کالی

شیرو ، صوبیدار شیر محمد اور اب حاجی شیر محمد خان سر جھکاے بالکل خاموش بیٹھا تھا. بیوی اور چھوٹے بچوں میں ہمّت نہ تھی کہ پوچھتے اب کیا ہو گا . گاؤں والوں کو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کیا کرے گا

Afshan Khawar افشاں خاور اتوار 26 اگست 2018

Kaali
شیرو ، صوبیدار شیر محمد اور اب حاجی شیر محمد خان سر جھکاے بالکل خاموش بیٹھا تھا. بیوی اور چھوٹے بچوں میں ہمّت نہ تھی کہ پوچھتے اب کیا ہو گا . گاؤں والوں کو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کیا کرے گا . اس میں ایسی کوئی پوچھنے یا سمجھنے والی بات تھی ہی نہیں ، سیدھا سادہ مسلہ اور سیدھا سادہ حل ...سب حیران تھے کہ حاجی شیر محمد خان آخر اتنا وقت کیوں لے رہا ہے.
قانون دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک لکھے ھوے جن میں بہت سے نکات ، موڑ اور ہیرا پھیری کی گنجائش ہوتی ہے .


قانون کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے جو کہیں بھی لکھی نہیں جاتی . یہ تو صدیوں سے ایک نسل کے سینے سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی آتی ہے . یہ قانون بالکل سادہ اور سیدھے ہوتے ہیں . ان میں سمجھنے والی بات نہیں ہوتی ، ان پر بس عمل کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


گاؤں والوں کے لیے یہ فیصلہ سیدھا سادہ تھا اور بس اس پر عمل کرنے کی دیر تھی . مگر حاجی شیر محمد خان کے لیے یہ ٣٨سال کا سفر تھا اور پچھلے ٥ گھنٹے سے وہ اس سفر کو طے کرنے کی کوشش میں تھا .


شیرو ٩ سال کا تھا ، ممدو ٧ سال کا اور بگھا صرف پونے ٢ سال کا .. بگھا ابھی ماں کا دودھ پیتا تھا لیکن دودھ چھڑوانے کی تیاریاں ہو رہی تھی . مولوی صاحب نے صاف صاف مسلہ بتایا ہوا تھا کہ لڑکے کی رضاعت ٢ سال اور لڑکی کی ڈھائی سال ہے . بگھا بہت گول مٹول سا بچہ تھا جو سارا دن صرف ماں کا دودھ ہی پیتا تھا . سب عورتیں اس کی ماں کو سمجھاتی تھیں کہ ابھی سے اسے تھوڑا دور کرنا شروع کر دو ، اگر ایک دم دو سال پر دودھ سے دور کر دیا تو لڑکا بیمار پڑ جاۓ گا۔
کون جانتا تھا کہ بگھا صرف ایک لمحے میں ہی ماں سے دور ہو جاۓ گا .

جدائی اگر موت سے آے تو بڑی آسان ہوتی ہے ، صبر آ جاتا ہے . پر زندہ ہوتے ہوے جدا ہونا بڑا مشکل ہوتا ہے . یہ مشکل شیرو اور ممدو نے تو دیکھی کیونکہ وہ کافی بڑے تھے اور سمجھتے تھے . بگھے کو صبر آ گیا کیونکہ وہ بہت چھوٹا تھا اور وہ یہی سمجھا کہ شاید ماں مر گئی ہے .
ویسے بھی اس عمر کے بچے کو جو اٹھا لے اور کھلا دے ، کچھ دن بعد وہی ماں بن جاتی ہے .


حاجی شیر محمد کو وہ دن آج بھی یاد تھا جب اس کا باپ ان تینوں بھائیوں کو پاس والے گاؤں میں رشتہ داروں کے پاس چھوڑنے گیا . ماں ساتھ نہیں تھی . باپ سے پوچھا تو اس نے بتایا اسے حکیم کے پاس لے جانا ہے ، تم یہیں ٹھہرو اور مٹھائی خرید کر کھانا. باپ شام تک لینے نہیں آیا . چھوٹا بگھا صرف ماں کا دودھ پیتا تھا ، وہ رو کر سو گیا . اگلے دن بگھا جب بہت بھوکا ہوا تو چاچی نے بکری کا دودھ بوتل میں ڈال کر پلا دیا.


٢ دن بعد ابا لینے آیا ، کپڑے بہت میلے تھے اور لگتا تھا بہت دور سے آیا ہے . ماں کا پوچھا تو بتایا مر گئی ہے . دونوں بھائی بہت روئے اور روتے ہوئے ہی گھر پہنچے. گھر میں کافی لوگ جمع تھے . جنازہ کہیں نظر نہیں آیا.
شیرو بڑا تھا ، شام کو باپ سے پوچھا قبر کہاں ہے ماں کی ؟؟ باپ نے صرف اتنا بتایا،،،
"کالیوں کی قبروں کا پتا نہ کوئی پوچھتا ہے اور نہ کوئی بتاتا ہے."
ماں کے بارے میں یہ آخری گفتگو تھی جو باپ بیٹے میں ہوئی .
ایک مرتبہ بعد میں بھی یہ بات چھڑی جب شیرو ، صوبیدار شیر محمد بن چکا تھا اور ابے کا ٹی بی کا علاج چل رہا تھا .

فوج کی طرف سے علاج فوجی ہسپتال میں مفت تھا. ابا کی حالت اچھی نہیں تھی اور ڈاکٹر بتا چکے تھے کہ افیم، حقہ اور نشے کی وجہ سے ابے کے پھیپھڑے جواب دے چکے ہیں . سانس آجکل پر ٹکی ہوئی تھی.
صوبیدار شیر محمد نے کوہ سلیمان کی بلندی سے لے کر سیالکوٹ کے C M H تک کے فاصلے جتنی لمبی سانس لے کر ہمّت جمع کی اور ابے سے پوچھا، کیا تم نے اماں کو واقعی قتل کر دیا تھا؟ ....

دفن کہاں کیا تھا ؟...
ابا کا تیزی سے چلتا ہوا سانس ایکدم رک سا گیا، ٹی بی کی زردی ایکدم سے جیسے موت کی سفیدی میں بدل گئی، صوبیدار شیر محمد ڈر گیا کہ کہیں ابا مر تو نہیں گیا ، پر ابا ابھی مرا نہیں تھا ...
پھر ابے نے بات کرنی شروع کی . ابے نے اماں کو قتل نہیں کیا تھا، قتل کرتا تو پیسے ضائع نہ ہو جاتے جو اس نے اس پٹھانی کو خریدتے ہوے ادا کئے تھے....

ہوا کچھ یوں تھا کہ جس پٹھانی کو اس نے خریدا تھا اور اس سے اس کے ٣ بیٹے تھے، ابے نے اسے شائد کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا یا پھر شاید اسے شک ہو گیا تھا ، تو کالی کے لیے دو راستے ہوتے ہیں ، یا تو اسے قتل کر دیا جائے یا پھر آگے بیچ دیا جائے ، تو ابے نے دوسرا طریقہ اختیار کیا، اس دن ابا ان بھائیوں کو دوسرے گاؤں چھوڑ کر ان کی ماں کو کالی کر کے پہاڑ میں بیچ آیا تھا...
صوبیدار شیر محمد جو پینسٹھ کی جنگ میں دشمن کے ٹینکوں کو دیکھ کر جوش سے اچھلتا تھا ، اسے لگا ان لفظوں نے توپ کے گولے کی طرح اس کے پرخچے اڑا دے .

.. جب اس کو تھوڑا ہوش آیا تو اس نے پوچھا ابا تو نے ماں کو کدھر بیچا؟ ... ابا لاکھ برا سہی پر شائد عزرائیل کی آہٹ سن چکا تھا. اس نے شیر محمد پر اتنا احسان کیا کہ وہ جانے سے پہلے اتا پتا بتاتا گیا ... صوبیدار شیر محمد کو لگا کہ اس نے قسمت کو شکست دے دی اور آخر ماں کا پتہ پوچھ ہی لیا. اگر وہ ایک دن لیٹ ہو جاتا تو ابا یہ راز بھی ساتھ ہی لے جاتا.
ابے کو دفن کرنے کے بعد شیر محمد گھر نہیں آیا، اور موٹر سائیکل پر اندر پہاڑ کی طرف روانہ ہو گیا، اسے لگتا تھا وقت بھی رک چکا ہے، زمین کی گردش بھی ختم ہے، ...
...سورج غروب ہوتے دیکھ کر اسے لگا کہ شاید سورج مغرب سے نکل رہا ہے....


....پر اسے معلوم نہیں تھا ٣٨ سال پہلے یہ سورج ابے کے لیے ایکبار مغرب سے نکلا تھا...
کھوئی کے علاقے کے لوگ ایک ایک پتھر بھی پہچانتے ہیں، شیرو جب وہاں پہنچا تو انہوں نے روایتی انداز میں اس کو خوش آمدید کہا، شیرو نے اس آدمی کا پتہ پوچھا جسے اس کا باپ، اسکی ماں بیچ آیا تھا. جب وہ بندہ آیا تو شیرو نے اس عورت کا پوچھا جو ٣٨ سال پہلے بیچی گئی تھی .
کھوئی کے لوگ بڑے حیران ہوے بھلا کبھی کسی نے کالی کا پتہ بھی پوچھا ہے ؟؟؟؟؟
شیرو نے قرآن آگے رکھ دیا اور ساری بات بتا دی، وہ آدمی بولا تم نے قرآن سامنے رکھا ہے جو چاہے مرے گھر سے اٹھا لو پر وہ عورت دو سال پہلے مر گئی ہے، شیرو کے منہ سے نکلا قبر کہاں ہے، تو اس آدمی نے ذرا دکھ سے کہا وہ عورت بہت اچھی تھی پر میں کیا کرتا، کالی کو قبر دیتا تو کھوئی والے مجھے قبرستان میں نہ دفن ہونے دیتے ....
اگلے دن گھر واپس آیا تو وہ صوبیدار شیر محمد نہیں ، نو سال کا شیرو تھا.

جو درد اس کا تھا ، اس درد کی دوا تو کیا ابھی تک اس کا نام تک نہیں رکھا گیا تھا ،
.... کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ بیوی تو شائد کالی ہوتی ہے پر ماں کو کالی نہیں کیا جا سکتا ...
سب نے پوچھا وہ کدھر رہ گیا تھا ، کچھ نے سوچا شائد باپ کے پاس قبر پر رہ گیا ہو گا .. بات آ ئی گئی ہو گئی، گھر میں اس کی بات کون سمجھتا، بھائیوں کے زخم وہ کریدنا نہیں چاہتا تھا.

بیوی تھی مگر ساری عمر صرف بیوی ہی رہی، کبھی رفیق نہ بنی. لے دے کر ایک بیٹی تھی، اس نے اپنی بیٹی کا نام سرخاب رکھا تھا اور وہ اسے پڑھا لکھا کر B A پاس ٹیچر بنانا چاہتا تھا.
١٥ دنوں کے بعد وہ بیوی بچوں کے ساتھ واپس سیالکوٹ چلا گیا اور ٤ سال بعد ریٹائرمنٹ لے کر لوٹا، کچھ پیسہ ملا تو حج کر کے حاجی شیر محمد بن گیا. ایک سیکنڈ ہینڈ کرولا لے کر ٹیکسی چلانے لگا .

اچھا روزگار چل پڑا . ہر دوسرے دن گاؤں کی کوئی خوشحال فیملی شہر یا قریبی قصبے جاتی یا پھر کسی مریض کو ہسپتال لے جانا ہوتا ، گھر میں خوشحالی تھی. چھوٹے لڑکے اسکول پڑھ رہے تھے، سرخاب نے B A کا پرائیویٹ امتحان دینا تھا اور گھر پر اسے استاد پڑھانے اتا تھا.
ایک دن وہ سواری قصبے چھوڑ کر آیا تو دروازے پر ہی اس کے چچا زاد نے اسے روک لیا اور گاؤں سے دور لے جا کر اسے بتایا کہ اس کی بیٹی اور استاد کے درمیان کچھ چل رہا ہے.

...
حاجی شیر محمد خان، صوبیدار شیر محمد اور شیرو کو لگا کہ شائد دنیا پھر ختم ہونے والی ہے اور گاؤں والے سمجھ چکے تھے کہ سرخاب کا سورج مغرب سے نکل چکا ہے ...
اس نے نہ سمجھتے ہے گھر جا کر سب سے پہلے بیٹی کو بلایا اور پوچھا، بیٹی کا چہرہ بتا رہا تھا کہ باپ نے جو سنا ہے وہ سب صحیح ہے . وہ یہ بھی سن چکی تھی کہ استاد کے کمرے پر صبح سے تالا پڑا ہوا تھا .

حاجی شیر محمد کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کی زندگی اس منحوس دائرے سے نکل کیوں نہیں سکی .
....جو امتحان اس کی ماں سے شروع ہوا وہ اس کی بیٹی تک کیسے پہنچ گیا ...
ہر مسلے کے دو حل ہوتے ہیں، بےغیرتی اور غیرت ... بے غیرتی کے راستے پر چلتا تو سوال بیشمار تھے ، ٣ چھوٹے بیٹے تھے، بہن کی وجہہ سے کیا وہ کبھی سر اٹھا کر چل سکیں گے ؟ کیا وہ خود یہ سہ سکے گا کہ کالی کا بیٹا تھا اس لیے بیغرتی پی گیا.

دوسرا راستہ بالکل صاف اور سیدھا تھا ، بالکل آسان ، جس پر عمل کرنے کے بعد زندگی بھر اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جانا تھا ، وہ راستہ غیرت کا راستہ تھا . اس نے بہت سوچا ، رشتہ دار گھر آے بیٹھے تھے اور اس کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے . اتنے میں مغرب کی اذان ہونے لگی ، شیر محمد کا چچا زاد آگے بڑھا اور کہا .. کاکا بات ختم کرو ، نماز کو دیر ہو رہی ہے ، سب انتظار کر رہے ہیں ، کیا کام مغرب پڑھ کر کرو گے یا ابھی فارغ ہو کر چلتے ہو .....دیکھو تمھارے بیٹے چھوٹے ہیں ، وہ تو اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے .

تمہیں ہی کرنا ہو گے .. ماں کے وقت تو تم چھوٹے تھے ، اب وقت ہے ، اٹھو اور سب کو بتا دو کہ تم بےغیرت نہیں ہو۔۔۔
شیر محمد نے اسی طرح بیٹھے ہوۓ پوچھا ، کا کا آج سورج کدھر سے غروب ہوا ؟؟؟؟
کچھ لوگ ہنس پڑے ، لیکن رشتہ داروں کو دکھ ہوا کہ اس کی حالت ٹھیک نہیں ، کسی نے دلاسہ دیتے ہوے کہا ، کاکا ایسے حادثے انسان کے ساتھ ہو جاتے ہیں ، اب تم تلافی تو کر ہی رہے ہو ....


لیکن شائد شیر محمد اس تسلی بھرے فقرے کو سمجھ نہ سکا ... شیر محمد نے اسی آواز میں دوبارہ پوچھا ، مجھے بتاؤ ، سورج آج کدھر غروب ہوا ، ایک طرف سے کوئی بولا ، مغرب کی طرف اور کہاں ...
شیر محمد زور سے ہنسا ... لوگ بہت گھبرا گۓ اور اسے تسلی دینے کے لیے آگے بڑھے ...
پھر شیر محمد ایک صاف ، ٹھہری ہوئی اور فیصلہ کن آواز میں بولا .. سنو ، سورج ابھی مغرب میں غروب ہوا ہے ، مغرب سے نکلا نہیں ...

اس کا مطلب ہے کہ توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا... کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ مولوی صاحب نے واضح بتایا تھا ، جس دن سورج مغرب سے طلوع ہو گا ، اسی دن توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ... جو در الله نے بند نہیں کیا ، تم اور میں کون ہوتے ہیں اسے بند کرنے والے ...
آج سے میں بے غیرت ہوں ، بے شک تم مجھے اپنے کنویں سے پانی نہ دینا ، مجھے اپنے ساتھ نماز بھی نہ پڑھنے دینا، میرا جنازہ بھی نہ پڑھانا ... لیکن میں اپنی بیٹی سے توبہ کا حق نہیں چھینوں گا ... اور نہ ہی اس پر توبہ کا دروازہ کبھی بند کروں گا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kaali is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.