جمہوریت اور جمہوری ادارے

ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان میں جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے حوالے سے بہت سے جوابات تشنہ کام ہیں۔ لہٰذا ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے ہیں کہ جمہوریت کے پھلنے پھولنے میں کون سے عوامل ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا قدم قدم پر رکاوٹیں اور مسائل کا عفریت منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے

پیر 1 مئی 2017

Jamhoriyat Or Jamhori Idare
پروفیسر فہمیدہ کوثر:
ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان میں جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے حوالے سے بہت سے جوابات تشنہ کام ہیں۔ لہٰذا ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے ہیں کہ جمہوریت کے پھلنے پھولنے میں کون سے عوامل ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا قدم قدم پر رکاوٹیں اور مسائل کا عفریت منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے۔ ہم آج تک یہ بھی سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ نابغہ روزگار شخصیت کی عدم موجودگی ہے یا یہ کہ خواہش اقتدار ہی بذات خود ایک بڑا مسئلہ جو انتشار اور خون خرابے کی طرف لے جاتا ہے۔

ان سوالات کا حل افلاطون نے اپنی کتاب میں یہ نکالا کہ اگر ریاست کے حکمران فلسفی ہوں تو کاروبار مملکت احسن طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ پھر ایک نئے سوال نے جنم لیا کیا ایک سیاستدان کو فلسفی ہونا چاہئے یا کہ حکومت ہی فلسفیوں کے پاس ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

اس دور کا بادشاہ افلاطون کو اس کے نظریات کی وجہ سے سزا ینے پر تل گیا۔ وہ سزا سے تو بچ نکلا لیکن ایک اہم سوال چھوڑ گیا کہ بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام پر کس گروہ یا طبقے‘ گروہ یا ادارے کی حکومت ہو۔

بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ اداروں کو کیسے منظم کیا جائے۔ تاکہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اگر کوئی حکمران عوامی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو ایسا نظام موجود ہونا چاہئے کہ اسکا مواخذہ کیا جا سکے۔ اور اس بات کا جواب انہیں جمہوری نظام کی صورت میں ملا اور اس نظام کی سب سے بڑی خاصیت آزاد اور خود مختار عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کے بغیر ادھورا سمجھا جانے لگا۔

اور یہی وہ راستہ ہے کہ ہم بہتر سماج کی طرف سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ابتدا سے یہی رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ اختیارات کا توازن اداروں کے درمیان ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فرد ہی ادارہ ہوتا ہے اور شخصیت کی بنیاد پر ہی طاقت کا توازن قائم کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے سیاستدان برے تھے اس لئے بہتری نہیں ہو پائی۔ یا یہ کہ ہمارے پاس الہ دین کا کوئی چراغ نہیں کہ جس کے رگڑنے سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے عوام کو empower کرنے کے لئے جمہوریت کا لبادہ تو اوڑھ لیا لیکن اگر مملکت کا قانون عوام دوست نہ ہو ادارے مضبوط اور فعال نہ ہوں اور آزاد عدالتی نظام نہ ہو تو لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ لوگوں کو بااختیار بنانے کے لئے جمہوریت کے ساتھ قانون کی حکمرانی لازمی شرط ہے۔ جس میں بڑے اور چھوٹے کے لئے یکساں قانون ہو۔

دنیا میں ایک بھی ایسے ملک کی مثال نہیں ملتی کہ جہاں ادارے فعال اور مضبوط رہے ہوں اور وہ ملک اقتصادی اور سماجی ترقی نہ کر پایا ہو۔ ہم یہیں پر غلطی کر رہے ہیں اگر ہم اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جس کی جانب ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔ ملک کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ہماری بھول ہے۔ ہم مملکت کے اداروں کے کردار اور حدود کو سمجھنے میں مسلسل غلطی کر رہے ہیں۔

تب شخصی تصور اور قواعد و ضوابط ہمارے شعور اور مائنڈ سیٹ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہم نے اب تک جس قدر جمہوری تجربے کئے اسکی وجہ ہی یہی تھی کہ ہم اپنے سیاسی شعور میں ان روایات کو پختہ ہی نہ کر سکے جو جمہوریت کا خاصہ ہیں۔ ویسے تو جمہوریت مسلسل پراسیس کا نام ہے اور اسے چلتے رہنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی لغزشوں، کوتاہیوں، ذاتی مفادات اور وہ روایات جو جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہیں۔

ان کا ازالہ نہیں کریں گے تو ہم نے اڑسٹھ سالوں میں جس قدر تجربات کئے کہ پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرکے مملکت میں استحکام پیدا کیا جا سکے ہمارے تجربات ناکام ہوتے رہیں گے۔ جمہوریت کے بارے میں اس بنیادی فکری تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد پر الزام تراشی کی بجائے اس ادارے کی فکر اور اس سے منسلک لوگوں کے مائنڈ سیٹ کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ٹھوس اور دوررس تبدیلی کی امید کی جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhoriyat Or Jamhori Idare is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.