جے آئی ٹی تنقید کی زد میں ، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار

10جولائی کو نہ قیامت آئے گی اور نہ موجودہ نظام حکومت تبدیل ہو گا بلکہ جے آئی ٹی کا بخار اتر جائے گا۔ اس بخار کے اترنے سے کیا ہو گا ، یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ دس جولائی کو جے آئی ٹی عدم وجود کا شکار ہو جائے گی، ان دنوں جے آئی ٹی جس نے دس جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی ہے اس کے بارے میں عرفان قادر سابق اٹارنی جنرل نے ایک نیا سوال پیدا کر دیا ہے

ہفتہ 8 جولائی 2017

JIT Tanqeed Ki Zaad Main
احمد کمال نظامی:
10جولائی کو نہ قیامت آئے گی اور نہ موجودہ نظام حکومت تبدیل ہو گا بلکہ جے آئی ٹی کا بخار اتر جائے گا۔ اس بخار کے اترنے سے کیا ہو گا ، یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ دس جولائی کو جے آئی ٹی عدم وجود کا شکار ہو جائے گی، ان دنوں جے آئی ٹی جس نے دس جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی ہے اس کے بارے میں عرفان قادر سابق اٹارنی جنرل نے ایک نیا سوال پیدا کر دیا ہے ان کے بقول سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں بن سکتی ،جے آئی ٹی کی تشکیل غیر قانونی ہے ، البتہ شریف خاندان اخلاقی طور پر اس کیس میں پھنس چکاہے۔

پاکستان عدلیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی ہو اور بین الاقوامی سطح پر بھی ایسی کوئی نظیر ہمارے سامنے نہیں ہے اس وقت پاناما کیس کی شکل احتساب کا جو غیر معمولی عمل جاری ہے اور دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان بیانات کی جنگ اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ یہ جنگ اپنا رخ ہی تبدیل کر چکی ہے اور ایسے دکھائی دیتا ہے کہ یہ جنگ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین نہیں بلکہ دو شخصیات کے مابین لڑی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

دونوں شخصیات نے اپنے اپنے گروہ میدان میں اتار دیے ہیں جو سیاست کی بجائے ایک دوسرے پر دشنام تراشی کی تمام حدود پار کر چکے ہیں، ماہرین قانون کیا کہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، دس جولائی سے قبل ہی جو تصویر منظرپر ہے اس نے جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا دیا ہے اور اس قدر شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں ۔جس سے تحفظات کی غیر جانبداری داغدار ہو چکی ہے ،اگر چہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

مسلم لیگ (ن) اپنی بانسری بجا رہی ہے اور تحریک انصاف اپنی بین بجا رہی ہے ،حقیقت تو وہی ہو گی جو عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ سنائے گی یہ فیصلہ کب سناتی ہے، کوئی نہیں جانتا لیکن فیصلہ آنے سے قبل ہی غیر جانبدار قانون دانوں تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی طرف شکوک و شبہات نے منظر ہی تبدیل نہیں کر دیا بلکہ سخت تشویش کا قوم شکار ہو چکی ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی تصادم کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔

بد قسمتی سے اس وقت جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اگر فیصلہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے حق میں آتا ہے تو تحریک انصاف کسی صورت چین کی بانسری نہیں بجانے دے گی اور فیصلے کو لیکر حکومت مخالف احتجاج کی حکمت عملی پر عمل درآمد کر ے گی دوسری صورت میں اگر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پاناما کا پل صراط عبور نہیں کر پائے تو مسلم لیگ (ن) کی صفوں سے پیپلز پارٹی کی طرح کسی ” راجہ اشرف “ کولا کر مدت پوری کرنے کا کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا۔

اور اس وقت عمران خان اور ان کے دائیں بائیں کھڑے پیپلز پارٹی سے آنیوالے سیاستدانوں نے الزامات در الزامات اور سیاسی ماحول کو جس طرح گرم کیا ہے اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی بھی گرما گرمی کی فضا پیدا کر رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) جو کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔اس کے کارکن بھی تحریک انصاف کیساتھ دو دو ہاتھ کرنے کیلئے سر گرم ہو رہے ہیں اور ان حالات میں ملک میں افرا تفری ،انتشار کی کیفیت نظر آ رہی ہے پاناما انکوائری کے نتیجے میں سٹاک ایکسچینج بیٹھ چکی ہے کاروبار تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں صنعتکاروں ،تاجروں اور دکانداروں میں بھی صنعتی بحران کے باعث بے چینی کی کیفیت ہے۔

ان حالات میں ملک کسی طور پر بھی کسی بحران کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر ایسے حالات ہوئے تو پھر ملک میں جمہوریت کا بسترا گول بھی ہو سکتا ہے اور اگر کسی شوکت عزیز یا معین قریشی کو لانے کی کوشش کی گئی تو ملک کے عوام اس مرتبہ ایسی صورتحال کوبرداشت کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم لاکھ جمہوریت کی قوالی کریں پاکستان میں سات دہائیوں سے ابھی تک کوئی سیاسی پارٹی جنم نہیں لے سکی او ر مستقبل میں بھی اس کے آثار نہیں ہیں بلکہ سیاسی پارٹی کے نام فرد واحد کے دم قدم سے قائم ہیں ۔

اس بنیاد کو ذوالفقار علی بھٹو نے دوام بخشا لہٰذا متبادل قیادت کے بارے میں سوچنا بھی پاکستان میں ” کفر “ ہے اور اسے شجر ممنوعہ قراد دیا جا سکتا ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ موجودہ حکمران خاندان کے خلاف پانامہ کیس کی شکل میں جو احتساب کا غیر معمولی عمل شروع ہوا اس میں پانامہ تو غائب ہو گیا اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسے ذاتی ” لڑائی“ کا رنگ دے کر اصل مسئلہ کو پس پشت ڈال دیا۔

میاں محمد نواز شریف نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ہمارا احتساب تو 1936سے ہو رہا ہے خدا معلوم انہوں نے یہ بات کس پیرائے میں کی ، لیکن اصل بات تو یہی ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے صاحبزادوں نے ہی آف شور کمپنیوں نہیں بنائیں اس میں تو پاکستان کے دو سو سے زیادہ افراد کے نام شامل ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کا تو کہیں نام نہیں جے آئی ٹی نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان کو ہی کیوں فوکس کیا ہوا ہے حسین نواز اور حسن نواز جے آئی ٹی میں ایک سے زیادہ بار پیش ہو چکے ہیں اور جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو مریم نواز شریف بھی پیش ہو چکی ہونگی۔

لہٰذا باقی افراد سے کیوں نہیں پوچھا جا رہا کہ ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آیا اور انہوں نے ملک کے باہر اپنا سرمایہ کیسے منتقل کیا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے ایک رکن پر الزام ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو و ہ دستاویزات پڑھنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا جو عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی جا رہی تھیں ۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی ان اسباب کی بنا پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

جبکہ وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی نے ایک عید ملن پارٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتوں سے انصاف ہوتا محسوس نہ ہوا تو کارکنوں کے جذبات کو سامنے لائیں گے۔ عابد شیر علی نے مطالبہ کیا کہ پنڈی کے شیخ رشید کو دس جولائی کے بعد عبوری حکومت کے قیام کی بات کس نے بتائی عدالت عظمیٰ کو اس کانوٹس لینا چاہیے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کے بارے میں اور قانون تھا ؟ اور وزیراعظم کے بیٹے کے بارے میں اور قانون ہے۔

وزیراعظم کے مشیر آصف کرمانی نے بھی کہا ہے کہ جب تک قطری شہزادے کا بیان جے آئی ٹی ریکارڈ نہیں کرتی یا قطر نہیں جاتی اس وقت تک پاناما انکوائری پر مسلم لیگ (ن) کے ورکروں کے تحفظات ہیں۔ اسحاق ڈار تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان پر کیلے فورنیا کی عدالت کا فیصلہ ہی کافی ہے، لہٰذا جہاں جے آئی ٹی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے وہاں یہ تاثر بھی ہو تا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے بعض افراد کسی اور طے شدہ ایجنڈا تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ،مسلم لیگ (ن)جن تحفظات کا اظہار کر رہی ہے ضرور ت اس امر کی ہے کہ تحقیقاتی عمل کو تمام شکوک و شبہات سے پاک رکھا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

JIT Tanqeed Ki Zaad Main is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 July 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.