کراچی ،پانی میں فضلہ شامل ہونے کا انکشاف

شہر قائد سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا ہولناک انکشاف ہوا ہے۔سندھ ہائی کورٹ میں واٹر کمشن کی سماعت ہوئی۔شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کیلئے نقصان دہ ہے۔سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی واٹر کمشن کی سماعت میں ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا اور پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

ہفتہ 22 جولائی 2017

Karachi Paani Main Fuzla Shamil Honay Ka Inkashaf
سید ساجد یزدانی:
شہر قائد سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا ہولناک انکشاف ہوا ہے۔سندھ ہائی کورٹ میں واٹر کمشن کی سماعت ہوئی۔شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کیلئے نقصان دہ ہے۔سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی واٹر کمشن کی سماعت میں ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا اور پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر مرتضی نے بتایا کہ فلٹریشن پانی کے ساتھ گندا پانی بھی مکس ہورہا ہے۔ڈپٹی ایم ڈی واٹر نے اعتراف کیا کہ کراچی میں 19 مقامات پر پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں جبکہ عمارتوں اور گھروں کے زمینی پانی کے ٹینک کئی کئی سال تک صاف نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

جسٹس اقبال کلہوڑہ نے استفسار کیا کہ لوگ لائن کے پانی سے وضو کرتے ہیں تو کیا یہ گندا پانی بھی وضو کیلئے استعمال کیا جائے۔

واٹر کمشن نے شہریوں کو گندا پانی فراہم کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فلٹریشن پلانٹس کا کیا فائدہ جب لوگوں کو صاف پانی نہ ملے۔ٹاسک فورس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی میں ہسپتالوں کو فراہم کردہ 88 فیصد پانی کے نمونے بھی مضر صحت ہیں۔سندھ کے 14 اضلاع کے 71 ہسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کئے گئے،میرپور خاص میں 28 فیصد ،ٹنڈو الہ یار میں 23 بدین میں 33 جامشورہ میں 36 ٹنڈو محمد خان میں 30 حیدر آباد میں 42 لاڑکانہ میں 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا۔

سب سے کم انسانی فضلے کے اجزا تھرپار کر میں پائے گئے۔اس موقع پر واٹر ٹینکر ایسوسی ایشن نے کہا کہ کراچی میں ڈیڑھ سو سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیں۔عدالتی کمشن نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے پوچھا کہ کیا آپ غیر قانونی ہائیڈ رنٹس چلا رہے ہیں۔ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ غیر قانونی کنکشن دینے میں ہمارا عملہ بھی ملوث ہے۔واٹر کمشن نے سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔

کمشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونے انسان جان کیلئے خطرناک حد تک مضر ہیں۔جبکہ کراچی کے 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لئے نقصان دہ نکلے ہیں۔کراچی کے 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لئے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ کے اجزا کی بڑی مقدار پائی گئی ہے۔سب سے کم انسانی فضلہ تھرپار کر کے پانی میں پائے گئے جبکہ کمیشن کے سربراہ نے رپورٹ اور اب تک کی حکومتی اداروں کی کارکردگی پر ناراضی کیا ہے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے عدالتی کمیشن کے سربراہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال لہوڑو نے کمیشن کی کاروائی کی۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو چیئرمین کے پی ٹی ایم ڈی واٹر بورڈ و دیگر حکام کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔دوران سماعت مختلف شہروں سے پینے کے پانی کے نمونوں سے متعلق رپورٹ پیشں کی گئی جس میں انکشاف ہوا کہ سندھ کے مختلف 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونے انسانی جانوں کے خطرناک حد تک مضر پائے گئے جبکہ کراچی کے 90 فیصد پانی کے نمونے پینے کے لئے نقصان دہ ہونے کے علاوہ شہر میں پانی کے نمونوں میں 33 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ پایاگیا ہے۔

اسی طرح ٹھٹھہ میں 75 فیصد،لاڑکانہ میں88 فیصد اور 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلے کے اجزاء پائے گئے۔حیدر آباد میں 42 فیصد نمونوں میں جامشورو میں 36 ٹنڈو محمد خان میں30 فیصد ٹندوالہ یار میں23 بدین میں 33 اور میرپور خاص کے نمونوں میں انسانی فضلے کے اجزا پائے گئے۔رپورٹ کے مطابق سب سے کم انسانی فضلہ تھرپار کر کے پانی میں پائے گئے سندھ کے 14 اضلاع کے 71 ہسپتالوں سے پانی کے نمونے بھی ٹیسٹ کئے گئے جس کے مطابق ہسپتالوں میں فراہم کردہ 88 فیصد پانی کے نمونے مضر صحت جبکہ 33فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہے جو کہ سندھ میں پینے کیلئے استعمال ہونے والا پانی انسانوں کیلئے بے حد خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

رپورٹ پرعدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ایسے فلٹریشن پلانٹس کا کیا فائدہ جب لوگوں کو صاف پانی نہ ملے،پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں۔ لوگ وضو بھی کرتے ہیں کیا یہ گندا پانی وضو کیلئے استعمال کریں۔ ہسپتالوں کا حال اس سے زیادہ خراب ہے چار ماہ بعد بھی کچھ نہیں بدلا‘ کلوری نیشن صبح کرتے ہیں رات کو چوکیدار بند کر کے جا چکے ہوتے ہیں اور پوری رات بغیر کلوری نیشن کے پانی چلتا رہتا ہے کمیشن اس باتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

اس موقع پر ڈپٹی ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ ان میں مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں لائنیں مل گئی ہیں جبکہ فلیٹس اور اپارٹمنٹس کے انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینکس میں کئی کئی سالوں تک صفائی نہیں ہوتی جبکہ ماہر ماحولیات ڈاکٹر مرتضی نے بتایا کہ فلٹریشن پانی سے ساتھ گندا پانی بھی مل رہا ہے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ کی سکیمیں معیاد تین سال کردی گئی ہے۔

انہوں نے 74 منصوبے مقررہ وقت سے پہلے مکمل کئے۔ کمیشن نے اپنی آبزرویشن میں قرار دیا کہ عمل درآمد نہ کرنے پر ذمہ داران کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے گی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ اس حوالے سے آئند سماعت پر دلائل دیں۔اس موقع پر سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچو ہو کمیشن میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ڈی سلائزیشن نہیں ہورہا ہے۔انسوریٹرز اور اسٹالائز بھی خریدنے ہیں، سٹوریج ٹینک صاف کرنا ہسپتالوں کی ذمہ داری ہے۔

کمیشن نے قرار دیا کے سٹوریج ٹینک صاف کرنا ہسپتالوں کی ذمہ داری ہے۔کمیشن نے قرار دیا کہ سٹوریج ٹینک میں تو چھپکلیاں پڑی ہوتی ہیں۔سیکرٹری صحت نے کہا کہ انہیں ایم ایس کے خلاف کاروائی کا اختیار نہیں ہے وہ صرف سفارش کرسکتے ہیں۔سیکرٹریز کو اختیار دیں پھر دیکھیں گے کام ہوتا ہے ،لاڑکانہ میں پیرا میڈیکل کا ایشو چل رہا ہے لیکن مجھے کاروائی کا اختیار نہیں ہے ۔

دوران سماعت سیکرٹری بلدیاتی محمد رمضان پھٹ پڑے اور کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کر پارہے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ نیچے بے حد سیاست ہے ۔کمیشن نے سماعت 29 جولائی تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہا الحسن نے کہا ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع کو ترسیل ہونے والے پانی میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف تشویشناک ہے۔

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ اس خوفناک انکشاف سے کراچی،حیدرآباد، لاڑکانہ،ٹھٹہ اور تھرپارکر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں انسانی زندگی کا تحفظ مشکوک ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سنگین شرمناک انکشاف کے بعد کارکردگی کے جھوٹے دعوے کرنے والوں کو اسی غلیظ پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہیے۔خواجہ اظہار الحسن نے سوال کیا کہ کراچی میں رہنے والے اپنے خون پسینے سے کمائی خطیر رقم ٹیکس کی مد میں اس لئے دیتے ہیں کہ وہ زہریلا پانی سندھ اسمبلی میں زہریلے پانی پر اپوزیشن کی جانب سے مسلسل آواز بلند کی جاتی رہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ اس رپورٹ کا نوٹس لیں اور مجرمانہ غفلت میں ملوث کرپشن میں بدمست حکومت سے جواب طلب کریں۔ اسلا م آباد کے راول ڈیم میں کمیکل پھینکنے کے معاملے کا مقدمہ مقامی مافیا کے خلاف تھا نہ سیکرٹریٹ میں درج کر لیا گیا ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز اسلام آباد محمد صادق کی مدعیت میں درج مقدمے میں با اثر ملزموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تھانے میں درخواست کے ساتھ راول ڈیم کے پانی کی ابتدائی رپورٹ جس کے مطابق ڈیم کے پانی کی کوالٹی کے تمام پیرا میٹرز نارمل ہیں تاہم مردہ مچھلیوں کی جانچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پانی میں کوئی زہریلا مادہ موجود تھا جو مچھلیوں کی موت کا سبب بنا۔ایف آئی آر کے مطابق کیمیائی فضلہ ڈیم میں پھینکے جانے سے ہزاروں مچھلیاں مرگئیں جبکہ مردہ مچھلیوں کی وجہ سے راول ڈیم کے کنارے شدید تعفن پیدا ہوگیا ہے۔

مقدمے میں راول ڈیم کی آلودگی میں اضافے کا ذمہ دار مقامی مافیا کو ٹھہرایا گیا ہے،جو متعلقہ اداروں اور کنٹریکٹر کو بھی ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہے۔ مقامی افراد کا بھی کہنا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے رات کے وقت ٹرکوں میں فضلہ اور کمیکل ڈیم میں پھینکا جاتا تھا۔ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لیبارٹری ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ راول ڈیم کا پانی پینے کے لئے مناسب ہے ۔

محکمہ فشریز کے حکام نے کہا کہ ڈیم میں مچھلیاں پکڑنے اور کشتی رانی پر پابندی عائد ہے مافیا کو مچھلیاں پکڑنے سے روکا گیا جس پر اس نے ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا۔ اب تک کئی من مچھلیاں ہلاک ہو چکی ہیں۔حکام کے مطابق راول ڈیم کے بعد پینے کا پانی بھی زہریلا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔حکام نے بتایا کہ ڈیم کا پانی شدید آلودہ ہوچکا ہے جب کہ زہر ملانے سے متعلق حتمی رپورٹ کا انتظار ہے۔

میئر اسلام آباد اور چیئرمین سی ڈی اے شیخ انصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ راوی ڈیم کا انتظام اور کنٹرول پنجاب حکومت کے پاس ہے۔ڈیم کا پانی راولپنڈی کے شہریوں کو دیا جاتا ہے جبکہ اسلام آباد کو خان پور اور سملی ڈیم سے پانی فراہم کیا جاتا ہے ترجمان واسا نے کہا کہ واسا کو پانی زہریلا ہونے کی اطلاع سمال ڈیم آرگنائزیشن دیتی ہے اور راول ڈیم کے پانی میں زہریلے مواد سے متعلق ابھی تک متعلقہ ادارے نے اطلاع نہیں دی۔

ڈیم سے آنے والے پانی کا روزانہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے اس پانی میں زہریلے مواد کے شواہد بھی نہیں ملے۔ڈیم کی 400 کنال اراضی پر بااثر شخصیت کا قبضہ ہے۔وزیراعظم نے چائنہ کٹنگ کو نوٹس لے لیا ہے۔ مختلف اداروں کی لیبارٹریز کی رپورٹ آنے کے بعد پانی کی سپلائی بحال کی ہے پاکستان آبی وسائل کی تحقیقاتی کونسل (پی سی آر ڈبلیو آر) پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ پاک ای پی اے کی لیبارٹریز کی ابتدائی رپورٹس میں راول ڈیم میں بڑی تعداد میں مچھلیوں کی ہلاکت کے بعد راولپنڈی ،اسلام آباد کوپانی کی سپلائی اتوار کی دوپہر بند کردی گئی تھی اور کہا جارہا تھا کہ راول ڈیم کے پانی میں مبینہ طور پر زہریل مواد ملائے جانے کی وجہ سے مچھلیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

اس معاملے کی تہہ تک جانے کیلئے واسا نے اپنی لیبارٹری سمیت دیگر لیبارٹریوں سے بھی راول ڈیم کا پانی ٹیسٹ کروایا جنہوں نے پانی کو پینے کیلئے موزوں قرار دیدیا جس کے بعد ایم ڈی واسا راجہ شوکت محمود پانی کے ڈیم سے راولپنڈی کے شہریوں کا پانی کی سپلائی بحال کردی۔ پاکستان تحفظ ماحولیات ایجنسی (پاک ای پی اے)نے راول ڈیم سے مردہ مچھلیوں کو فوری تلف کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے راول ڈیم کی مانیٹرنگ کمیٹی کا اہم اجلاس آج بلالیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل پاک ای پی اے فرزانہ الطاف شاہ نے جنگ کو بتایا کہ 2004ء میں اس طرح کا واقعہ پیش آچکا ہے اس وقت بھی پانی میں اکسیجن کم ہوجانے کے باعث بڑی تعداد میں مچھلیاں ہلاک ہوگئی تھیں۔گزشتہ روز کے واقعہ میں سلورفش ہلاک ہوئی ہیں جن میں قوت برداشت بہت کم تھی۔15 سو مردہ مچھلیوں کو راول ڈیم سے الگ کرلیا گیا ہے جبکہ باقی مردہ مچھلیوں کو بھی وہاں سے گھلنے سڑھنے سے پہلے نکالنے کیلئے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد کو کہہ دیا گیا ہے،تمام شہریوں کا ناقص پانی کی فراہمی شہریوں کیلئے صحت وصفائی کے اطمینان بخش انتظامات ہر حکومت کی لازمی ذمہ داری ہوتے ہیں اس انسانی جانوں کیلئے خطرناک حد تک مضر اور کراچی کے 90فیصد پانی کے نمونوں کا نہ صرف ناقص ہونا بلکہ ان میں سے اکثر میں انسانی فضلہ کے اجزا ء کی بڑی مقدار کا پایا جانا مقامی اور صوبائی انتظامیہ کی اہلیت کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے عدالتی کمیشن کے سربراہ نے بالکل بجاطور پر حکومتی اداروں کی اس کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے والے راول ڈیم میں ہزاروں ٹن مچھلیوں کی پر اسرار ہلاکت کے بعد ڈیم سے شہریوں کو پانی کی فراہمی عارضی طور پر بند کردی گئی ہے۔اور مختلف اداروں نے پانی میں زہریلے مواد کی تصدیق کیلئے نمونے حاصل کرلئے ہیں۔

پاکستان آبی وسائل تحقیقاتی کونسل نے شہ ظاہر کیا ہے کہ مچھلیوں کی ہلاکت کی وجہ آکسیجن کی کمی یاپانی میں پی بی فیکٹر کی زیادتی بھی ہو سکتی ہے اگر کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے جو کبھی صحت و صفائی کی مثال ہوا کرتا تھا لیکن اداروں کی نااہلی اور صوبائی و مقامی حکومتوں میں اختیارات کی جنگ نے اسے مسئل کا گڑھ بنادیا ہے۔راول ڈیم نیز کراچی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں پینے کے پانی میں زہریلے اثرات کی موجودگی اور غلاظت کا شامل ہونا انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

سیاست سے بالاتر ہوکر پورے ملک میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا جنگی بنیادوں پر بندوبست کیا جانا چاہیے۔اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ عالمی معیار کی لیبارٹریز میں ہر علاقے کے پانی کا تجزیہ کرایا جائے ،پانی کے خستہ حال پائپ تبدیل کئے جائیں،پانی فراہم کئے جانے والے ڈیموں کو غلاظت اور آلودگی سے پاک کیا جائے اور اول ڈیم میں مچھلیوں کی ہلاکت کے اصل عوامل کا پتا لگا کر آئندہ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے ضروری کاروائی کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Karachi Paani Main Fuzla Shamil Honay Ka Inkashaf is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.