
بھارت کی داخلی سیاست اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی
29 ستمبر کو بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھارت میں سیاسی تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور اس کی کابینہ تو پریشان ہے ہی کہ اتنے بڑے جھوٹ کو ثابت کس طرح کیا جائے۔ بھارتی عسکری اداروں کے سربراہان بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ اپنے ہی ڈی جی ملٹری آپریشنز کی میڈیا کے سامنے کہی ہوئی بات کی نفی کس طرح کریں
جمعرات 20 اکتوبر 2016

29 ستمبر کو بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھارت میں سیاسی تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور اس کی کابینہ تو پریشان ہے ہی کہ اتنے بڑے جھوٹ کو ثابت کس طرح کیا جائے۔ بھارتی عسکری اداروں کے سربراہان بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ اپنے ہی ڈی جی ملٹری آپریشنز کی میڈیا کے سامنے کہی ہوئی بات کی نفی کس طرح کریں۔ بھارتی جرنیل نے سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے آزاد کشمیر کے جن علاقوں کا ذکر کیا اور جس انداز سے ان علاقوں میں بھارتی کمانڈوز کی طرف سے دہشتگردوں کے لانچنگ پیڈ پر کریک ڈاوٴن کی تفصیلات جاری کیں اسے سن کر ایک لمحے کیلئے تو پاکستان میں بھی لوگ پریشان ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں اوڑی میں بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ کے بعد سے بھارت کی طرف سے بنائے گئے جنگی ماحول سے بھی لگتا تھا کہ بھارت کوئی ہاتھ کر گیا ہے تاہم پاک فوج کی طرف سے ایسے کسی بھی سرجیکل آپریشن کی واضح اور دو ٹوک الفاظ میں تردید کے بعد پاکستان اور بھارت کے اندر سے بھی ثبوت دکھانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
(جاری ہے)
بھارت پاکستان کی طرف سے ایسے کسی بھی ردعمل کیلئے تیار نہیں تھا۔ کانگرس جماعت کے لیڈروں نے بیان دیا کہ جعلی سرجیکل سٹرائیک منظور نہیں‘ بھارتی وزیر دفاع نے زچ ہو کر بیان دیا کہ ثبوت مانگنے والے غدار ہیں۔ پاکستان چلے جائیں۔ راہول گاندھی نے نریندر مودی پر بھارتی فوجیوں کے خون کا سودا کرنے کا الزام لگا دیا تو بھارتی کابینہ کے ایک وزیر نے کانگرس والوں سے سوال کر ڈالا کہ کیا انہیں بھارتی فوج کی صلاحیت پر شک ہے؟ کانگرس کے رکن اور سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی‘ جعلی سرجیکل سٹرائیک کو اترپردیش کے ریاستی انتخابات جیتنے کیلئے تیار کیا گیا ڈرامہ اور سیاسی ہتھیار قرار دے دیا۔ اترپردیش کے ریاستی انتخابات کا ذکر آیا تو بھوجن سماج پارٹی کی سربراہ اور اترپردیش میں اپوزیشن لیڈر مایاوتی نے بھی بی جے پی اور بھارتی وزیراعظم پر لفظی سنگ باری کر دی کہ مودی لائن آف کنٹرول پر جنگ کا ماحول پیدا کر کے یو پی میں حالات خراب کرنا چاہتا ہے تاکہ چند ماہ بعد ہونیوالے انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
بھارت میں داخلی سیاست‘ اس میں شامل مسلمانوں کیخلاف تشدد اور اس صورتحال کا پاک بھارت تعلقات پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کیلئے یہاں اترپردیش کا مختصر سیاسی جائزہ ضروری ہے۔ یو پی میں نچلی ذات، دلت و شیڈول کاسٹ کے ہندووٴں کی آبادی 40 فیصد ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو برہمن، ٹھاکر یا جاٹ وغیرہ 22 فیصد اور دیگر بہت سے ہندو قبائل ملا کر مجموعی طور پر ہندو آبادی 59.37 فیصد بنتی ہے۔ 1.01 فیصد سکھ اور بدھ ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی مبہم یعنی 40 یا اس کے لگ بھگ ہے۔ یو پی کے مسلمان باقی ماندہ بھارتی صوبوں میں آباد مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوش حال ہیں۔ الہ آباد، مراد آباد، اعظم گڑھ، غازی آباد اور لکھنوٴ اسلامی روایات و تمدن کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے ہیں تو دوسری طرف نچلی ذات کے ہندووٴں کی بڑی آبادی بھی اترپردیش سے ہی تعلق رکھتی ہے جن کی معاشرتی حیثیت باقی ماندہ بھارت کے دلتوں یا نچلی ذات کے ہندووٴں سے بہت بہتر ہے۔ لکھنوٴ،اترپردیش کا صوبائی دارالحکومت ہے جو مسلمانوں اور ہندووٴں کیلئے مذہبی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ مسلمانوں کی آبادی چھپانے کیلئے 2015ء کی مردم شماری کے نتائج ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے جبکہ 2001 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یو پی کا 42 فیصد تھی جس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ 2014ء کے مرکزی انتخابات میں بی جے پی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے دھمکی دی کہ وہ اترپردیش کو گجرات بنا دینگے۔ ان کا واضح مقصد یو پی کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا تھا کہ اگر انہوں نے بی جے پی کو ووٹ نہ دیا تو گجرات کی طرح 2002ء میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی خون کی ہولی کی طرح اتر پردیش کے مسلمانوں کوبھی خون میں نہلا دینگے جس کے جواب میں اندرا نیشنل کانگرس کے اترپردیش سے تعلق رکھنے والے لیڈر عمران مسعود نے اعلان کیا کہ اگر مودی نے اترپردیش میں پاوٴں رکھا تو اسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائینگے۔ اس اعلان کے بعد عمران مسعود کو صوبے میں فساد پھیلانے کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا جس کی انتخابات مکمل ہونے کے بعد رہائی عمل میں آئی تاہم اب وہاں کے مسلمانوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ ریاستی انتخابات کی آڑمیں بی جے پی یو پی میں ہندو مسلم فسادات کرانے کی کوشش ضرور کریگی۔ اترپردیش میں انتخابی عمل جنوری 2017 ء سے لیکر مئی 2017ء تک جاری رہے گا۔ یہ الیکشن 403 سیٹوں کیلئے ہو گا۔ بی جے پی فروری 2012ء کے انتخابات میں 51 سیٹیں حاصل کر پائی تھی۔ اندرا نیشنل کانگرس صرف 22 سیٹیں جیت سکی تھی جبکہ سماج وادی جماعت 224 سیٹیں جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ تاہم مرکز میں حکومت بنانے کے بعد بی جے پی نے اترپردیش میں ہندو آبادی والے علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر زور دیا۔ اسکے باوجود سیاسی پنڈتوں کا تجزیہ ہے کہ کماری مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی نے صوبے کے عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ وہ ہندووٴں اور مسلمانوں میں یکساں مقبول ہے۔ اسکے برعکس مایاوتی نے مسلمانوں کیخلاف پرتشدد کارروائیوں میں انتہا پسند ہندووٴں کی کھل کر مخالفت کی اور مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب رہی۔
نریندر مودی کا پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھانے اور بھارت میں جنگی بخار پیدا کر کے اسے یو پی میں سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ فی الحال ضرور ناکام رہا ہے لیکن اپنے مزاج اور ماضی کی تاریخ کیمطابق وہ آنیوالے ہفتوں میں کوئی نہ کوئی ایسی کارروائی ضرور کریگا جس سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
India Ki Dakhli Siasat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 October 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.