آئی ایم ایف فارن پالیسی اور ہماری معیشت

ہمیں آئی ایم ایف سے 28 ارب ڈالر کے بیل آوٹ کے پیکیج کی ضرورت ہے اس میں بھی کافی کمی واقع ہوگی جو کہ پاکستان کی معیشت کے لئے بہت کامیاب ثابت ہو گا

Rao Jawwad Khalil راؤ جواد خلیل جمعہ 1 مارچ 2019

imf foreign policy aur hamari maeeshat
پاکستان کے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے متعلق مذاکرات کو لے کر عوام کے ذہنوں میں داخل سارے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ تو سوچا کہ آج اس پر لکھا جائے،مثلا دنیا بھر میں کافی ممالک پر خاصا قرض ہے تو قرضہ لینے میں کیا حرج ہے؟ بہت سارے ممالک ایسے ہیں جن پر پاکستان سے زیادہ قرضہ ہے لیکن ان کے اکانومک حالات ہم سے بہتر ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک رائے یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرضہ اس وقت امریکہ پر ہے اس کے باوجود امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔

انکا ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس اچھا ہے۔ وہاں غربت کم ہے لوگوں کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں؟حالانکہ ہم پر قرضہ امریکہ سے کافی کم ہے۔ان عوامل کی وجوہات جاننے کے لئے یہ چیز سمجھنا ضروری ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے میں بہت فرق ہے۔

(جاری ہے)

 

دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ہے ان پر جو بھی قرضہ ہے وہ یا تو ورلڈ بینک کا ہے یا اس ملک کے اندرونی قرضے ہیں۔

جس کو عام طور پر پبلک ڈیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اندرونی قرضے زیادہ تر ملک میں موجود بینکس سے لیے جاتے ہیں۔جن کی شرائط و ضوابط بہت دوستانہ ہوتی ہے۔ تاکہ ملک کے حالات کو مزید بہتر بنایا جا سکے یا پھر بانڈز کا اجراء کیا جاتا ہے جو کہ عام عوام خریدتی ہے اور اس پیسے کو سرکولیشن ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔اور اس میں عوام کو بھی فائدہ دیا جاتا ہے۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لون میں کیا فرق ہے اس کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ کہ جیسے اگر آپ کے گھر میں کوئی شخص بیمار ہے اور آپ کے پاس کھانا پینا چھوڑ کر بھی اس کے علاج کے لئے بھی پیسے نہیں ہے تو ایسے حالات میں جوآپ کو قرضہ دے گا اس کو آئی ایم ایف سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ کے گھریلو حالات بہت اچھے ہیں اور آپ کو اپنا کاروبار مزید بڑھانے کے لئے قرضہ چاہیے تو ایسے حالات میں جوآپ کو قرضہ دے گا اسے ہم ورلڈ بینک سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہ ورلڈ بینک گرو تھ کے لیے صرف ترقی یافتہ ممالک کو قرضہ دیتا ہے۔جس پروجیکٹ کے لیے ورلڈ بینک سمجھتا ہے کہ یہ مستقبل میں خود پیسے کمائے گا یا اس کو نظر آتا ہے کہ یہ ملک ترقی کرے گا۔اسے ورلڈ بینک قرضہ دیتا ہے جس کی شرائط بہت آسان اور دوستانہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرسٹ ریٹ کافی کم ہوتا ہے اور عموما قرضہ کی واپسی کے لئے کچھ گریس پیریڈبھی دیا جاتا ہے۔

گریس پیریڈ سے مطلب یہ کہ کچھ سالوں کے لئے ورلڈ بینک اگر چاہے توآپ کو قرضے کی واپسی میں چھوٹ بھی دے سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کیونکہ ملک کی گروتھ کے لیے قرضہ دیتا ہے اس وجہ سے یہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی پرکشش ثابت ہوتا ہے۔دنیا کی جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک پر جو بھی قرضہ ہے وہ یا تو ورلڈ بینک کاہے یا ان ممالک کے اپنے اندرونی قرضے ہیں ۔

اسی طرح آئی ایم ایف ان ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو بہت زیادہ معاشی بحران سے دوچار ہو ں۔یا وہاں پر بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ کافی زیادہ ہو، ان کی معاشی حالت کافی خراب ہو۔بیلنس آف پیمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی امپورٹ ایکسپورٹ سے کافی زیادہ ہے اور آپ کے پاس ڈالر کی صورت میں دینے کے لئے کرنسی نہیں ہے تو آئی ایم ایف آپکو ڈالر کرنسی میں قرضہ دیتا ہے۔

تاکہ آپ اپنے بیلنس آف پیمنٹ کے مسئلہ کو حل کر سکیں۔لیکن آئی ایم ایف کے قرضے کا بیرونی سرمایہ کاروں پر برا تاثر جاتا ہے وہ سمجھ جاتے ہیں یا تو ملک کی حالات خراب ہیں یا خراب ہونے والے ہیں۔ آئی ایم ایف جس ملک کو قرضہ دیتا ہے اُسکی پالیسی کیسے کنٹرول کرتا ہے؟اس کو سمجھنے کے لئے آئی ایم ایف کاڈھانچہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آئی ایم ایف دنیا کے ۹۸۱ ممالک کا فنڈ پول ہے۔

جس میں دنیا کا ہر ملک اپنی استدعا کے مطابق حصہ ڈالتا ہے۔ تاکہ اگر کسی ملک کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب ہو ں تو اس کو یہ قرضہ دیا جا سکے۔اور جس ملک کا جتنا زیادہ فنڈ پول میں حصہ ہے اس کے مطابق اس کو ووٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔
اوران ووٹوں کی بنیاد پر اس ملک کی آئی ایم ایف کی پالیسی بنانے میں اتنی زیادہ اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ آئی ایم ایف میں تقریبا 16 فیصد کا شئیر ہولڈر ہے اس کے بعد جاپان،چائنا اور جرمنی بالترتیب 6،6 اور 5فیصد کے شئیر ہولڈر ہیں۔

اور اسی طرح دنیا کے باقی تمام ممالک شیئر ہولڈر ہیں اب آئی ایم ایف اگر کسی بھی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو اس قرضہ کی شرائط پر امریکہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتاہے۔کیونکہ امریکہ کا شئیر آئی ایم ایف کے فنڈ پول میں 16 فیصد ہے جو کہ تقریبا آٹھ لاکھ ووٹ بنتے ہیں۔جبکہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے فنڈ پول میں حصہ تقریبا0.43 فیصد ہے جو کہ تقریبا 21 ہزار ووٹ بنتے ہیں۔

آئی ایم ایف میں بھی قرضے کی چار کیٹیگریز فلکسیبل کریڈٹ لائن(FLL)، پری کاشنیری ینڈنگ(PLL)،سٹینڈ بائی ایگریمنٹ(SBA) اور ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (EFF)ہے ان چار کیٹیگریز میں سے پہلی تینوں کے مطابق ان ممالک کو قرض دیا جاتا ہے جنکی صورتحال خرابی کی طرف جانے والی ہو۔ چوتھی کیٹیگری کے مطابق قرضہ ان ممالک کو دیا جاتا ہے جو معاشی طور پر خراب صورتحال میں داخل ہو چکے ہیں۔

پاکستان کو اگر قرضہ دیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ چوتھی کیٹیگری کے قرضہ میں شمار کیا جائے۔
 آئی ایم ایف جب بھی کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو اس میں کچھ شرائط لازمی رکھی جاتی ہیں۔ جن میں اس ملک کی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا،اداروں کی پرائیوٹائزیشن،پبلک سپینڈنگ کم کرنا،انفراسٹرکچر پر انویسٹمنٹ کم کرنا شامل ہیں۔ ان شرائط کا مقصد جو بھی ہو،لیکن تکنیکی بنیادوں پر جو دلائل آئی ایم ایف کی جانب سے دیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اگر آپ اپنی کرنسی کی قیمت کو کم کریں گے تو ملک میں انڈسٹری کی لیبر قیمت ڈالر میں کم ادا کرنی پڑے گی۔

جس کی وجہ سے آپ کی ایکسپورٹ بڑھے گی اور آپ کے اکانومک حالات بہتر ہوں گے۔اور ہمارا دیا ہوا کردہ آپ باآسانی واپس کر سکیں گے۔ گورنمنٹ کے اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی شرط رکھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ اپنے اکانومک حالات بہتر نہیں کرپاتے تو آپ اپنے ادارے پرائیویٹ کمپنیز کو بیچ کر ہمیں ہمارا قرضہ واپس کریں گے۔اسی طرح عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کا اور روزمرہ کی خوردونوش اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کا بھی اسی لئے کہا جاتا ہے تاکہ وہ ملک آئی ایم ایف کا قرضہ واپس کر سکے۔

 
 آج اکیسویں صدی میں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کرنا اسی وقت ممکن ہے جب اس کی فارن پالیسی اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گے کیونکہ انٹرنیشنل ٹرانزیکشنز جتنی بھی ہوتی ہیں وہ ڈالر کی کرنسی میں ہو رہی ہیں اور ڈالر کو آپ اپنی کرنسی کے ساتھ صرف انٹرنل ایکسچینج کر سکتے ہیں۔ بیرونی ایکسچینج کرنے سے آپ کی کرنسی کی ویلیو میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی
 ہے جو کہ ملک کی معاشی حالات کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

جب تک آپ کی ایکسپورٹس بہتر نہیں ہو تی آپ ترقی نہیں کرسکتے کیونکہ تجارتی خسارہ بھی ہمیشہ ڈالرز میں ماپا جاتا ہے۔ ہم لوگ چاہے آئی ایم ایف سے چاہے جتنا بھی قرض لے لیں لیکن ملکی معاشی حالات صرف اور صرف اسی صورت میں بہتر ہوں گے۔ جب ہماری فار ن پالیسی خودمختار،جامع اور ٹھوس ہوگی۔ تاریخ میں ہم نے1958 سے لے کر اب تک تقریبا ایم ایف سے 21دفعہ قرضہ لیا ہے موجودہ صورتحال میں ہماری امپورٹس ایکسپورٹس کی نسبت تقریبا دوگنا ہے اسی حساب سے ہمارا تجارتی خسارہ بھی دوگنا ہے پاکستان کی امپورٹ اور ایکسپورٹس کو بیلنس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران لانگ ٹرم فارن پالیسی مرتب کریں اور دوسرے ممالک کے ساتھ جس قدر ہو سکتا ہے اچھے تعلقات بنانیں۔

اور ایسے تجارتی معاہدات کریں جس سے پاکستان کے سرمایہ کاروں اور ایکسپورٹرز کو ذیادہ سے ذیادہ فائدہ پہنچ سکے۔
 حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے کراؤن پرنس کی طرف سے پاکستان کا کیا جانے والا دورہ امید کی ایک نئی کرن کی صورت میں نظر آتا ہے امید ہے کہ اگر وہ پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کے اور سعودیہ کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور اس انویسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اس کے علاوہ جب بھی اس طرح کے معاہدات کیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں سب سے بڑا فائدہ جو ہوتا ہے وہ آپ کے ملک کی ایکسپورٹ کو ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی بھی دو ممالک تعلقات کے ایسے دور کا آغاز کرتے ہیں جس میں دونوں کا باہمی فائدہ ہو تو وہ ایک دوسرے کی برآمدات کو بڑھانے کے لئے اپنے ملک میں اس ملک سے آنے والی جتنی بھی اشیاء ہوتی ہیں ان پر عموما ڈیوٹی باقی ممالک کی نسبت کافی کم کردیتے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بھی فروغ دیا جاسکے ۔

پچھلے دور میں کیا جانے والاCPEC بھی ایسے ہی معاہدات کی ایک مثال ہے کیونکہ اس میں بھی انویسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چائنہ کے مابین ہونے اشیاء کی برآمدات پر ڈیوٹی دونوں طرف سے کافی کم کردی گئی تھی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جاسکے اگر سعودیہ کے ساتھ انویسٹمنٹ کی یہ ڈیل کامیاب رہتی ہے تو ظاہری طور پر آگرہمیں آئی ایم ایف سے 28 ارب ڈالر کے بیل آوٹ کے پیکیج کی ضرورت ہے اس میں بھی کافی کمی واقع ہوگی جو کہ پاکستان کی معیشت کے لئے بہت کامیاب ثابت ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

imf foreign policy aur hamari maeeshat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.