارے سمیت دنیا بھر کے میڈیا کا خاصہ عام ہے اور شاید اسی کی بنیاد پر میڈیا ترقی کی مضبوط عمارتیں قائم کر رہا ہے۔اب کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ بنیاد جھوٹ، فریب، چاپلوسی، چرب زبانی اور نوسربازی کی اینٹوں پر مبنی ہو۔


23اپریل 2020 کو احساس پروگرام کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے بنی گلہ میں وزیراعظم  عمران خان کے زیر اہتمام ٹرانسمیشن منعقد کی گئی۔ اس ٹرانسمیشن کے مقصد کی روشنی ملک کے جانے مانے  نامور صحافیوں کی موجودگی سے مزید پھیلتی رہی۔اس نیک اور سماجی مدد پر مبنی ٹیلی تھون کا اختتام عالم دین مولانا طارق جمیل کی دعا پر کیا گیا۔
شام کے تقریبا سات بجے ٹیلی تھون کا اختتام پذیر ہونا اور پرائم ٹائم پر اینکرز کا ٹیلی تھون کے ہر پہلو  کا مشاہدہ ایک جزوی عمل تھا۔


لیکن شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ اس بار کنٹنٹ مذہبی راہگیر مولانا طارق جمیل کی دعا سے اٹھایا جائے گا۔مولانا طارق جمیل جنہوں نے اپنی دعا میں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے نہ صرف مجموعی طور پر  ہماری کوتاہیوں، خامیوں، گناہوں کا اعتراف کیا بلکہ میڈیا کے جھوٹ برائی کا سہارا لینے  کا ذکر بھی کیا۔
میڈیا جو ہمیشہ آزادی رائے کا علمبردار رہا ہے۔

آزادی رائے سوچ جو میڈیا کی جدوجہد کے باعث پنجے گاڑنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔وہ میڈیا آج آزادی رائے کے استعمال پر اتنا کیوں بھڑک رہا ہے؟؟
مولانا طارق جمیل کے ایک جملے سے شکاریوں نے جس طرح موضوع دبوچا اور عوام کو تابع لانے کے لئے عوام کا استعمال کیا (کہ مولانا نے 22 کروڑ عوام کو کیوں کہا کہ ہم جھوٹے، گناہ گار، نافرمان ہیں)۔ یقینا یہ صحافتی داؤ پیچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سو کالڈ سچے میڈیا نےکیا آج تک کوئی جھوٹ نہیں بولا؟ کیا انہوں نے عوام کو کبھی بیوقوف نہیں بنایا؟ اگر ایسا ہے تو یہ ییلوجرنلزم کیا ہے؟صحافتی بھیڑ میں کالی بھیڑےکیوں عام ہیں؟۔مختلف چینلز کے مالکان کالے دھن سے سچائی کا چورن کیوں بیچ رہے ہیں؟۔لفافہ لغت کیوں صحافیوں سے منسوب ہے؟ بیرونی طاقتوں کا دباؤ کیوں چینلز کی  ہرحرکت سے جھلکتا ہے؟اسلام کے نام پر ریٹنگ مقصد عام کون بنا رہا ہے؟؟
یقینا یہ تلخ حقائق میڈیا کے بنیادی جز ہیں اور اس پٹڑی پر چلنے والا ہر شخص خواہ نیک ہو یابد ان سب سے بخوبی آگاہ ہے۔

پھر کیوں کچھ صحافیوں کو آئینہ دیکھنے میں شرم محسوس ہوئی؟ آئینہ بھی ایسا  جس نے چہرے کے نقش و نقوش واضح کرنے کی بجائے  بس سائے کی جھلک دکھائی۔۔
مولانا طارق جمیل جنہوں نے اللہ کے سامنے 22 کروڑ عوام کا مفسر ہونے کا حق ادا کیا ۔ان کی دعا کے القابات وہ القابات تھے جو ہماری روزانہ کی دعا کا ٹھوس حصہ ہیں۔بڑے سے بڑا بادشاہ جب حقیقی بادشاہ کے سامنے جھکتا ہے تو اسی عاجزی کا اظہار کرتا ہے کہ میں گنہگار ہوں، خطا کار ہوں،  غفلت کا شکار  ہوں، بے یار و مددگار ہوں۔

۔۔ تو معاف فرما۔۔۔
میرے خدایا! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے علاوہ کون مومن  ہےجو یہ دعوی کر سکے کہ میں پاک، نیک اور گناہوں سے مبراہوں۔ ۔پھر یہ کچھ طاقت کے نشے میں چور صحافی کیسے دعوی کر رہے ہیں  کہ یہ گناہوں سے پاک ہیں اور صحافتی قلم نے کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیا۔
مولانا طارق جمیل جو اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ انہوں نے کسی شخص، گروپ یا چینل کو ٹارگٹ نہیں کیا۔

اس کے باوجود وہ اپنے الفاظ پر  بلا جواز معافی بھی مانگ چکے ہیں۔
جبکہ ذرائع کا نام لے کر لوگوں کی شادیاں، لوگوں کی طلاقیں، عدالتوں کے فیصلے اور قومی سلامتی کے امور پر من گھڑت بھاشن،حکومتیں بنانے اور گرانے کے فتوے، اس سب گند پر تو کسی صحافی، اینکر نے کبھی معافی نہیں مانگی۔سچ کہتے ہیں معافی مانگنے میں پہل کرنا  بڑے ظرف والوں کا کام ہے۔


سوشل میڈیا پر اسی موضوع پر بحث ہورہی ہے اور ہر کوئی اپنے طریقے سے آزادی رائے کا حق استعمال کر رہا ہے۔لیکن تسکین دہ پہلو یہ ہے کہ نہ صرف عام عوام بلکہ میڈیا اور صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والی بیشتر شخصیات بھی ان بھٹکے ہوئے اینکروں سے متفق نہیں۔اس وقت جہاں کچھ چیدہ چیدہ لوگ مولانا پر کیچڑ پھینک رہے ہیں وہیں سوشل میڈیا صارفین اور صحافتی کمیونٹی میں سے ہی مولانا کے حق میں آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔


مختلف صحافیوں نے ٹویٹر پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے لکھا:
یہ کڑوا ہے، ننگا ہے پر سچ ہے۔
جس طرح سیاست میں گاڈ فادرز ہیں اسی طرح میڈیا میں بھی گاڈ فادرز  کا راج ہے۔
عالمی میڈیا جھوٹ کی بنیاد پر مسلمانوں کے قتل عام کو دہشت گردی کا خاتمہ قرار دیتا ہے۔
اجمل قصاب کے جھوٹے گھر کو  دیکھا کر میڈیا نے کون سا سچائی کا کام کیا ہے۔


میڈیا مولویوں کو تو جھوٹا کہتا ہے مگر اپنے آپ کو مقدس گاۓ  تصور کرتا ہے۔
بات تو ہے سچ مگر بات ہے رسوائی کی۔
میں میڈیا میں کام کرتا ہوں، جانتاہوں میڈیا جھوٹ کی بنیاد پر چلتا ہے۔
اگلی بار خادم رضوی صاحب سے دعا کروانا پھر دیکھتے ہیں کون سا اینکر معافی منگواتا ہے۔
ایک معزز شخص نے صرف اس لیے معافی مانگ لیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن اس کا سچ گو نجتا رہے گا۔


 
کاش !ان پیغامات اور آوازوں کی گونج رسائی مولانا تک ہو اور ہم ان کو بتا سکے کہ ہم شرمندہ ہیں۔ ہم خسارے میں ہیں۔ہم لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے نہیں مانتے۔ہم جہالت اور منافقت میں گرفتار ہیں۔ہم اسلام کو سخت گیر مذہب بنا کر پیش کرنے والوں کے پیروکار ہیں۔بحیثیت قوم ہم آپ جیسے شفیق پیشوا کی افادیت کے حقدار نہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hum Sharminda Hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 April 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.